حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا کا استعمال غالباً 2010ءمیں شروع کیا تھا پھر اس اکائونٹ کا پاس ورڈ یاد نہ رہا دو سال بعد ہمارے لاڈلے دوست ملک نعیم شہزاد راں نے پھر فیس بک اور ٹیوٹر کے اکائونٹ بنادیئے۔
یوں ہم روزانہ ان کے دفتر میں مشرق پشاور کیلئے جب کالم اور اداریہ ای میل کرنے کے لئے جاتے تو کمپیوٹر پر اپنے دونوں اکائونٹ پر ہلکی پھلکی چھیڑچھاڑ کرتے۔ سچ پوچھیں تو تب ہمیں ٹائپنگ نہیں آتی تھی۔ ہم بولتے اور ملک نعیم شہزاد راں کمپوز کردیتے۔
دو ہزار بارہ کے سال میں ہی ہماری بڑی صاحبزادی نے ہمیں سام سنگ کا ’’ٹیب لٹ ‘‘ تحفہ میں دیا۔ اول اول ہم رومن اردو میں خیالات کا اظہار کرتے تھے اس کے لئے ٹائپنگ ہمیں بیٹا رانی فاطمہ حیدر نے سیکھائی پھر ایک دن ہمارے دوست و مربی رانا اظہر کمال نے ’’ٹیبلٹ‘‘ میں اردو کمپوزنگ کا پروگرام انسٹال کرادیا۔
تب وہ ڈنکا ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ کے نگران اعلیٰ تھے۔ اس عزیز دوست کو ہماری یاری میں اچھی بھلی نوکری چھوڑنا پڑی۔ ہمیں اس پر ملال ہوا اور بہت ہوا لیکن رانا اظہر کمال بولے شاہ جی بے فکر رہیں دوستی امتحان لیتی ہے۔
مالک کو پتہ تھا کہ آپ کن شرائط پر سٹوریز فراہم کرتے ہیں شرائط کی خلاف وزی آپ کی ہی نہیں میری بھی توہین تھی اس لئے ان کے ساتھ کام ترک کردیا۔
اس ویب سائٹ کے لئے قلم مزدور نے متعدد سٹوریاں کیں۔ ملک اسحق کے پولس مقابلہ والی سٹوری پھٹے چُک ثابت ہوئی کیونکہ اس پولیس مقابلہ کا پس منظر اور امجد فاروق معاویہ کی شام میں گرفتاری کا مجھے علم تھا۔
ٹیبلٹ میں اردو پروگرام انسٹال ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا پر کچھ وقت صرف ہونے لگا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ فیس بک اور ٹیوٹر کی بدولت بہت سارے ان دوستوں سے بھی رابطے بحال ہوئے جو حصول تعلیم اور مختلف اداروں میں محنت مزدوری کے دوران حلقہ احباب کا حصہ تھے پھر ہماری ہجرتوں کی وہ سے بچھڑ گئے۔
نئے دوست اور ہم خیال لوگوں سے بھی تعارف ہوا۔ بہت سارے ہمیں چھوڑ گئے کچھ سے ہم نے ترک تعلق کرلیا یقیناً دونوں طرف مجبوریاں رہی ہوں گی۔
اب بھی لکھنے پڑھنے اور مزدوری کے اختتام پر سوشل میڈیا استعمال کرتا ہوں۔ ہمارا دانشور اور محقق دوراں بلال حسن بھٹی البتہ سوشل میڈیا پر ہماری سرگرمیوں کا ناقد ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شاہ جی آپ اس چکر میں اپنے اصل کاموں پر توجہ نہیں دے پاتے۔
کچھ ایسا ہی شکوہ ملک قمر عباس اعوان کو بھی ہے۔ ملک نے برسوں پہلے ’’قلم کار‘‘ کے نام سے ویب سائٹ بنائی تھی چند برس یہ ویب سائٹ دھوم دھام سے چلی اس پر ہم نے جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم کی داستان ’’زنداں کی چیخ‘‘ کی 35-36 اقساط لکھیں پھر دوستوں اور بالخصوص محمد عامر حسینی کے کہنے پر اقساط لکھنے کا سلسلہ ترک کردیا۔
طے یہ ہوا تھا کہ اسے کتابی صورت میں لکھا جائے۔ عامر حسینی، بلال بھٹی اور ملک قمر عباس اعوان جب بھی ملتے ہیں پہلا سوال یہی کرتے ہیں کہ ’’زنداں کی چیخ‘‘ کا کام کہاں تک پہنچا؟ سوال سنتے ہی ہم فقیر راحموں کے پیچھے چھپ کر اسے دوستوں کے ڈھائے چڑھادیتے ہیں اس طور شامت اس کی آجاتی ہے۔
حالانکہ ایسا سست الوجود کبھی بھی نہیں رہا۔ دو سال ہوتے ہیں دو کتاوں کے کمپوز شدہ مسودے پڑے ہیں۔ ایک کا مسودہ ملک قمر نے پروف بھی کردیا تھا ہمیں اسے بس ایک نظر دیکھنا ہے اور دوسرے مسودے کا پروف پڑھنا ہے۔
برادر عزیز علی ابو تراب خان دونوں مسودوں بارے کئی بار تقاضا بھی کرچکے۔ ہمارے پاس حیلے ہیں اور بہانے۔ ویسے ان دونوں کے ساتھ کچھ ذہنی پریشانی اور صحت کے مسائل بھی ہیں۔ ان سے دوست اچھی طرح واقف ہیں۔
اب بہرطور سنجیدگی کے ساتھ ادھورے کام نمٹانے کا سوچا ہے۔ آج شب سے کمپوز شدہ مسودوں پر کام شروع کردوں گا اگلے مرحلے میں ’’زنداں کی چیخ ” اور پھر سفر حیات کی داستان کا کام۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ سیاسی کالم کی بجائے یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں۔ کئی وجوہات ہیں یہ سب عرض کرنے کی لیکن ایک وجہ یہ ے کہ گزشتہ روز شائع ہونے والا ہمارا کالم ’’حضور آپ نے ’’کہا‘‘ ہم نے ’’مان‘‘ لیا حساب ’’برابر‘‘ چوری ہوگیا۔
اونلی جمہوریت ’’Only Democracy‘‘ نامی پیج چلانے والے ایک ڈکیت نے کالم اپنے پیج پر لگایا یہ چوری شدہ کالم وہاں شیئر بھی خوب ہوا۔ چور نے داد بھی بہت وصول کی لیکن جس کسی نے توجہ دلائی کہ کالم چوری کا ہے۔ لکھنے والے کا نام اور شائع ہونے والے اخبار کا نام کیوں کاٹا۔ چور نے انہیں بلاک کردیا۔
یہاں تک فقیر راحموں بھی بلاک ہوگیا اور خود ہم بھی ۔
اس تازہ واردات نے عشرہ بھر قبل کی ڈکیتیوں کو یاد کروادیا۔ ایک صاحب ہماری فیس بک پوسٹیں دھڑلے سے اپنی وال پر کاپی کرکے لگادیتے تھے
ان سے عرض کیا کم از کم صاحب تحریر کا نام تو دے دیا کیجئے یا پھر منقول ہی لکھ دیجئے۔ جواب ملا ’’سوشل میڈیا پر کوئی کاپی رائٹس نہیں، آپ نے تحریر لکھ دی اب یہ لوگوں کی ملکیت ہے، بہت تکلیف ہے تو لکھنا چھوڑدو‘‘۔
اس کے بعد ان حضرت کو ان کے حال پر چھوڑدیا پھر وہ شاید ہمیں بلاک کرگئے۔ چند سطری پوسٹ کے چوری ہونے پر افسوس ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتاہے کہ چوری شدہ تحریر زیادہ وائرل ہوجاتی ہے جیسا کہ گزشتہ روز والا کالم۔ جس پر ” قبلہ چور صاحب ” ابھی تک داد وصول کررہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر یہ وارداتیں معمول کا حصہ بن کر رہ گئی ہیں فیس بک کی مختصر پوسٹ ٹیوٹر پر اپنے نام سے اور ٹیوٹ فیس پر اپنے نام سے والی وارداتیں تو اتنی ہیں کہ اب متاثرین نے احتجاج کرنا ہی چھوڑدیا ہے۔
یہاں ہم نے ایسے ایسے ’’علامے‘‘ دیکھے اور "لبرل آیت اللہ” بھگتے جنہوں نے صدی سوا صدی قبل شائع ہوئی کوئی کتاب دھڑلے سے اپنے نام پر شائع کروای اور بڑے فخر کے ساتھ کتاب کی تقریب رونمائی کا کراچی و لاہور میں اہتمام و انتظام بھی کروایا۔
چوری کا پول کھلنے پر مرحوم لبرل آیت اللہ رتی برابر شرمندہ نہیں ہوئے۔ وہ چور ہی کیا جو شرمندہ ہوجائے بلکہ اکثر چور تو اپنی وارداتوں کاایسا جواز پیش کرتے ہیں کہ ان کے ’’ارادت مند‘‘ حق حق حق کی گردان شروع کردیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں آزاد عدلیہ کی تحریک میں انصاف ک دیوتا بنائے گئے افتخار محمد چودھری بھی تھے۔ ان کے خلاف سکہ بند ثبوت تھے کہ موصوف ڈیزل اور ادویات کی رسیدوں پر اپنی خاتون خانہ کے لئے میک اپ کا سامان خریدا کرتے تھے۔
ایک مولوی صاحب تھے فوت ہوگئے۔ شیخوپورہ میں سول کوارٹرز کے درمیان کی خالی اراضی سرکاری اراضی پر بنائے گئے مدرسہ اور ملحقہ مسجد کے نگران و مہتمم بھی رہے۔
مرحوم سال میں ایک آدھ بار فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادوں سے ملاقات کرکے جنرل صاحب سے خواب میں ہوئی ملاقات کی تفصیل سنایا کرتے تھے۔
انہی مولوی صاحب کی دعوت پر جنرل ضیا ایک بار شیخوپورہ میں ان کے مدرسہ میں بھی آئے تھے۔ قاری صاحب تھے دلچسپ آدمی۔ آبائی طور پر دنیا پور سے تعلق رکھتے تھے خدمت دین کے لئے شیخوپورہ کا انتخاب کیااور خوب خدمت کی دین کی اس شہر میں۔
شہر والے خدمت سنبھال نہ پائے جس کی وجہ سے متعدد افراد موت کا رزق بن گئے۔ موت کا رزق بننے والوں میں ہماری سسرالی برادری کی ایک معروف شخصیت بھائی سید جرار حسین زیدی ایڈووکیٹ بھی شاملے تھے۔
زیدی صاحب کے قتل کے بعد آنے والی عیدالاضحی کے روز ہم کچھ عزیز عید نماز پڑھ کر قبرستان جاتے ہوئے ان کے مدرسہ کے باہرسے گزرے تو انہوں نے آگے بڑھ کر ہم سے پرتپاک انداز میں سلام دعا کے بعد کہا
’’شاہ جی کھال کے لئے ہمیں یاد رکھیں‘‘۔ میں نے بے ساختہ کہا قاری صاحب ’’ہماری کھال ضرورت ہے تو ہم حاضر ہیں موقع بھی ہے اور دستور بھی‘‘۔
قاری صاحب کھٹ سے بولے نہ شاہ جی نہ، "ہم آل رسولؐ کا بہت احترام کرتے ہیں آپ کی کھال اتاریں آپ کے دشمن ہمیں تو مدرسے کے لئے قربانی کی کھال بھجوادیجئے گا "۔
انکے اس جواب پر ہمارے ہمراہ موجود عزیزوں کا ایک لمحے کے لئے رنگ اڑ گیا پھر قاری صاحب کو ہنستے دیکھ کر سادات کا قافلہ بھی مسکراتے ہوئے اجازت لے کر آگے بڑھ گیا۔
قبرستان سے ہوکر گھر پہنچے تو بہنوں بھانجیوں نے خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قبرستان جانے کے اور بھی راستے تھر پھر قاری کے مدرسہ کے سامنے سے گزرنے کی ضرورت کیا تھی۔ یادوں کی دستک پر کواڑ کھولنے سے کیسی کیسی باتیں اندر آگئیں۔
فقیر راحموں کے بقول شاہ تم ان ہی باتوں کی ہی کھٹی ’’کمائی‘‘ کھاتے ہو اور تو کسی کام جوگے ہو نہیں۔
ایک دن ہم نے کہا یار فقیر راحموں اور کیا کام کریں کشمیر یا فلسطین کو آزاد کروانے نکل پڑیں؟
کہنے لگا پہلے سرائیکی صوبہ تو بنوالو پھر کسی اور چیز بارے سوچنا۔
آج کہنے لگا شاہ جی تم ایسا کرو دوستوں سے کئے وعدے پورے کرواور ’’زنداں کی چیخ‘‘ کے ساتھ آب بیتی لکھنے کا کام مکمل کرو۔ اس کے بعد بھی دو جملے اس نے کہے وہ لکھنے سے قاصر ہوں ہاں یہ ضرورہے کہ زندگی موت مالک کے اختیار میں ہے فقیر راحموں کے اختیار میں ہوتے تو کب کا شہید کروا چکا ہوتا ہمیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ