حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صد شکر کہ حب الوطنی کی دعویداری کا شوق چرایا نہ کبھی حب البرتنی مرغوب ہوئی۔ جو ہیں جیسے ہیں یہی بہت ہے اور درست بھی ۔ طعنے بازوں کا کیا ہے، آپ کسی سے اختلاف کرکے دیکھ لیجئے جواب میں طعنے ہی طعنے، کسی کی ہاں میں نہ ملائیں، کسی کے شہید کو شہید نہ سمجھیں پھر دیکھیں "وہ” کیسی درگت بناتے ہیں۔
شکر ہے کہ ہم پورے چونسٹھ برسوں سے پیر فقیر راحموں کے مقلد ہیں۔ بہت پہلے اس نے ہمیں یہ سمجھادیا تھا۔ ظالم اور مظلوم اپنے اپنے اور شہید و غازی بھی ، بھاگ جانے والے البتہ کسی کے نہیں ہوتے انہیں صرف جان پیاری ہوتی ہے۔
فقیر راحموں ہمارے ہمزاد نہ ہوتے تو عین ممکن تھا سفر حیات اس طور طے نہ کرپاتے جیسے طے کرلیا۔ اس نے قدم قدم پر حوصلہ دیا کبھی جی ہار بیٹھے تو اس نے سمجھایا، شاہ، ہارے ہوئے لشکر اور آدمی کا وارث کوئی نہیں بنتا۔
فقیر کی بس ایک عادت اچھی نہیں، کوئی کتاب خریدو یا دوست تحفے میں بھیجے اس کا مطالبہ ہوتا ہے کتاب پہلے وہ پڑھے گا۔ ایک دن ہم نے کہا یار فقیر یہ تم کتاب پہلے پڑھنے کی ضد کیوں کرتے ہو؟
جواب ملا، شاہ، بزرگوں کا فرض ہے دیکھتے رہیں نوجوان کیا پڑھ رہے ہیں۔ یقین کیجئے اس لفظ ’’نوجوان‘‘ نے بڑی فرحت بخشی۔ بہت سال ہوتے ہیں ’’بزنس ریکارڈ‘‘ میں ہماری مرتب کردہ کتاب ’’انتخاب نہج البلاغہ‘‘ پر تبصرہ شائع ہوا۔
تبصرہ نگار نے لکھا ’’نوجوان صحافی حیدر جاوید سید نے قبل ازیں بھی متعدد کتب مرتب کیں چند کتب ان کی تصنیف کردہ بھی ہیں‘‘
ہم نے پانچویں جماعت میں زیرتعلیم اپنی بیٹی فاطمہ حیدر کو کتاب پر شائع شدہ تبصرہ دیکھاتے ہوئے کہا، بابا جانی دیکھو یہ کیا لکھا ہے؟ اس نے چند لمحے توجہ سے اخبار دیکھا پھر ہنستے ہوئے کہا، بابا اس صحافی انکل سے کہیں کہ وہ کسی اچھے سے معالج چشم کو دیکھالیں۔
ہمیں غصہ بہت آیا مگر عین ان سموں فقیر راحموں نے کاندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا ’’شاہ، بیٹیوں میں رب بولتا ہے‘‘ ان سے بحث نہیں کرتے۔
یہ تقریباً 15سال پہلے کی بات ہے ہم نے فقیر راحموں کی بات مان لی۔ پھر کبھی خود کو نوجوان نہیں سمجھا۔ ویسے یہ ایک طرح سے اچھا بھی ہوا کونکہ اس کے بعد ہم نے لڑنے جھگڑنے اور لگی ہوئی نوکری کو دھکے مارنا چھوڑدیا۔ نوکریوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا یہ ایک تکالیف سے بھری داستان ہے۔ مالکان مالکان ہی ہوتے ہیں مالکان کے دیئے دکھوں کی وجہ سے پچھلے کچھ عرصہ سے فقیر راحموں نے شاعری شروع کردی ہے۔ نثری نظمیں لکھ کر جی بہلاتا ہے۔
ہم نے ایک شاعر دوست سے فقیر راحموں کی نثری شاعری پر رائے مانگی تو بولے شاہ جی، اسے اظہار کرنے دیجئے، کتھارسس ہوتا رہے گا۔ سچ پوچھیں تو ہمیں ڈر لگتا ہے کہ فقیر اپنی نثری شاعری کی وجہ سے کسی گردش میں پھنس گیا تو ہم کیا کریں گے اس کے بغیر تو سانس لینا محال لگتا ہے۔
تمہید طویل ہوگئی اصل میں ہوا یوں کہ ہمارا ارادہ تھا کہ کینیا میں قتل ہوئے پاکستانی اینکر ارشد شریف کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پر کالم لکھا جائے۔ فقیر راحموں مانع ہوگیا۔
اس نے ایک سوال کیا، بولا شاہ یہ بتائو یہ ریاستی دہشت گردی سے قتل ہونے والا صحافی سلیم شہزاد کسی کھیت میں اُگا تھا یا درخت پر؟
کیا مطلب، ہم نے پوچھا۔ کہنے لگا سلیم شہزاد کے اغوا اور سفاکانہ قتل پر صحافیوں کا ایسا ردعمل کیوں نہیں تھا اکثریت تو اپنے کالموں اور پروگراموں میں اسے غیرملکی ایجنٹ اور این جی او مافیا قرار دیتی رہی۔
کیا اس کے والدین بہن بھائی عزیزواوقارب نہیں تھے انہیں انصاف کی ضرورت نہیں تھی۔ کیوں اس وقت سپریم کورٹ نے کریمنل انکوائری کروانے کی بجائے جوڈیشل کمیشن بناکر مٹی پائو پروگرام میں حصہ ڈالا؟
عرض کیا ہم نے تو اپنے کالموں میں اس معاملے پر ایک سے زائد بار لکھا تھا۔ فقیر راحموں نے ہنستے ہوئے کہا یار شاہ تجھے کتنی غلط فہمی ہے کہ تم بھی کوئی دھانسو مارکہ کالم نگار اور توپ چیز ہو۔ شکر کرو روزی روٹی کا سلسلہ قائم ہے۔
سلیم شہزاد قتل کیس میں انصاف کیوں نہ ہوا اس کا خون رزق خاک کیوں ہوا۔
یقین مانئے فقیر راحموں کے سوالوں کا جواب ہمیں معلوم ہے لیکن ہم لکھیں گے بالکل نہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم پچھلے پندرہ سولہ برس سے خود کو بوڑھا سمجھنے لگے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے ابا اور ایک چھوٹا بھائی ضرور فوج میں تھے ایک دو اور عزیز بھی۔ ابا اور بھائی خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔ ایک عزیز اب سبکدوش ہوچکے۔ اب دور دور تک کوئی جان پہچان والا عزیز و دوست فوج میں نہیں ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر معلوم سوال کا جواب لکھ دیتے ہیں تو پھر توہین عدالت کا ٹھپہ لگے گا۔ اب ہم اسد عمر اینڈ کمپنی تو ہیں نہیں کہ معافی مانگ لیں جو کہیں گے ڈنکے کی چوٹ پر کہیں گے اور اس پر ’’اڑ‘‘ جائیں گے ۔ اس کہنے اور ’’اڑ‘‘ جانے کا نتیجہ بھگتنے کا ہم میں حوصلہ نہیں ہے اس لئے ’’اِک چُپ تے سو سُکھ‘‘۔
فقیر راحموں کا مشورہ بہت درست ہے اوکھلی میں سر دینے کا کیا فائدہ۔ مرحوم پنجابی شاعر بابا عبیر ابوذری کہا کرتے تھے ’’مغروں کردا پھریں ٹکور تے فیدہ کی‘‘
ہمارے ایک دوست ہیں رانا سعید احمد، مہربانی کرتے ہیں کبھی ہماری خواہش پر اور کبھی اپنی پسند پر کوئی کتاب بھجوادیتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے تین چار کتابیں بھجوائی ہیں۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ کسی جھمیلے میں پڑنے کی بجائے آج سے ان کتابوں کا مطالعہ شروع کردیتے ہیں۔ صفدر زیدی صاحب کا ناول ’’بنتِ داہر‘‘ بھی دانشور و محقق بلال حسن بھٹی کی مہربانی سے ہم تک پہنچ ہی گیا ہے یہ بھی پڑھنا ہے۔
کتابوں کی دنیا شاندار ہے۔ ہم نے چند دن قبل اسد محمد خان کی تصنیف ’’یادیں‘‘ گزری صدی کی، کا مطالعہ کیا۔ اسد محمد خان کی اس تصنیف سے قبل خورشید رضوی صاحب کے لکھے خاکوں پر مشتمل کتاب ’’بازید‘‘ پڑھی تھی۔ ہر دو صاحبان کی اردو بھی اتنی شاندار ہے جتنے وہ خود۔ نئی نئی تراکیب اور الفاظ پڑھنے کو ملتے ہیں آپ جب بھی ان دو صاحبان کو پڑھیں گے۔
حال ہی میں معروف سندھی سیاستدان اورپی پی پی کے سینیٹر مولا بخش چانڈیو کی روداد جیل ’’رودادِ قفس‘‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ ہوکر شائع ہوئی ہے۔ چانڈیو صاحب نے کتاب سندھی میں تحریر کی تھی سندھی دوستوں کے بقول کتاب دوستوں اور سیاسی کارکنوں میں ’’رودادِ قفس‘‘ بے پناہ مقبول ہوئی۔ علی زاہد نے سندھی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے کتاب پڑھ کر ترجمے اور کتاب کے ساتھ چانڈیو سائیں کے تجربات زنداں پر عرض کروں گا۔
ایک طالب علم کے طور پر ہم ہمیشہ اس بات کے معترف رہے کہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سیاستدان اور سیاسی کارکن کتاب دوست ہیں۔ اکثریت وسیع مطالعہ ہے بہت سوں کی ذاتی لائبریریاں ہیں اوپر تلے آئے مارشل لائوں اور تجارتی سیاست کی بیماری نے تینوں صوبوں میں بھی سماجی سیاسی رویوں کو برباد کیا پھر بھی رہنمائوں اور کارکنوں کی بچی کھچی نسل کے جتنے لوگ بھی حیات ہیں یہ غنیمت ہیں۔
ہمارے سرائیکی وسیب میں بھی 1990ء سے قبل کتاب دوستی بہت زیادہ تھی پھر پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی۔ پنجاب میں بھی بہت سارے دوست کتابوں سے محبت کرتے ہیں لیکن مطالعے اور فکری وسعت میں اہل پنجاب، سندھیوں بلوچوں اور پشتونوں سے آج بھی بہت پیچھے ہیں۔
مہنگائی جس طرح بڑھ رہی ہے ظاہر ہے کتابوں کی قیمتیں بھی آسمان کو چھورہی ہیں۔ تین سوا تین سو صفحات کی کتاب لگ بھگ بارہ سے پندرہ سو روپے میں ملتی ہے پھر بھی پڑھنے والے جیسے تیسے کتاب حاصل کرہی لیتے ہیں۔
دوسرے سماجوں کی طرح ہمارے ہاں بھی آجکل سوشل میڈیا کا دوردورہ ہے۔ اکثر لوگ کتاب اور مطالعے سے عدم رغبت پر کڑھتے ہوئے پوسٹیں لگاتے ہیں۔ انکا دکھ سوفیصد بجا ہے لیکن انہیں ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ ہمارے نصاب تعلیم میں تو انسان سازی بطور مضمون شامل نہیں تو یہ نصاب نئی نسل کو مطالعے کی طرف کیسے راغب کرسکتاہے۔
مطالعے کا شوق اب انفرادی ہوکر رہ گیا ہے۔ اِکادُکا کسی نوجوان کو مطالعہ اچھا لگتا ہے ورنہ اکثریت نوکری کے لئے تعلیم حاصل کرتی ہے اور اسی کو علم بھی سمجھتی ہے۔
ایک زمانہ میں سکولوں میں بزم ادب ہوا کرتی تھی ہفتہ وار تقاریر و تحریری مقابلے ہوتے تھے۔ جب بزم ادب وغیرہ ہوتے تھے ان دہائیوں نے کیسے کیسے نابغہ دیئے ہمارے سماج کو۔ کبھی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء یونین ہوتی تھیں ۔ دستیاب سیاسی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے۔
جب تک طلباء یونین تھیں مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کو تسلسل کے ساتھ نیا خون ملتا رہا۔ تعلیم تجارت بنی تو بزم ادب ختم ہوئی۔ آمریت کے جبر نے طلباء یونین کو نگل لیا۔ نتیجہ ہمارے اور آپ کے سامنے ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ’’کوئی تو ہے جو روشن فکر سماج کی جگہ دولے شاہی چوہوں کے غول پیدا کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے‘‘ وہ کون ہے ہم اور آپ جانتے ہیں مگر اس کا نام لینے سے خوفزدہ ہیں، کیوں؟ اس سوال پر غور کیجئے جواب مل جائے گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ