عبداللہ صالح بلوچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیلاب کے بعد تونسہ شریف و ڈیرہ غازی خان میں لوگوں کی زندگیوں پر کافی گہرے اثرات پڑے ہیں۔
جس میں تقریباً ہر شعبہ سے منسلک افراد متاثر ہوا اور تاحال حکومت کی طرف سے خاطر خواہ اقدام یا کوئی منصوبہ بندی نہیں نظر آسکی۔
گورنمنٹ کی طرف سے پاکستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ٹیمز تشکیل دی گئی۔ جنہوں سے 25 جولائی سے متاثرہ ہونے والے علاقوں میں اکتوبر/نومبر میں نقصانات کے تخمینے کے لیے سروے کیا۔
اس سروے میں متاثرہ افراد کے نقصانات کے ازالے کے لیے لسٹس اور پیسوں کی ترسیل دسمبر میں شروع کی گئی۔
ان لسٹس میں 50٪ متاثرین کے نام موجود نہیں ہیں۔ جنہوں نے اسٹنٹ کمیشنر تونسہ اور ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان کو سینکڑوں کی تعداد میں درخواستیں دے رکھی ہیں۔
جن کو سردیاں شروع ہونے کے بعد گھر بنانے کےلیے امداد مہیا کی گئی۔ وہ بھی مکمل نقصانات کا ازالہ نہیں ہے۔
تونسہ شریف و ڈیرہ غازی خان کی بیشتر آبادی کسان ہے۔ جو گندم و دیگر فصلات سے سال کے کھانے و مال مویشی کا چارہ اکھٹا کرتے ہیں۔
پنجاب ایریگیشن ڈپارٹمنٹ کو سال 22/21 بجٹ کی مد میں آفات کی مد میں10.7 بلین روپے مہیا کیے گئے۔
چشمہ رائٹ بینک کینال
ڈیرہ جات کا 606,000 ایکڑ سیراب کرتی ہے جو 25 جولائی سے سیلابی ریلوں کے بعد مختلف جگہوں سے ٹوٹ چکی ہے۔
کینال کو 14/03/2022 کو واپڈا نے ایریگیشن ڈپارٹمنٹ پنجاب کے حوالے کردی۔
اس سے سیلاب زدہ علاقوں میں شدید قسم کا غذائی قلت کے بحران کا خدشہ ہے۔
اسی طرح پنجاب ایریگیشن ڈپارٹمنٹ نے اپنی ویب سائٹ میں رودکوہیوں کو اپنی حدود میں بتایا ہے۔
اس مد میں پنجاب ایریگیشن ڈپارٹمنٹ نے کروڑوں روپے 20/21 بجٹ میں ڈیرہ غازی خان کا حصہ مختص کیا ہے۔
جس کا پہلے اور اب تک استعمال کہیں نظر نہیں آرہا۔
منگروٹھ سمیت 90٪ علاقوں میں سیلابی پانی رودکوہی کا بند ٹوٹنے, حفاظتی بند پر قبضوں اور پانی کے راستے میں روکاوٹیں ہونے کی وجہ سے آیا۔
سوال ہے ایریگیشن ڈپارٹمنٹ نے سیلاب سے پہلے پانی کے قدرتی راستوں کی صفائی و راستہ توڑنے و بدلنے والوں کے خلاف کتنی کاروائیاں و پیسے خرچ کیے تھے؟
اسی طرح سیلاب کے بعد بند توڑنے والوں، راستہ موڑنے والوں اور راستوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف ڈپارٹمنٹ نے قانونی کارروائیاں نہیں کی۔
ساتھ میں ٹوٹے ہوئے رودکوہیوں کے راستوں کی دوبارہ مرمتی کہیں بھی شروع نہیں ہوسکی۔
سیلاب کے بعد لوگوں نے اپنی استطاعت کے مطابق گزر بسر کرنا سیکھ لیا ہے۔
گورنمنٹ کی طرف سے تاحال کوئی خاطر خواہ پالیسی مرتب نہیں کی گئی۔ اگر اسی طرح غفلت برتی گئی تو اگلے کئی سالوں تک یہ علاقے اپنی پرانی صورت میں نہیں آسکیں گے۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی