مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈاکٹر مختار ظفر کی تحقیقی کتاب!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر مختار ظفر کی ماں بولی پنجابی ہے مگر آپ کی تحقیق کا محور وسیب ہے کہ انہوں نے صرف تحقیق ہی نہیں وسیب سے بھرپور محبت بھی کی ہے، یہی بات ان کی ہر دلعزیزی کا باعث ہے۔ ملتان کے معروف ریسرچ سکالر و ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر مختار ظفر کی کتاب ’’ ملتان کی شعری روایت ‘‘ در اصل ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے ۔ ڈاکٹر مختار ظفر اپنی کتاب کا آغاز خواجہ فریدؒکے شعر ’’ اتھ درد منداں دے دیرے ، جتھ کرڑ کنڈا بٖوئی ڈھیرے ‘‘ سے کر کے گویا خواجہ فرید سے اپنی عقیدت مندی کے ساتھ سرائیکی کے عظیم صحرا چولستان سے بھی اپنی محبت کا ثبوت دیا ۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ خواجہ فرید کے مذکورہ بالا شعر اور احمد فراز کے شعر ’’ ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی ‘‘ کا مفہوم ایک ہے ۔ ان سطور میں تقابلی جائزہ مقصود نہیں صرف اتناعرض کرنا ہے کہ ڈاکٹر مختار ظفر نے روہی کے ’’ کرڑ کنڈے اور بٖوئی ‘‘ سے بسم اللہ کی ہے تو اس کی کوئی وجہ ؟ جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ یہ کہ ڈاکٹر مختار ملتان میں بستے ہیں لیکن ان کے اندر چولستان بستا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کے بزرگ مشرقی پنجاب سے چولستان کے علاقہ حاصل پور میں آباد ہوئے ، ستلج کے ہٹھاڑ میں ان کو رقبے ملے ۔ ستلج جب ٹھاٹھیں مار کر بہتا تھا اس کا جوش اور جوانی انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ۔ وہ خود بتاتے ہیں کہ میں ابھی چھوٹا تھا کہ ہمارے پڑوس میں مقامی ہٹھاڑی بھائیوں کی شادی ہوتی تو میں بھاگ کر وہاں پہنچتا ، سرائیکی گیت ، سرائیکی جھمر اور شادی کی مقامی رسمیں مجھے مسحور کر دیتیں۔ میرا بہت دل کرتا کہ میں اٹھوں اور رقص میں شامل ہو جاؤں مگر جس ترتیب اور ردھم سے وہ جھمر کھیلتے اور ساتھ ساتھ میٹھے سرائیکی گیت گاتے وہ مجھے نہ آتے تھے لیکن یہ ضرور ہوا کہ سرائیکی تہذیب ، ثقافت اور زبان کی مٹھاس میری روح میں رچ بس گئی، اور میری یہ کتاب ’’ ملتان کی شعری روایت‘‘ اس کا ایک ادنیٰ سا اظہار ہے ۔ ڈاکٹر مختار ظفر یہ بھی بتاتے ہیں کہ میری آباد کار بھائیوں کیلئے درخواست اور مشورہ یہ ہے کہ باہر سے آنیوالے تمام بھائیوں کو سرائیکی جھومر میں اتنی محبت اور اتنے انہماک سے شریک ہوجانا چاہئے کہ نئے اور پرانے سرائیکی ملکر کہہ سکیں کہ ’’ ہن میں رانجھن ہوئی ، ریہا فرق نہ کوئی ‘‘۔ڈاکٹر مختار ظفر نے’’ ملتان کی شعری روایت ‘‘میں جہاں معروف شعرا عبداللہ نیاز، اسد ملتانی ، علامہ طالوت ، کشفی ملتانی ، کیفی جام پوری اور شفقت کاظمی کے فن و فکر کے بارے میں بہت کچھ بتایا ہے وہاں ملتان کے بارے میں بھی درد مندی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کائنات کی وسیع ترین تہذیبی سلطنت کو ایک محض چھوٹے سے ضلع تک محدود کر کے ’’پنڈ ‘‘ بنا دیا گیا ہے ۔ اس بارے میں معروف ادیب محترم شمیم ترمذی نے بجا طور پر لکھا کہ ’’ چونکہ ان قلم کاروں کا تعلق ’’ اردو شہر ‘‘سے نہیں ’’ ملتانی گاؤں ‘‘سے تھا ، اس لئے ان کی اردو تخلیقات کو بھی ان کے ماحول ، ان کے مقامی حوالے سے پرکھا گیا ‘‘ اس سلسلے میں میری گزارش محض اتنی ہے کہ اگر آج ملتان کو کوئی پنڈ کہتا ہے یا کوئی گاؤں ۔ اس میں قصور جاگیرداروں ، تمنداروں کے ساتھ ساتھ ان ادیبوں اور قلمکاروں کا بھی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’تاریخی اعتبار سے ملتان ایک ذات نہیں ایک کائنات کا نام ہے ۔ ماہرین آثارِ قدیمہ نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ ملتان کائنات کے اُن چند خاص شہروں میں سے ایک ہے جو ہزارہا سال سے مسلسل آباد چلے آ رہے ہیں۔ماہرین کا اس بات پر بھی کامل اتفاق ہے کہ تاریخ عالم میں ملتان صرف ایک شہر کے طور پر نہیں بلکہ ایک تہذیب ایک معاشرت اور ایک سلطنت کے طور پر کرہ ارض پر موجود رہا ۔ 373ھ کی ایک تصنیف ’’حدود العالم بن الشرق الی الغرب‘‘ میں سلطنت ملتان کے بارے لکھا گیا ہے کہ ملتان کی سرحدیں جالندھر پر ختم ہوتی ہیں۔ ایک اور کتاب ’’سیرالمتاخرین‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ خطہ بہت زیادہ زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع و عریض بھی ہے، ایک طرف ٹھٹھہ ، دوسری طرف فیروز پور ، جیسلمیراور کیچ مکران تک کے علاقے اس میں شامل ہیں۔ابوالفضل کی مشہور کتاب ’’آئین اکبری‘‘ میں بھی ملتان کی یہی حدود درج ہیں ۔‘‘جس طرح خوشبو اپنا تعارف آپ ہوتی ہے اسی طرح ڈاکٹر مختار ظفر کی شعری روایت بھی اپنا تعارف آپ ہے ۔ جیسا کہ مولوی نور الدین کے لکھے ہوئے سرائیکی نور نامے کی تاریخ ایک ہزار سال سے زائد ہے۔ بابا فرید الدین گنج شکرؒ 1280ء میں ملتان کے نواح کوٹھے والا میں پیدا ہوئے۔ اسی طرح دیگر سرائیکی شعراء بہاء الدین زکریا ، حضرت شاہ شمس ملتانی ، حافظ جمال اللہ ملتانی ، علی حیدر ملتانی ، صابر ملتانی ، بہار ملتانی ، طالب ملتانی ، ڈتن ملتانی ، کمتر ملتانی ، عاشق ملتانی ، بسمل ملتانی ، شاغل ملتانی ، عاجز ملتانی ، گانمن ملتانی ، شاہ ولایت ملتانی ، دلجوش ملتانی ،عبرت ملتانی ، ناطق ملتانی ، نظام ملتانی ، صالح ملتانی ، خادم ملک ملتانی ، عیسن شاہ ملتانی ،فرحت ملتانی ، امید ملتانی ، حیات ملتانی ، ارشد ملتانی کے ساتھ ساتھ حبیب فائق (1934)، ملک اقبال حسن بھپلا (1943) ، علاماتی فکری 15 جولائی 1917ء وفات 20 دسمبر 1986ئ، منیر فاطمی 11 ستمبر 1948ئ، اسلم انصاری 30 اپریل 1940، طاہر تونسوی 1948ئ، اقبال ارشد 22 اکتوبر 1940ئ، عاصی کرنالی 2 جنوری 1927ئ، بے دل حیدری 20ا کتوبر 1926ئ، حیدر گردیزی 1924 وفات 7 جون 1991ئ، عزیز صدیقی 1922ئ، اسلم یوسفی 1922ئ، کشوی ملتانی 15جنوری 1902ئ، حیدر راغب 1918ئ، کیفی جام پوری 1905ئ، علامہ نسیم طالوت اور بہت سے دوسرے شعرا پر بھی تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر مختار ظفر چودھری نے اپنا فریضہ ادا کیا ہے اور یہ بھی بڑی بات ہے کہ آپ نے علامہ نسیم طالوت جیسی ہستی پر بھی کام کیا ہے۔ اب یونیورسٹیوں کے نئے ریسرچ سکالروں کو چاہئے کہ وہ تحقیقی کام کو آگے بڑھائیں۔

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: