حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز کھل کر مستحکم صدارتی نظام کے حق میں دلائل دیئے ان کے خیال میں صدارتی نظام استحکام کی علامت جبکہ پارلیمانی نظام سے استحکام ممکن نہیں ۔
ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہر طرف مافیاز کی اجارہ داری ہے یہ بھی کہا کہ ایمنسٹی ہونی چاہیے جو صنعت لگانے میں پییسہ لگائے وہ کالا دھن سفید کرلے جبکہ ماضی میں وہ کہا کرتے تھے کہ ایمنسٹی لینے والے قومی مجرم ہیں لوٹ مار کا کالا دھن سفید کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے مگر 2018ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد ان کی حکومت نے ایمنسٹی دی جس سے دیگر لوگوں کے ساتھ بعض ایسے افراد نے بھی استفادہ کیا جو ان کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔
جہاں تک مافیاز کی اجارہ داری کا تعلق ہے تو ان سے یہ دریافت کیا جانا چاہیے کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں مافیاز کی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے جبکہ ان کے دور اقتدار کے حوالے سے یہ تاثر موجود ہے کہ اس دور میں مافیاز ہی فیصلہ کن حیثیت رکھتے تھے۔
ادویات، گندم، چینی، راولپنڈی رنگ روڈ اور ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون کے سکینڈلز ان کے ہی دور میں سامنے آئے۔ ادویات سکینڈل میں نام آنے پر انہوں نے اپنے وزیر صحت کو منصب سے الگ کیا بعدازاں اسے پارٹی میں اہم عہدہ دے دیا اور کچھ عرصہ بعد وزیر بھی بنادیا گیا۔
معاشرے کے کمزور افراد پر ظلم کے الزام میں انہوں نے اپنے ایک وزیر سے استعفیٰ لیا اور کچھ عرصہ بعد اسے پھر وزارت عطا کردی۔
مندرجہ بالا دونوں واقعات کے حوالے سے اگر وہ اپنی پوزیشن واضح کریں تو مناسب ہوگا عوام بھی یہ جان سکیں گے کہ ایک ایسی حکومت جیسے ابتداً اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور اعانت حاصل رہی کیوں مافیاز کے سامنے سپر ڈالتی رہی۔
قانون کی حکمرانی کے حوالے سے گفتگو ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اپنے دور اقتدار میں وہ اس ضمن میں کیا پیشرفت کرپائے ؟ وہ ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں دو قانون ہیں ایک امیر اور ایک غریب کے لئے ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں مالم جبہ، پشاور میٹرو اور دیگران معاملات پر جن میں ان کی جماعت کے ذمہ داران کے نام آتے تھے کی تفتیش پر نیب اور دوسرے تفتیشی اداروں کے پَر جلتے تھے۔
حال ہی میں انہیں عدالتوں میں حاضری کے بغیر ضمانتیں ملیں جبکہ یہ سہولت کسی عام آدمی کو میسر نہیں۔
عمران خان کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ اپنی کہی بات اور کئے دعوے پر قائم کیوں نہیں رہتے نیز یہ کے اس حوالے سے اگر ان کے ناقدین اور لوگ سوال اٹھاتے ہیں تو اس کا برا منانے کی بجائے کھلے دل سے اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ان کا دور حکومت بھی ماضی کی ان حکومتوں جیسا ہی تھا جس نے اشرافیہ کے مفادات کی حفاظت کی۔
ہماری رائے میں انہیں لوگوں کو اس بات سے ضرور آگاہ کرنا چاہیے کہ ان کے دور اقتدار میں معاشرے کے نچلے طبقات کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے کیا اقدامات ہوئے۔ مفاد عامہ میں کون سی قانون سازی ہوئی۔ صوبوں اور وفاق میں موجود بداعتمادی کو ختم کرنے کے لئے ان کی حکومت نے کیا کیا؟
جہاں تک ملک میں مستحکم صدارتی نظام کے حوالے سے ان کے خیالات کا تعلق ہے تو یہ بظاہر کوئی نئی بات ہرگز نہیں گزشتہ کچھ عرصہ سے ان کے حامی سمجے جانے والے بعض صحافی اینکرز اور دانشور زوروشور سے یہ منوانے کی کوشش کررہے ہیں کہ پارلیمانی جمہوری نظام کی بجائے صدارتی نظام ہونا چاہیے یہ کہ صدارتی نظام ہی مسائل کا حل ہے۔
اس فہم کے جواب میں یہ عرض کیا جانا ضروری ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام جناح صاحب اور ان کے جانشینوں کی جمہوری سوچ کا مظہر ہے۔ 1956ء کا مختصر دورانیہ کا دستور بھی پارلیمانی نظام کی اساس پر تھا۔ 1973ء کا دستور بھی پارلیمانی جمہوریت کا مظہر ہے۔ نظام میں تبدیلی بچوں کا کھیل ہرگز نہیں نہ ہی کسی ایک خاص جماعت کی خواہش پر پارلیمانی جمہوری نظام کا بستر لپیٹ کر صدارتی نظام لایا جاسکتا ہے۔
1973ء کا دستور جس نظام کی اساس پر ہے اس میں اگر کوئی خرابی ہے تو ضرور دور کی جانی چاہیے لیکن محض یہ کہہ دینا کہ مستحکم صدارتی نظام ہی مسائل کا حل ہے تو یہ درحقیقت شخصی حکمرانی کی اس سوچ کا اظہار ہے جس میں جوابدہی سے فرد واحد محفوظ رہتا ہے
یہاں یہ بات بھی مدِنظر رہے کہ پاکستان کے دولخت ہونے کے اسباب میں ایک سبب صدارتی نظام بھی تھا ایوب کے صدارتی نظام میں تین طبقوں کی اجارا داری رہی اس اجارا داری کو بنگالیوں کی اکثریت نے اپنی توہین سمجھا اس لئے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کی جگہ کسی دوسرے نظام کی اولاً تو کوئی گنجائش ہی نہیں ثانیاً یہ کہ کیا وفاق اور صوبوں میں بعض مسائل پر عدم اعتماد، چھوٹی قوموں کے تحفظات اور دیگر مسائل کے ہوتے ہوئے فیڈریشن کی اکائیوں کو صدارتی نظام پر متفق کیا جاسکتا ہے؟
عمران خان صدارتی نظام کے حوالے سے ماضی میں اشاروں کنایوں میں بات کرتے رہے ہیں البتہ ان کے پرجوش حامی روز اول سے ہی یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ ملک میں صدارتی نظام ہونا چاہیے ان کے بعض پرجوش حامیوں نے ہی اسلامی صدارتی نظام کی پھلجڑی چھوڑی تھی۔
بصدِ احترام ان سے درخواست ہے کہ فقط اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کو مدنظر نہ رکھیں۔ 1973ء کا دستور یقیناً آسمانی صحیفہ نہیں لیکن اس پر وسیع تر اتفاق رائے بعض تحفظات کے باوجود آج بھی برقرار ہے۔
دستور میں مزید بہتری عصری ضرورتوں کے حوالے سے لائی جاسکتی ہے۔ انہیں بھی اگر دوبارہ اقتدار ملتا ہے تو وہ بھی عوام کے حق حاکمیت کو مزید موثر بنانے کے لئے قانون سازی کریں لیکن دستور کے اساسی تقاضوں سے الجھنے یا نئے نظام (جیسا کہ انہوں نے صدارتی نظام کی بات کی) کے بارے میں خیالات کے اظہار سے اجتناب برتیں۔
تحریک انصاف میں موجود تجربہ کار سیاستدانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی جماعت کے سربراہ کو مشورہ دیں کہ وہ حساس معاملات پر اظہار خیال سے قبل کم از کم اپنی جماعت کے سینئر رفقا سے مکالمہ کرلیا کریں۔
صدارتی نظام کی بات گو اچھنبے کی بات ہرگز نہیں ماضی میں بہت سارے سیاسی محروم اس طرح کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ عمران خان ملک کی ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں 2018ء کے انتخابات میں ان کی جماعت کو سب سے زیادہ ووٹ ملے اب بھی فیڈریشن کے 2صوبوں اور دو انتظامی یونٹوں میں ان کی حکومت ہے۔
مکرر اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے کہ ایک سابق وزیراعظم اور بڑی جماعت کے سربراہ کو پالیسی بیان دینے سے قبل صلاح مشورہ ضرور کرلینا چاہیے کیونکہ یہ ملک ایڈونچروں کا متحمل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی 1973ء کے دستور سے کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کا۔
ہم امید کرتے ہیں کہ عمران خان ان معروضات پر غور کریں گے اور اس امر کو بھی یقینی بنائیں گے کہ مستقبل میں ا یسی باتیں کرنے سے گریز کریں جن سے چھوٹے صوبوں اور قوموں میں یہ احساس دوچند ہو کہ بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والے بعض سیاستدان یا ایک پارٹی ملک میں ایسا نظام لانے کی خواہش مند ہے جس میں چھوٹے صوبوں اور قوموں کی حیثیت صرف اطاعت گزار کی ہو۔
اسی طرح وہ دیگر امور پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنے پونے چار برس کے دور اقتدار کی پالیسیوں اور گورننس پر بھی طائرانہ نگاہ ڈال لیا کریں تاکہ یہ بات ان کے پیش نظر رہے کہ جو وہ کہہ رہے ہیں اقتدار کے برسوں میں اس حوالے سے ان کی حکومت کی کارکردگی کیا رہی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر