حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرہ ارض کے سب سے بڑے امریکہ دشمن اور اسٹیبلشمنٹ مخالف انقلابی سیاستدان عمران خان نے ایک بار پھر ’’زور‘‘ دے کر کہا ہے کہ ’’اسٹیبلشمنٹ نئی شروعات کرنا چاہتی ہے تو پھر ظالموں کوفارغ کرے‘‘۔
فقیر راحموں کے خیال میں شاعر اس شعر میں 2018ء جیسی محبتوں اور کرم نوازیوں کا طلبگار ہے۔
ہمارے ایک عزیز پیر سید ضامن علی شیرازی کی چونکہ فقیر راحموں سے ان بن رہتی ہے اس لئے انہوں نے بتادیا کہ شاعر اس شعر میں پیغام دے رہا ہے کہ آئو مل کر ملک سنواریں۔
عین ممکن ہے فقیر راحموں درست کہہ رہا ہو یہ بھی ہوسکتاہے کہ پیر ضامن علی شیرازی درست ہو۔ دونوں بھی درست ہوسکتے ہیں۔
ہمارے ایک سسرالی عزیز (اللہ تعالیٰ انہیں بلند درجات عطا فرمائے) سید جرار حسین زیدی شہید اس وصف کے حامل تھے کہ کسی کو ناراض کرتے نہ غلط کہتے۔
ایک بار کسی معاملے پر دو متحارب مذہبی تنظیموں کے درمیان تنازع پر ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جب ایک فریق کا نمائندہ بات مکمل کرتا تو بھائی جرار اپنی نستعلیق اردومیں کہتے، ارے میاں کیا خوب اور درست کہا۔دوسرے فریق کا نمائندہ اپنی جوابی غزل مکمل کرتا تو بھائی جرار کہہ اٹھتے، واہ میاں کیا سلجھی ہوئی بات کی۔
بھائی تین چاربار جب اپنی داد لُٹا چکے تو فقیر راحموں نے بھناتے ہوئے کہا، زیدی صاحب پہلے یہ بتائیں آپ ہیں کس کے ساتھ؟
جواب ملا، میاں تم سب میرے بچوں کی طرح ہو اچھی بات کرو گے تو داد تو دوں گا ہی۔ بس اب یہی حال ہمارا ہے۔
فقیر راحموں اور پیر سید ضامن علی شیرازی کے بول بچنوں میں ہم دونوں کو یکساں داد دینے پر اس لئے مجبور ہیں کہ ایک ہمارا ہم دم و ہمزاد ہے دوسرا برادر عزیز۔
البتہ یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ ہمیں بھائی جرار حسین زیدی کی طرح شہادت کا کوئی شوق ہرگز نہیں کیونکہ ابھی مشکل سے ہم چونسٹھ برس کے ہوئے ہیں ۔
ان لحموں میں جب ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں چونسٹھ برس میں ایک ماہ کم کے ہیں ہم ۔ یعنی تریسٹھ سال اور گیارہ ماہ ہوگئے سفر حیات طے کرتے ہوئے ۔ اس ’’کم عمری‘‘ میں بہت جہاں دیکھے شہر گائوں قصبے، کبھی حصول علم کے لئے اور کبھی روزگار کے لئے۔
اب کبھی کبھی ہمارا جی چاہتا ہے کہ غمِ روزگار کے جھمیلے نہ ہوں۔ دور کہیں کسی دیہاتی ماحول میں چھوٹا سا گھر ہو، کتابیں دوست بھجوادیا کریں۔ اخبار پڑھیں، ٹی وی دیکھیں۔ ملاقاتیوں سے گپ شپ ہو۔
ہائے لیکن چوتھی جماعت کے برس سے مزدوری کرتے اس عمر کو آن پہنچے ہیں۔ ہمارا بچپن محنت مشقت میں گزرا۔ جوانی تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق سے لڑتے بھڑتے گزر گئی ۔ قیدوبند سے نکلے تو زندگی نئے سرے سے ڈھب پر گزارنے کی سعی کی۔ وہ ماہ و سال جو بیت گئے ان کے بارے میں فقیر راحموں کا کہنا یہ ہے کہ ’’مٹھی سے ریت پھسل گئی” شاہ جی،
زندگی بھلا ایسے تھوڑا ہی گزرتی ہے قلم مزدوری کے ابتدائی دنوں میں ہم اخبار میں بچوں کا صفحہ بنایا کرتے تھے۔ ہمارے ہم عصر لوگوں بالخصوص کراچی والوں کو یاد ہوگا کہ 1970ء کی دہائی میں کراچی سے شائع ہونے والے دوپہر کے اخبارات میں صفحہ تین ۔ چار حصوں میں تقسیم ہوتا تھا اس پر روزانہ کی بنیاد پر فلمی دنیا، کھیلوں، تعلیمی سرگرمیاں اوربچوں کے لئے چوتھائی صفحہ ہوا کرتا تھا۔
تب اخبارات پر ایک دن کی پیشگی تاریخ بھی طبع ہوتی تھی اس کی وجہ یہ ہوتی کہ دوردراز کے علاقوں میں اگلی صبح اخبارات اسی دن کے شمار ہوا کرتے تھے۔
ہم نے ان برسوں میں کم و بیش تین ساڑھے تین سال بچوں کا صفحہ بنایا کچھ عرصہ شوبز والا حصہ بھی ترتیب دیا۔ قلم مزدوری کے ابتدائی برسوں میں پندرہ بیس دن رپورٹر بھی رہے لیکن پھٹے توڑ مزاج کی وجہ سے اس وقت سندھ کے وزیر قانون سید عبداللہ شاہ مرحوم (شاہ جی مرحوم، سندھ کے موجودہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے والد ہیں) سے ایک پریس کانفرنس میں الجھ پڑے۔
عین ممکن ہے کہ وزیر صاحب کے محافظ اورساتھی ہماری گستاخی پر درگت بنادیتے لیکن سینئر صحافیوں کی وجہ سے بچ گئے ہم۔
اس شام اساتذہ نے فیصلہ سنایا کہ کل سے ادارتی صفحہ پر کام کرو گے۔ جناب نسیم چغتائی کا کہنا تھا صاحبزادے چونکہ تمہیں مضامین کی نوک پلک سنوارنے کا تجربہ ہے اور لکھنے پڑھنے کا شوق بھی اس لئے ادارتی صفحہ ہی بہتر رہے گا۔ خلیق تبسم امروہوی کے خیال میں ہم جیسا جھگڑالو رپورٹنگ کے لئے مس فٹ ہے۔
بہرحال ہوا یہ کہ ہم رپورٹنگ کی دنیا سے ادارتی صفحہ کے میدان میں اترے اور پھر اس صفحہ کے ہوکر رہ گئے اور اب بھی ادارتی صفحہ کی دنیا میں رہتے جیتے ہیں ۔
جرائد کی دنیا میں قلم مزدوری کے تجربات الگ ہوئے۔ وہاں سیاسی مضامین لکھنے کے ساتھ انٹرویو وغیرہ بھی کرنا پڑتے تھے۔ ہفت روزہ جدوجہد کراچی میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا لیکن تربیت اور تجربوں کی دنیا کے لئے ماہنامہ ’’زنجیر‘‘ لاہور میں بطورایڈیٹر ملازمت کا عرصہ خوب رہا۔
92صفحات کے اس ماہنامہ میں جو ہر ماہ باقاعدگی سے شائع ہوتا تھا ہمیں لگ بھگ 87صفحات خود لکھنا پڑتے تھے کبھی کبھار ایک دو دوستوں کے مضامین مل جاتے تو عید ہوجاتی ورنہ چاروں صوبوں کی سیاسی ڈائریاں، مین سٹوری، ایک دو انٹرویو وغیرہ کے ساتھ ہلکے پھلکے کالم خود لکھا کرتے تھے
تب ناموں کی ایک فہرست جیب میں دھری رہتی۔ ابن انور، ابنِ سید ، ابن شہید، راجی بخاری، سید شہریار حیدر ۔ فقیر راحموں اور چند قلمی نام اور بھی ہوتے۔ مین سٹوری اور انٹرویو پر ظاہر ہے ہمارا ہی نام ہوا کرتا تھا۔ سچ پوچھیں تو ’’زنجیر‘‘ میں ڈیڑھ برس کام کرنے کے باوجود ہم نے عشرے بھر برابر تجربہ حاصل کیا۔
ہفت روزہ ’’رضاکار‘‘ لاہور کی ادارت ہم نے لگ بھگ پانچ برس کی یہاں تو خبریں سرخیاں بنانے، پروف ریڈنگ کے ساتھ اداریہ اورکالم لکھنا اور اشاعت کے لئے آنے والے مضامین دیکھنا فرائض کا حصہ تھے۔
مشکل اس لئے پیش نہ آتی کہ ایک زمانے میں جب ہم رحیم یار خان سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’شہادت میں کام کرتے تھے تو خبریں سرخیاں بنانے اداریہ لکھنے کے ساتھ مانیٹرنگ بھی خود کرتے۔
اخباری دنیا میں جن دوستوں نے مانیٹرنگ سیکشن میں ذمہ داریاں ادا کی ہیں وہ جانتے ہیں کہ سب سے مشکل کام یہی ہے۔ بی بی سی آل انڈیا، ریڈیو پاکستان وغیرہ کی خبریں سنتے جائیں ساتھ ہی نوٹس لکھیں اور خبریں بھی ٹیپ کرلیں پھر اگلے خبرنامے سے قبل ساری خبریں تیار کرکے نیوز ایڈیٹر کو دیں۔ ’’شہادت‘‘ میں ملازمت کے سال ڈیڑھ سال میں تو ہمارا حال یہ تھا کہ اگر کوئی دوست پوچھتا، یار حیدر، شہادت میں کیا کرتے ہو تو ہم جواب دیتے چپڑاسی سے ایڈیٹر اور کاپی پیسٹنگ تک کی ساری ذمہ داریاں ہم ہی سرانجام دیتے ہیں۔
حقیقت بھی یہی ہے صبح اپنے دفتر کی صفائی کرنی پھر کام شروع، کاتب خبریں وغیرہ کتابت کرتا جاتا شام کو ہم کاپی پیسٹ کرکے پریس بھیج دیتے۔ اللہ کا شکر ہے جب مساوات سے مشرق پہنچے تو گزرے ماہ و سال کی محنت مشقت بہت کام آئی۔
مشرق میں سید عالی رضوی صاحب نے اپنی شاگردی میں لے لیا۔ ان سے اداریہ لکھنے کے رموز سیکھے۔ ایسا بھی ہوا کہ ان برسوں میں مرحوم مصطفی صادق کے اخبار ’’وفاق‘‘ کا اداریہ نویس چھوڑ گیا۔
مصطفی صادق، استاد مکرم سید عالی رضوی کے دوست تھے انہوں نے عالی صاحب سے بات کی۔ عالی صاحب نے حکم دیا، ہاں بھئی کل صبح گھر سے ’’وفاق‘‘ کے لئے اداریہ لکھ کر لانا ہے۔ مجھے حیران دیکھ کر بولے، ذاکر اہلبیت صاحب (وہ مجھے محبت سے اسی نام سے بلاتے تھے) یہ بھی کوئی کام ہے۔ بس ایک سوا ایک گھنٹہ لگے گا۔
یاد رکھو ہم این پی ٹی کے اخبار مشرق کا اداریہ لکھتے ہیں یہاں ہر حال میں حکومت کی حمایت کرنی ہے۔ ’’وفاق‘‘ کی پالیسی حکومت کے خلاف ہے بس ان کے لئے اداریہ لکھتے وقت ذرا دھڑ رگڑا والا کام شرافت سے کرنا ہے
ہم نے استاد مکرم کی نگرانی میں پورا ایک سال روزانہ دو اداریے لکھے۔ وفاق کے لئے اور پھر مشرق کے لئے۔ ہماری تربیت کے برسوں میں یہ سال ہمیشہ یاد گار رہے گا۔
ایک ہی موضوع پر دو مختلف آراء سے لکھنا۔ حق تعالیٰ ہمارے استادان گرامی کے درجات بلند فرمائے۔ کیا شاندار لوگ تھے شاگردوں کی اولاد کی طرح تربیت کرنے والے۔
’’اب انہیں ڈھونڈو چراغ رخ زیبا لے کر‘‘
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور