مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’حضرت شاہ رکن عالم ملتانیؒ کا سالانہ عرس اور زائرین کے مسائل۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف روحانی پیشوا حضرت شاہ رکن عالم ملتانیؒ کا سالانہ عرس ملتان میں شروع ہو گیا ہے ۔ تقریبات تین دن تک جاری رہیں گی ۔ ملتان سے صوفیاء کرام نے ہمیشہ محبت و انسان دوستی کے زمزمے جاری کئے ۔ اگر ملتان کی قدیم حرفت پر غور کیا جائے تو ملتانی ہنر مندوں نے تاج محل جیسے عجوبوں کو تخلیق کیا ۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملتان کی عظمت کا ایک زمانہ گواہ ہے ۔ مگر آج کے ملتان کے اہل سیاست نہ خود کو پہچان سکے اور نہ ملتان کو ۔ آج بھی وہ قیادت کیلئے لاہور ‘ لاڑکانہ کی طرف دیکھتے ہیں ۔ اگر گہرائی کے ساتھ غور کیا جائے تو وسیب کی موجودہ غلامی کا باعث بھی وسیب کے یہی اہلِ سیاست ہیں ۔ ہمارے بزرگانِ دین نے اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت کے ساتھ ساتھ انا و خوداری کا درس بھی دیا ۔ انہوں نے ہمیشہ محبت و اخوت اور انسان دوستی کا پیغام دیا۔ آج کی نفسانفسی ، انتہا پسندی اور عدم برداشت کے دور میں صوفیاء کی فِکر اور پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ قطب الاقطاب حضرت شاہ رکن الدین والعالم ملتانی ؒ ابتدائی تعلیم اپنے دادا حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے مدرسہ بہائیہ میں حاصل کی ۔ جو کہ ایک بہت بڑی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا ۔ آپ شیخ صدر الدین عارف اور بی بی راستی المعروف بی بی پاک دامن ؒ کے فرزند تھے۔ آپ کی ولادت 1251ء جمعہ کے روز ہوئی ۔ آپ کے فیوض و برکات کا تذکرہ تاریخی کتب میں موجود ہے ۔ آج میں زائرین کی مشکلات بارے حکام بالا کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زائرین کے رہائش کیلئے کوئی مناسب انتظام نہیں ہے ، جونہی عرس شروع ہوتا ہے تو گھنٹہ گھر اور دولت گیٹ کے آس پاس موجود تمام تعلیمی ادارے بند کرا دیئے جاتے ہیں اور وہاں زائرین کو بھیج دیا جاتا ہے۔ ایک تو تعلیم کا حرج ہوتا ہے دوسرا وہاں توڑ پھوڑ کی شکل میں درس گاہوں کی انتظامیہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بتایا گیا ہے کہ عرس شروع ہونے سے پہلے زائرین کے لئے 16 تعلیمی ادارے چار دن کیلئے بند کئے گئے ہیں ۔حالانکہ تعلیم کے حوالے سے ایک ایک پل بھی بہت قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زائرین کیلئے رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں اور زکریا کمپلیکس تعمیر کیا جائے ، قدیم لائبریری کو دوبارہ بحال کیا جائے اور زائرین کیلئے وافر مقدار میں ٹائلٹ تعمیر کئے جائیں ۔ زائرین کے بہت سے مسائل اور مشکلات ہیں ، ان مشکلات کے حل کیلئے نا صرف سجادگان بلکہ حکومت کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ دربار کے سجادگان عقیدت مندوں پر دم کرتے ہیں مگر غریب ، بے وسیلہ اور محروم عقیدت مندوں کو دعا کے ساتھ ساتھ دوا کی بھی ضرورت ہے۔ ان کے دکھ ، تکلیف اور مشکلات کے ازالے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمارے عمائدین جو ملک کی بہت بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم عہدوں پر فائز ہیں ، وہ غربت کے خاتمے کیلئے کوئی نظریہ یا منشور دینے کی بجائے غریبوں کو صرف پانی پر دم کر کے دیتے رہے تو مسئلے کس طرح حل ہوں گے؟ آج وسیب کو اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے۔ انجینئرنگ ، میڈیکل ، ایگریکلچرل یونیورسٹیوں اور کیڈٹ کالجوں کی ضرورت ہے۔ انہیں ملازمتوں میں برابر حصے کی ضرورت ہے۔ وسیب کے تمام سجادگان سے اتنی ہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے خانقاہی حجروں سے باہر نکل کر اپنے وطن وسیب کی بہتری کیلئے کام کریں تاکہ ان کو تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع حاصل ہو سکیں اور ان کی صدیوں کی محرومی کا خاتمہ ہو سکے۔ مدرسہ بہائیہ جو کہ بہت بڑی درس گاہ تھی ، یہاں پورے ہندوستان کے طلبہ کے علاوہ بنگال ، آسام ، انڈونیشیا، تاجکستان ، غزنی ، فارس، روس ، برما ، ترکی اور عرب سے طلبہ پڑھنے آتے تھے اور یہاں سرائیکی زبان کے علاوہ دنیا کے مختلف زبانوں کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مدرسے کو بحال کیا جائے اور حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے مزار سے ملحق جو قدیم پرہلاد مندر اور مدرسہ تھا کو بھی بحال ہونا چاہئے کہ میاں نواز شریف حکومت نے لاہور اور آس پاس بہت سے قدیم گرد واروں کو بحال کیا ۔ اس لحاظ سے اسلام کے آنے سے پہلے ایک توحید پرست پرہلاد کی قدیم یادگار ہے کو بحال کرنے کا یہ فائدہ ہو گا کہ پوری دنیا سے لوگ اسے دیکھنے آئیں گے ۔ اس کے ساتھ یہ مطالبہ قطعی طور پر غلط نہیں ہے کہ قدیم قلعہ کہنہ قاسم باغ جو کہ اس خطے کا ورثہ ہے پر ناجائز تجاوزات ختم ہونی چاہئیں جیسا کہ پی ٹی سی ایل ٹاور ، پولیس کاؤنٹر سروس اسٹیشن اور اس پر رکھی گئی اور دوسرے تجاوزات ختم ہونے کے ساتھ اس بات پر بھی غور ہونا چاہئے کہ قلعہ کہنہ قاسم باغ پر حملہ آور انگریزوں کی بڑی قبریں تو موجود ہیں مگر ان حملہ آوروں کا دھرتی کے جن لوگوں نے مقابلہ کیا کی قبروں کا کوئی نشان نہیں ۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہو رہا ہے کہ کچھ ان پڑھ زائرین ان حملہ آور انگریز سامراج کی قبروں کے بوسے لے رہے ہوتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے وطن کیلئے قربانی دینے والے مجاہدین کی یادگاریں تعمیر کی جائیں ۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے کے نقشے میں نواب مظفر خان شہید کا مزارموجود ہے ۔ حملہ آور انگریزوں نے شدید بمباری کر کے نواب مظفر خان شہید کے مقبرے کو بھی مسمار کر دیا ۔ نواب مظفر خان شہید دھرتی کا ہیرو ہے ، ضروری ہے کہ ان کا مقبرہ تعمیر کیا جائے۔ قلعہ کہنہ قاسم باغ کا مرکزی دروازہ باب قاسم پچھلے دنوں گر گیا ۔ اس کی تعمیر کی طرف ابھی تک کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ گھنٹہ گھر کی طرف سے آنے والے راسے پر دروازے کو تعمیر کیا جائے اور دولت گیٹ کی طرف سے بھی دروازہ تعمیر کیا جائے۔ مسائل پر توجہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پنجاب میں حکومت اب بھی مخدوم شاہ محمود قریشی کی جماعت تحریک انصاف کی ہے۔ کیا محکمہ اوقاف ان مسائل کی طرف توجہ دے گا؟

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: