مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ملک میں کئی خفیہ ایجنسیاں ہوتی ہیں۔ ان کا کام اپنے ملک کے رازوں کو بچانا اور دوسرے ملکوں کے راز حاصل کرکے اپنے ریاستی مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔
برطانیہ میں دو اداروں کا نام سب جانتے ہیں۔ ایم آئی فائیو اندرون ملک اور ایم آئی سکس بیرون ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی ہے۔ امریکا میں اٹھارہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں۔
ہر ملک کی ایک سے زیادہ ایجنسیاں خود مختار ہوتی ہیں۔ وہ حکومت کے زیر انتظام تو ہوتی ہیں اور بجٹ کی رقم بھی اسی سے لیتی ہیں لیکن اس کے احکامات پر نہیں چلتیں۔
امریکا کی ایجنسیاں صدر تک کو نہیں بخشتیں۔ رچرڈ نکسن کا کیس ایک مثال ہے۔ اب ٹرمپ کے پیچھے لگی ہیں۔ اصل مقصد کسی کی سیاست ختم کرنا نہیں، ملک کے مفادات کی حفاظت کرنا ہے۔
بڑے ملکوں کی ایجنسیاں بھی بڑی ہوتی ہیں اور ان کا پھیلاؤ زیادہ ہوتا ہے۔ بجٹ اور منصوبے زیادہ ہوتے ہیں۔ طاقت زیادہ ہوتی ہے۔ پھر یہ کیسے قابو میں رہتی ہیں؟ کیا یہ آپس میں لڑتی ہیں؟
بہتر نظام والی ریاستیں کسی ادارے، محکمے اور عہدیدار کو مطلق العنان نہیں بننے دیتیں۔ ہر اکائی کے فرائض اور اختیارات کا دائرہ کھینچ دیا جاتا ہے۔ نگرانی اور احتساب کا طے شدہ طریقہ کار ہوتا ہے۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ایجنسیوں کے دائرے غیر واضح ہیں اور یہ دائرے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ میرا گمان ہے کہ ہر سرکاری ادارے، محکمے، سیاسی جماعت اور میڈیا ہاؤس میں کم از کم دو بڑی ایجنسیوں کے مخبر بیٹھے ہیں۔ یہ ایجنسیاں مسلسل کشمکش میں رہتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ان کے سربراہ کا ان پر مکمل اختیار ہو۔
پرویز مشرف کے خلاف وکلا کی تحریک ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ ایم آئی مشرف کے ساتھ تھی اور آئی ایس آئی وکلا کا احتجاج منظم کررہی تھی۔
پاگل خان کے پہلے لانگ مارچ میں بھی آئی ایس آئی اس کے ساتھ تھی۔ نواز شریف نے آرمی چیف کے ساتھ ملاقات میں آئی ایس آئی چیف کے منہ پر یہ بات کہہ دی تھی۔ مشاہد اللہ خان نے بی بی سی کو اور پھر جیو کو انٹرویو میں یہ بات بتادی تھی۔
میں سات ہزار میل دور بیٹھا ہوں اور چند منٹ کی خبریں پڑھ کر پاکستان کی صورتحال کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ لیکن تاریخ یہی ہے کہ لانگ مارچ آئی ایس آئی ہی منظم کرتی ہے۔ آرمی چیف کون بنے گا، سارا جھگڑا اس بات کا ہے۔ اور یہ جھگڑا سیاسی جماعتوں کے بیچ نہیں، ایجنسیوں کے درمیان ہے۔
میری خواہش ہے کہ لانگ مارچ پرامن رہے۔ لیکن اگر پرامن رہا تو اس کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ نواز شریف اپنی مرضی کا آرمی چیف لے آئیں گے اور مہاتما کی سیاست ختم ہوجائے گی۔
اگر لانگ مارچ پرامن نہ ہوا تو کسی بڑے آدمی کی جان جاسکتی ہے۔ اس بار فوج میں درون خانہ لڑائی بھی خارج از امکان نہیں۔ کچھ ایسا بھی ہوسکتا ہے جس کی ہم توقع نہیں کررہے۔
کیا معاملات ٹھیک ہونے کی کوئی صورت ہے؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔ ایجنسیاں سفاک ہوتی ہے اور سیاست دان احمق۔ عقل کوڑوں کے مول دستیاب ہو تو بھی نہیں لیتے۔ اور اب تو مہنگائی کا زمانہ ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ