رانامحبوب اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدمی تضادات کا مجموعہ ہے۔ کبھی فرشتوں سے بہتر اور کبھی شیطان سے بد تر ہے ۔ ابلیس نے کہا کہ آدمی زمین پر فساد پھیلائے گا ۔ فساد سے بچنے کو خدا نے آدم کو اسماء کا علم دیا کہ علم اسم سے شروع ہوتا ہے ۔ قرآن _ کریم نے تدبر ، تفکر اور تعقل کی تلقین کی ۔ سورہ الم نشرح میں آدمی کی فطرت کا انشراح یوں ہوا کہ جیسے آدمی احسن_ تقویم اور اسفل السافلین کا یکتا شاہکار ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی مارکسی اصطلاح میں آدمی کو جدلیاتی مخلوق کہتے ہیں جس کے باطن میں نیکی اور بدی کی جنگ ازل سے جاری ہے ۔ جنت اور جہنم عمل سے بنتی ہیں۔ دنیا کی جنت، محبت، ثواب ، اچھائی اور حکمت ہے اور جہنم ، نفرت، گناہ ، بدی اور حماقت ہے۔ اسفل آدمی حکمت سے گھبراتا ہے اور نفرت کی طرف لپکتا ہے ۔ محبت آدمی کو مسرور تو کرتی ہے مگر کشتوں کے پشتے لگانا اور کھوپڑیوں کے مینار بنانا آدمی کی سماجی اور نفسیاتی عادت ہے ۔ مجنوں اور رانجھے سے عاشق اور جوگی تاریخ کے حاشیے پر ہیں اور سکندر و دارا جیسے قاتل بادشاہ رزمیوں کے مرکزی کردار ہیں۔تاریخ قاتل سورماؤں کا قصہ ہے!
جدید فکر میں آدمی کی فطرت سے جڑا ہوا ایک سوال nature اور nurture یعنی جبلت اور پرورش کا ہے۔ جبلت، جسمانی ہے ۔ پرورش، سماجی ہے ۔ تہذیب، جبلت کو سدھانے کی کہانی ہے۔ زبان ، حیوان _ ناطق کو جانوروں سے ممتاز کرتی ہے ۔ ہومر اور فردوسی سورماؤں کے قصہ گو ہیں۔ کالیداس اور سورداس رزمیہ نگار ہیں۔ جنگ کو glorify کرتے ہیں ۔ ارسطو آدمی کو سماجی جانور کہتے ہیں ۔ اشراقی صوفیوں نے آدمی کو نورالانوار کا وہ ذرہ بتایا ہے جو آسمان سے خاکداں میں آیا ہے ۔ ہندوستانی آدمی کو امرتا سین argumentative Indian کہتے ہیں۔ پاکستانی آدمی وہ اللہ راسی سیاسی جانور ہے جس کا نظریہ ، راہ اور خضر_ راہ گم ہو گئے ہیں ۔ عہد وسطی کی موروثی، جاگیردارانہ، ظالمانہ اور سامراجی بادشاہانہ سیاست نے غریبوں کو زمینی غلامی اور اشرافیہ کو آسمانی بادشاہی عطا کی ہے ۔صدیوں کا خسارہ ہے۔ جھوٹی تاریخ ہے۔ بہت سے مسائل ہیں۔ غربت ہے۔ بیماری ہے۔ جنگ ہے۔ پیکار ہے۔ سپہ گری ہے۔ غالب غیرملکی مہاجر اشرافیہ کی حملہ آوری ، لوٹ مار اور لسانی غلبہ ہے ۔ صدیوں سے مقامی لوگ حاشیے پر زندگی کرتے ہیں ۔ غلام اور غریب ہیں ۔ 1206 میں دلی کے بادشاہ کے چالیس وزیر تھے اور وہ سب کے سب ترک تھے۔ مقامی مسلم اشرافیہ اور مغرور راجپوتوں کو جلال الدین اکبر نے ساتھ ملایا کہ اسے اشرافیہ اور راجپوتوں کے اتحاد کا خوف تھا ۔ ایرانی ، یونانی، عرب ، ترک اور مغل مہاجر اشرافیہ کے بعد سفید سامراج کی صدیوں میں مقامی آدمی کے ساتھ ساتھ مقامی زبانیں قتل ہوئیں ۔ وحشیوں کی زبانوں کو لہجے کہا گیا ۔ پھر مقامی وحشیوں کو مہذب بنانے کے لئے انگریزی زبان آئی ۔ سنسکرت اور فارسی کو مارا گیا۔ بدیسی لباس اور استحصالی ادارے تراشے گئے۔ تین کروڑ لوگ مرے ۔ 45 ٹریلن ڈالر لوٹے گئے۔ آزادی کے بعد حمزہ علوی کے خیال میں پاکستان پر salariat class کا قبضہ ہو گیا ۔ جاگیر داروں نے چند افسروں کی ملازمت کے بدلے لاکھوں ووٹروں کو غلام بنایا۔ عوام کی دولت اور وسائل exclusive استحصالی اداروں کے قبضے میں آ گئے ۔ کالا صاحب حکمران بن گیا ۔ Inclusive جمہوری ادارے نہ بن سکے ۔گیاتری سپوک کہتی ہیں کہ غلام کی کوئی آواز نہیں ہوتی کہ وہ جو کچھ بولتے ہیں وہ ان کی بات نہیں ہوتی، استحصالی سماج کی تشکیل کردہ حقیقت ہوتی ہے۔ حقیقت کی تشکیل مفاد پرست طبقے کرتے ہیں ۔ مادری زبانوں کو مار کر مقامی آدمی سے مکالمے کی صلاحیت چھینی جاتی ہے ۔ علم و حکمت سے بیگانگی کا چلن عام ہوتا ہے ۔ مغائرت جنم لیتی ہے۔ مکالمہ غیرملکی زبان ، گالی اور گو لی سے ہوتا ہے ۔ حکمران ، زبان اور مکالمے کو weaponize کرتے چلے جاتے ہیں تا کہ لوگ لڑتے رہیں ۔ اپنے سے مختلف آدمی کو Other بنا کر شیطان بناتے ہیں ۔ گولیوں کے چلنے سے پہلے زبان کے استروں سے کشتوں کے پشتے لگائے جاتے ہیں !
منٹو کا شاہکار افسانہ ” ٹوبہ ٹیک سنگھ ” ہجرت سے وابستہ ابتلا کا قصہ ہے۔ تقسیم کے کچھ عرصہ بعد مختلف اشیاء کا تبادلہ ہو رہا ہے۔دوسری اشیاء کی طرح سرحد کے دونوں طرف پاگل خانوں میں قید پاگلوں کے تبادلے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ لاہور کے پاگل خانے کا ایک مسلمان پاگل قیدی بارہ سال سے ایک ہی اخبار پڑھنے کا عادی ہے۔ جب اس سے ایک قیدی نے پوچھتا ہے کہ ” مولبی ساب ! یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟” ۔ تو مولبی ساب بڑے غور و فکر کے بعد کہتے ہیں :” ہندوستان میں ایک ایسی جگہ جہاں استرے بنتے ہیں؟ "۔ زبان کے استرے مکالمے کو قتل کرتے ہیں ۔ آپ اب مشال فوکو کے panopticon یا ایک ایسے قید خانے کا سوچئے جس کے وسط میں ایک ٹاور پر بیٹھا پہرے دار اردگرد پھیلے کمروں پر نظر رکھتا ہے۔ وہ سب قیدیوں کو نہیں دیکھ سکتا مگر ہر قیدی اس خوف سے مرتا ہے کہ سنتری اسے دیکھ رہا ہے ۔ پاگلوں کے قید خانوں میں زبان کے استرے چلتے ہیں۔ اس کے بعد خوفزدہ پاگل قیدی مکے چلاتے ہیں اور جیلر گولی چلاتے ہیں۔ تماشا لگتا ہے ۔ تماشائی تالیاں پیٹتے ہیں !!
فارسی غزل کے امام حافظ شیرازی نے کہا کہ محبت کے علاوہ کوئی بنیاد ایسی نہیں جو خلل سے خالی ہو۔محبت کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک محبت ، چار حرفی فحش لفظ ہے اور دوسری محبت کو ایرک فرام تخلیقی رشتہ کہتے ہیں ۔ فرد اور سماج کو نارمل رکھنے کے لئے تخلیقی محبت ضروری ہوتی ہے ۔ تخلیقی محبت کے چار ضروری قرینے ہیں۔ ادب پہلا قرینہ ہے آداب_ محبت میں ۔ دور بیٹھا غبار_ میر اس سے/ عشق بن یہ ادب نہیں آتا۔ فرام کے مطابق ادب کے ساتھ دیکھ بھال ، شخصی علم اور ذمہ داری محبت کے نسخے کے چار اجزاء ہیں۔ عشق، محبت کی شدت کا نام ہے۔ احترام سے خالی عشق ، جنون ہوتا ہے جس کے ڈانڈے پاگل پن سے ملتے ہیں۔ محبت کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ چیفس کالج سمیت کسی تعلیمی ادارے میں پڑھائی نہیں جاتی ۔ نصاب ، دشمنی اور نفرت سکھاتا ہے۔جس ملک میں لوگ غلام ہوں اور صدیوں سے ایک فی صد سے بھی کم مہاجر اشرافیہ کے ظلم کا شکار رہے ہوں وہاں محبت عنقا ہوتی ہے ۔ احترام کا خسارہ ، علم کی کمی اور ذمہ داری کا فقدان ہوتا ہے۔ محبت معنی سے خالی ایک فحش اور بے ہودہ چار حرفی لفظ ہوتی ہے۔ اعظم سواتی اور پرویز رشید جیسے عمر رسیدہ بزرگوں کی ویڈیوز سے ایسی ہی بیہودگی، لایعنیت اور بدصورتی عیاں ہے ۔ بے شرم نگاہوں اور لسانی استروں سے مسلح ہجوم ہنستا ہے ۔ محبت کے آداب سے محروم لوگ محبت کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دئیے جاتے ہیں ۔ بے ادب ہوتے ہیں۔ میڈیا ، علم اور عقل کے نام پر ان کو خبر دیتا ہے۔ دن رات خبردار کرتا ہے۔اطلاعاتی عنکبوت میں گھرے لوگ سنسنی اور گولیوں کی سنسناہٹ کے درمیان زندگی کرتے ہیں۔ فوکو کے مابعد کا عہد سوشل میڈیا کا panopticon اور ڈیجیٹل ڈکٹیٹرشپ کا قید خانہ بن رہا ہے۔ سماج تخلیقی محبت کے enabling ماحول سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔ نزار قبانی نے کہا:
” میں تمھیں محبت کرنا سکھا نہیں سکتا
کہ مچھلی کو تیرنے کے لئے استاد کی ضرورت نہیں ہوتی
پرندے بھی معلم کے بغیر اڑنا سیکھ لیتے ہیں
محبت کی درسی کتب نہیں ہوتیں
اور تاریخ میں بڑے عاشق وہ تھے جنھیں پڑھنا نہیں آتا تھا”
صوفی، عارف اور گیانی ، محبت کو حکمت کا نام دیتے ہیں۔ محبت ، حکمت_ صوفیہ ہے۔ حقیقت مطلقہ کا تخلیقی نسائی اصول ۔ محبت، دانش و دانائی ہے۔ محبت جوانوں کو پیروں کا استاد کرتی ہے۔ دانائی سے کمزور طاقتور ہوتے ہیں کہ دانائی توانائی ہے۔ شاہنامے کے شاعر ابوالقاسم فردوسی نے کہا:
توانا بود ہر کہ دانا بود
ز دانش دل_ پیر برنا بود
آج دانائی کی توانائی سے زبانوں کے استروں کو بند کرنا ضروری ہے ۔ گالی کو گولی بننے سے پہلے روکنا چاہیے ۔ تمام رشتوں میں ادب پہلا قرینہ ہے۔ احترام ، مکالمے کی شرط_ اول ہے اور مکالمہ، مسائل کے حل کی کنجی ہے مگر مکالمے کے لئے دانش و دانائی، ادب اور احترام، عقل اور ذمہ داری در کار ہوتے ہیں۔ پاگل خانہ عقل کی بستی کی ضد ہے۔ اس لئے پاگل خانے میں بے ہنگم شور یا قبرستان جیسی خاموشی ہوتی ہے ۔ مکالمہ نہیں ہوتا، نت نئی لڑائی ہوتی ہے۔ دانش و دانائی کی ہار کے المیے سے شہر پاگل خانے بن جاتے ہیں ۔ سیاست کے نقار خانے میں مقامی دانائی ہار گئی ہے۔ پوسٹ ٹرتھ عہد میں جھوٹ کی بادشاہی ہے۔ نوسرباز اور جیب کترے پنپتے ہیں ۔ غریبوں کے مسائل اور سیلاب زدگان کے مصائب بے اعتنائی کی بارودی سرنگوں پہ رکھ دئیے گئے ہیں ۔سٹرکچرل امپیریل ازم میں زبانوں کے استروں اور کارپوریٹ میڈیا سے بنائی ہوئی reality کے واہمے کے پیچھے گولیوں کی تجارت ہوتی ہے ۔ مرکز اور حاشیے پر واقع قوموں اور بین الاقوامی اداروں کا تال میل ہوتا ہے۔ طاقت کے استعماری پیراڈائم کے گرد حاشیائی قوموں اور خطوں کی گردش حکمران طبقات کی منشا ہے۔ لوگ پیادے ہیں اور پیادوں کا مارا جانا تماشے کا حصہ ہے ۔ہم جیسے امید پرستوں کے لئے بھی یہ ناامیدی کا موسم ہے مگر تاریخ کا ایک سبق یہ ہے کہ احسن اور اسفل ، پرولتاری اور سرمایہ دار کی جدلیاتی کشمکش سے تاریخ آگے بڑھتی ہے۔ نفی سے آگے اثبات کا مقام ہے۔ رہگزر سے آگے بھی ایک رہگزار ہے !
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ