رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی خود اُگائی سبزی کے کھیت کی دیکھ بھال میں کبھی کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوا‘ مگر گزشتہ ماہ کے شروع میں برطانیہ کا سفر اور وہاں دوہفتوں کے قیام کے دوران فکر لاحق تھی کہ کہیں پانی کی کمی واقع نہ ہو جائے۔ سبزی کی جڑیں تو زیادہ تر تین‘ چار انچ زیر زمین گہرائی سے زیادہ تک نہیں جاتیں۔ وقت پر پانی نہ ملے اور جڑی بوٹیاں نہ نکالی جائیں تو پودے اپنا رنگ نہیں جماتے۔ لاہور میں قدم دھرتے ہی اتوار کو اپنی محدود زراعت پر کچھ گھنٹے کام کرنے کی منصوبہ بندی کرلی۔ صاف اور نکھرے نکھرے دن‘ شفاف دھوپ اور نیم خنک موسم میں سبزی عجب سی بہار دکھارہی تھی۔ انتظامیہ نے ہماری درخواست پر اساتذہ کو فارم الاٹ کر رکھے ہیں۔ کئی سال پہلے ہم نے یہ تجویز دی تھی کہ ہمیں اپنی سبزی اگانے کے لیے خالی زمین پر کاشت کاری کی اجازت دی جائے‘ اور ساتھ ہی یہ کہ کچھ ملازمین بھرتی کیے جائیں جو بغیر کھاد اور کرم کش ادویات کے سبزی لگائیں اور جامعہ میں کام کرنے والوں کو فروخت کریں؛ تاہم اس بابت سخت اختلاف رہا کیونکہ یہ تجویز اس درویش کی طرف سے تھی یا پھر ہمارے گروہی سردار‘ پروفیسر مشتاق احمد خان کی طرف سے۔ ہم چونکہ بحث سے گریز کرتے ہیں‘ اس لیے اپنا دعویٰ واپس لے لیا۔ خوشی کی بات ہے کہ ہمارے سردار زیادہ متحرک ہیں۔ دیگر کو ترغیب دینے کے علاوہ خود بھی بڑھ چڑھ کر سبزی کاشت کرتے ہیں۔ دس بارہ کے قریب ایسے سبزی کے فارم ہیں۔ ہماری اور دوسروں کی کاشت کاری میں فرق یہ ہے کہ وہ اجرت پر مزدور حاصل کرکے کاشت کرتے ہیں جبکہ ہم اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کے عادی ہیں۔ ہماری اچھی اور بری عادتیں رہی ہیں اور بعض میں تو ابھی تک کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ ان میں سے ایک جہاں بھی جگہ ملی‘ کچھ نہ کچھ سبزی ضرور کاشت کی ہے۔
پانی لگاتے او ر صفائی کرتے ہوئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تیزی سے گزر گیا۔ کمر سیدھی کرنے کے بعد دیکھا تو نظر سامنے جڑی بوٹیوں پر پڑی۔ ایک دفعہ اٹھ کر ادھر اُدھر نظر دوڑائی تو ایک آدمی کچھ دیر سے مجھے کام میں مصروف دیکھ رہا تھا۔ کیاریوں میں پانی چھوڑ کر تھکاوٹ دور کرنے کی غرض سے میں اس کے پاس چلا گیا۔ ہمارے کھیتوں کے ساتھ کار پارکنگ ہے جہاں ڈرائیور صاحب لوگوں کے بچوں اور بچیوں کو جامعہ میں لانے اور لے جانے کے لیے آتے جاتے ہیں۔ یہ ان میں سے ایک تھے۔ بات شروع کرنے کے لیے میں نے پوچھا کہ کیا آپ بھی سبزی اگاتے ہیں؟ جھٹ سے بولے کہ نہیں‘ ہم تو بازار سے لیتے ہیں۔ پوچھا کہ گھر میں کیوں نہیں بوتے؟ جواب وہی تھا جو اکثرلوگوں سے سننے کو ملتا ہے کہ سبزی کے لیے جگہ نہیں۔ میں نے کہا کہ چھت تو ہوگی‘ وہاں گملوں میں مٹی بھر لیں اور دوچار ایسی چیزیں جیسا کہ دھنیا‘ پودینہ‘ سلاد اور لہسن اگائیں۔ روزانہ آپ کو کچھ نہ کچھ حاصل ہو جائے گا۔ مجھے اپنے ضلع فیصل آباد کے بارے میں بتانے لگے کہ اب تو دیہات میں بھی زمینیں نہیں رہیں۔ لوگوں نے گھر بنا لیے ہیں۔ آبادیاں پھیل گئی ہیں۔ اور جہاں کسی زمانے میں باغات تھے‘ سبزیاں اور اناج کاشت کیا جاتا تھا‘ اب وہاں رہائشی کالونیاں بن گئی ہیں۔ اب پتا نہیں لوگ کہاں سے بازار میں سبزیاں لاتے ہیں۔ مگر ہر کوئی وہاں سے ہی خرید لاتا ہے۔
میں اس کی بات سننا چاہتا تھا۔ اور اس کی سچی باتوں میں مجھے لطف بھی آنے لگا تھا۔ ایک بڑے صنعت کار گھرانے کا ذکر کیا جن کی فیصل آباد کے قریب ایک ہزار ایک سو پچیس ایکڑ زمین تھی۔ دہائیوں سے وہاں فصلیں کاشت ہوتی تھیں۔ اس مال دار گھرانے نے مزید مال بنانے کے لیے ایک ہائوسنگ سوسائٹی بنا کر کھیتوں کو شہر میں تبدیل کر دیا ہے۔ خیر ہر جگہ ایسا ہی ہورہا ہے۔ اور وہ وقت اب دور نہیں جب ہم گندم‘ دالوں اور خوردنی تیل کے علاوہ سبزیاں بھی بیرونی ممالک سے منگوائیں گے۔ یہاں میں نے سوال داغ دیا کہ اگر سب کچھ ہم باہر سے درآمد کریں گے تو بدلے میں ہم ان کو کیا بیچیں گے؟ نیز خریداری کے لیے رقم کہاں سے آئے گی؟ وہ خاموش ہوگیا۔ اس کا تو مجھے پتا نہیں۔ میں نے اس کا دل رکھنے کے لیے یہ نہیں بتایا کہ اب بھی ہم کچھ سبزیاں ہمسایہ ممالک سے ہی خریدتے ہیں۔ تاہم ذرا بات بڑھانے کے لیے میں نے پوچھا کہ زرعی زمینیں رہائشی سوسائٹیوں میں کیوں تبدیل ہورہی ہیں؟ کہا کہ سر آپ کو نہیں پتا‘ ہماری آبادی بڑھ رہی ہے۔ میں نے ویسے ہی کہہ دیا کہ آزادی کے وقت ہماری آبادی تین کروڑ تیس لاکھ تھی جو اب بڑھ کر بائیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہماری شرح افزودگی بھارت اور بنگلہ دیش سے اب بھی دوگنا ہے۔ پھر سر آپ ہی سوچیں کہ ہم سبزی کہاں کاشت کریں۔ اب تو ہر جگہ گھر ہی بنیں گے۔ سر آپ ہی بتائیں کہ حکومت اس بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کیوں نہیں کرتی۔ میں نے کہا: یہ تو ہر آدمی کو خود ہی سوچنا چاہیے کہ وہ کتنے بچوں کی پرورش کر سکتا ہے کہ اُنہیں مناسب خوراک‘ لباس‘ تعلیم اور صحت کی ضرورت ہو گی۔ افسوس‘ ایسا نہیں ہوگا۔ وہ نہیں سوچے گا۔ یہ بات صر ف عوام پر نہیں چھوڑی جا سکتی۔ اور ویسے بھی ہماری قوم کی عادتیں بگڑ چکی ہیں۔ حکومت قانون بنائے اور اس پر عمل کرائے۔ پولیس کے سپاہی کی مثال لے لیں۔ جب وہ وردی میں ہوتا ہے تو اس کا رعب اور خوف ہوتا ہے۔ وہی جب وردی کے بغیر ہوتا ہے تو لوگ اسے خاطر میں نہیں لاتے۔ وردی میں ہو تو اسے سب راستہ دے دیتے ہیں۔ گویا طاقت اثر رکھتی ہے۔ زبان سے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
سر آپ دیکھیں کہ عمران خان نے بھی ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ آپ خود ہی بتائیں کہ نواز شریف صاحب ملک سے باہر کیسے چلے گئے تھے؟ آصف علی زداری صاحب کیوں آزاد پھرتے ہیں؟ قانون کیا ہمارے لیے ہی رہ گیا ہے؟ اور بھی بہت سے لوگ ہیں جن کے بارے میں میرے ہم کلام نے جی بھر کے بھڑاس نکالی۔ اس نے تو لگے ہاتھوں ایسی ایسی باتیں کر ڈالیں جن کی وجہ سے ماضی میں کئی دوست زیر عتاب آئے تھے۔ میں نے اس سے کہا کہ پھر لکھ لوں آپ کا نام؟ وہ سینہ تان کر بولا کہ لکھ لیں۔ جب سب باتیں کر چکے تو پوچھنے لگا کہ سر ملک کا کیا بنے گا؟ کیا ملک ایسے ہی چلے گا؟ عمران خان کے ساتھ بھی تو لوگ اچھے نہیں ہیں۔ دوبارہ اقتدار میں آبھی گیا تو کیا کرلے گا؟ اس کا دور بھی تو لوٹ کھسوٹ میں کسی سے کم نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ میں خاموش ہوگیا۔ اور کیا کہتا؟ بس اتنا ضرور کہا کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں‘ اچھے دن ضرور آئیں گے۔ قوم بیدار ہوگی۔ ملک ترقی کرے گا اور ہم سب کو انصاف ملے گا‘ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ بندہ ذرا دھڑلے کا تھا۔ کہنے لگا کہ آپ مذاق کررہے ہیں۔ میں نے ٹالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ باتیں اخبار میں لکھنے جا رہا ہوں۔ اجازت ہو تو نام لکھ دوں؟ بولا کہ میرا نام ضرور لکھیں… محمد عارف۔
میرا کام ابھی باقی تھا اور واپس جانے سے پہلے مکمل کرنا چاہتا تھا۔ یہ ہماری دل لگی بھی ہے۔ قدرت سے قرب اور محبت کا اظہار بھی۔ اور پھر اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ سبزی توڑنے تیار کھیت کی طرف جانے کا بھی اپنا بانکا غرور ہے۔ اور یہ بانکپن اس عمر میں بھی سلامت ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ