دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہر زندگی اہم ہوتی ہے ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائیو اور بہنو، مجھ سے منافقت نہیں کی جاتی۔ جھوٹ نہیں بولا جاتا۔ کسی بات کو غیر مشروط بھی نہیں سمجھتا۔
مہاتما کذاب پر حملے کے بعد اچھے خاصے سمجھ دار دوست بھی جذباتی ہورہے ہیں۔ تقاضا کررہے ہیں کہ حملے اور تشدد کی غیر مشروط مذمت کی جانی چاہیے۔ اچھا!
بینظیر بہت قیمتی تھیں لیکن ان کا خون اور بے نام شہیدوں کا خون ایک جیسا تھا۔ ہر زندگی اہم ہوتی ہے۔ مجھے پیپلز پارٹی اس لیے پسند ہے۔ انیس اکتوبر کے دھماکے میں مارے جانے والوں کو گڑھی خدا بخش قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ہر بے نام قبر کے کتبے پر لکھا گیا، میں بھٹو ہوں۔
پی ٹی آئی کنٹینر سے کچلی گئی صدف نعیم صحافی ہونے کے ناتے ہماری بہن تھیں۔ کنٹینر سے ٹکرا کے مارے گئے نوجوان کا خون اہم تھا۔ فائرنگ کی زد میں آکر جان گنوانے والا غریب کئی بچوں کا باپ اہم تھا۔ میں ان قیمتی زندگیوں کے نقصان پر بے حد رنجیدہ ہوں۔
لیکن جیسا کہ میں نے کہا، میں منافقت نہیں کرسکتا۔ کسی کے مرنے پر خوشی نہیں مناتا لیکن ہر موت پر جھوٹ موٹ غم بھی نہیں مناسکتا۔ عامر لیاقت مرا تو میں نے لکھا، مرگیا مردود۔ وہ دوسروں کے قتل کے فتوے دیتا تھا۔ اس کے مرنے سے یہ خطرہ ختم ہوا۔ ارشد شریف کے قتل سے اس کے بچے یتیم ہوئے۔ بے حد دکھ کی بات ہے۔ لیکن مجھے لکھنا پڑا کہ وہ خطرناک کھیل میں پڑگیا تھا۔ ہر موٹرسائیکل چلانے والا موت کے کنویں میں موٹرسائیکل نہیں چلاسکتا۔
مہاتما کذاب کا معاملہ الگ ہے۔ ایک آدمی نے ہزار جھوٹ بولے ہیں۔ اس کا اعتبار کیسے کریں۔ بدزبان اور بدعقل ہے۔ ملک کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ معیشت ڈبودی۔ سیاست کو زہرآلود کردیا۔ دو نسلوں کو گمراہ کرکے یوتھیا بنادیا۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اسے مار دینا چاہیے۔ ہرگز نہیں۔ اسے طویل زندگی ملنی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لعنت سمیٹ سکے۔ میرا موقف یہ ہے کہ مجھے اس حملے پر شک ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس نے لانگ مارچ کی ناکامی پر مزید ذلیل ہونے سے بچنے کے لیے خود یہ ڈراما کروایا ہو۔
مبینہ حملہ آور کا بیان قطعی ناقابل اعتبار ہے۔ پی ٹی آئی کی کسی بات پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں کون سا جھوٹ انھوں نے نہیں بولا۔ تحقیقات سے کوئی سچ برآمد ہونے کا یقین کرنے والے بھولے ہیں۔ کبھی کسی تحقیقات سے کوئی سچ پتا چلا ہے؟
میرا خیال ہے کہ مہاتما کا نشہ اتر چکا تھا۔ اسے احساس ہوگیا تھا کہ اب اس کی خواہشات پوری نہیں ہوسکتیں۔ فوج مخالف ہوچکی اور اگلا آرمی چیف اس کی مرضی سے نہیں لگ سکتا۔ انتخابات دس ماہ سے پہلے نہیں ہوں گے۔ لانگ مارچ ناکام ہوچکا ہے۔ کئی پارٹی لیڈر ساتھ چھوڑنے والے ہیں۔ امریکا، ترکی اور سعودی عرب اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے۔ چین نے شہباز شریف کے ساتھ بڑے وعدے کرلیے ہیں۔ یعنی کچھ بھی حسب توقع نہیں ہورہا۔
حسب توقع وہی تھا جو میں ایک ہفتہ پہلے کہہ چکا تھا۔ کہانی کے ٹوئسٹ کا اندازہ کرچکا تھا۔ اب میں کیسے مان لوں کہ ایک مجہول شخص پستول لے کر آیا اور یوتھیوں کے نبی کو شہید کرنے کی کوشش کی۔ اگر کس دوست کو اس بات پر یقین آگیا ہے تو پورا نہ سہی، آدھا یوتھیا تو وہ ضرور ہے۔
ڈریکولا کے سینے میں صلیب گاڑی جائے گی تو چیخ پکار تو مچائے گا۔ اگر آپ تشدد کی غیر مشروط حمایت کے نام پر رکیں گے تو ڈریکولا کو نئی زندگی مل جائے گی۔ پھر وہ مزید معصوم لوگوں کا خون پیے گا۔ اگر آپ اسے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔
وما علینا الا البلاغ المبین

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author