حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سپہر ایک دوست تشریف لائے دیگر موضوعات پر تفصیلی گفتگو کے دوران اچانک انہوں نے سوال داغا، شاہ جی یہ نیا آرمی چیف کون ہوگا، کیا کھچڑی پک رہی ہے ، آپ کے ذرائع کیا بتارہے ہیں؟
سوال کے آخری الفاظ ابھی ان کے منہ میں ہی تھے کہ فقیر راحموں نے قہقہے اچھالنے شروع کردیئے۔ دوست نے ایک لمحے کیلئے ہماری طرف دیکھا اور پھر فقیر راحموں کی طرف اور حیرانی سے دریافت کیا، کیا میں نے کوئی غلط بات کہہ پوچھ لی فقیر سائیں؟
جواباً فقیر راحموں نے کہا، "ملک صاحب آپ تیسری دنیا کے دو پسماندہ شہروں سے شائع ہونے والے اخبارات سے منسلک اخبار نویس سے اگر آرمی چیف کی تعیناتی بارے میں پوچھیں گے تو میں ہنسوں گا ہی۔
اسے تو ملتان اور پشاور کے کسی تھانے کا ایس ایچ او چھوڑیں محرر تک نہیں جانتے، کوئی ہیڈ کلرک چھوڑیں عام سا کلرک اس کی بات سننے کو تیار نہیں۔
وضع قطع چیک کیجئے، ملنگ درویش لگتا ہے یا سائل کہیں کسی طرح ” صحافی دکھتا ہے یہ ” ۔
اس کا بھتیجا اگر اسے ہر ماہ ایک معقول رقم نہ بھجوائے تو ڈن ہل سگریٹ خریدنے پینے کے لالے پڑجائیں اور لگ پتہ جائے شاہ جی کو ” ۔
ملک صاحب نے ایک بار پھر ہماری طرف دیکھا منہ سے کچھ نہیں بولے لیکن سوال آنکھوں اور چہرے پر رقص کرتا صاف دیکھائی دے رہا تھا۔
عرض کیا فقیر درست کہتا ہے، مرحوم راشد حیدر سیال کے صاحبزادے کو اپنے مرحوم والد کے یار سے خصوصی محبت ہے ۔ رہی بات ایس ایچ او یا محرر سے عدم شناسائی کی تو یہ تو پھر ’’بڑے‘‘ عہدے ہیں مجھے تو چند برس قبل ویگن میں جیب کترے کے ہاتھوں قیمتی موبائل نکال لئے جانے کے بعد تھانہ شاہدرہ کے اے ایس آئی نے صحافی ماننے سے اس وقت انکار کردیا تھا جب میں نے اسے تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ، ہم لاہور سے شائع ہونے والے ایک اخبار کے ایڈیٹر ہیں۔
تھانیدار نے بے ساختہ کہا ’’صوفی صاحب، شکلوں تے تسیں نامہ نگار وی نی لگدے‘‘۔ بڑی مشکل پیش آئی چھوٹے تھانیدار کو یہ یقین دلانے میں کہ ہم واقعی ایڈیٹر ہیں۔ اس نے جیب کاٹ لئے جانے کی درخواست لکھوائی ایک ٹھنڈی کوک بھی منگواکر دی اور رخصت کرتے ہوئے بولا، صوفی جی کسے چنگے جئے نامہ نگار نوں استاد کرلئو تاکہ ویگناں اچ دھکے کھان توں بچ جائو۔
اچھا چھوڑیں پرانے زخم کریدنے کا کیا فائدہ ہم کوئی توپ مارکہ صحافی ہوتے تو لاہور میں جماعت اسلامی والے ظہور احمد وٹو کو اس کی ہائوسنگ سوسائٹی میں اپنے 2عدد پلاٹ اور ایک فائل ڈکارنے دیتے یا ہمارا ایک ملزم لین دین کرکے ضمانت کرواکے نکل جانے میں کامیاب ہوجاتا۔
فقیر راحموں درست ہی کہتا ہے تیسری دنیا کے دو پسماندہ شہروں سے شائع ہونے والے اخبارات سے منسلک ہم ایسے شخص کی پہنچ ہی کیا ہے ہمیں کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا۔
سمری میں کون سے تین یا پانچ نام ہوں گے جن میں سے ایک کو وزیراعظم چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی اور دوسرے کو آرمی چیف لگادے گا۔
آپ اسے ہماری سادگی کہیں یا پسماندگی، ہم اب تک یہی سمجھتے ہیں کہ سیکرٹری دفاع کے ماتحت تین محکموں کے سربراہوں یا یوں کہہ لیجئے کہ بری فوج کے سربراہ کی تقرری روٹین کی بات ہے۔
اس پر سیاست، قیاس آرائیاں وغیرہ وغیرہ اور تجزیئے ’’ٹھوکنے‘‘ والی ’’عبادتیں ‘‘ بے کار ہیں۔
بدقسمتی سے ہم اور آپ چونکہ نیم جمہوری نہیں بلکہ سکیورٹی سٹیٹ کے باشندے ہیں، ایسی سکیورٹی سٹیٹ کے جس میں 4عدد مارشل لاء مجموعی طور پر تقریباً 36 سال نگل گئے باقی کے برسوں میں جو حکومتیں تھیں وہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت رہیں یا مجبوری۔
مجبوری بننے والوں کے ساتھ اس ملک میں جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور ضرورت بننے والوں کی حالت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہم ’’نو انقلابی‘‘ بھی نہیں ہیں کہ انقلاب کی باسی کڑی میں اُبال چین نہ لینے دے۔
اے این پی اور پیپلزپارٹی سے قدرے محبت وغیرہ ہے یہ بھی سوتے ہوئے بچے کا منہ چومنے والی بات ہی سمجھ لیجئے۔
معاف کیجئے گا بات مہمان کے سوال سے شروع ہوئی تھی۔ فقیر راحموں کی باتوں نے الجھاسا دیا۔ ویسے سچ پوچھیں تو عرض کروں، فقیر راحموں درست کہتا ہے، تیسری دنیا کے 2پسماندہ شہروں سے شائع ہونے والے اخباروں سے منسلک قلم مزدور کی پہنچ کیا ہوسکتی ہے، کوئی بھی نہیں۔
ویسے اس پہنچ کی ضرورت کیا ہے۔ ہمارے بعض دوست کہتے ہیں ضرورت ہے زندگی ڈھب سے گزارنے کے لئے یہ ڈھب سے زندگی گزارنا کیا ہوتا ہے۔
ہمیں یہی اچھا لگتا ہے ہر گزرنے والا دن عزت کے ساتھ گزرگیا۔ وقت پر جو دال ساگ ملا کھالیا۔ سگریٹ پھونکے، چائے پی، مزدوری کی اور کتابیں پڑھ لیں۔
نیٹ پر پاس پڑوس کے علاوہ دنیا بھر کے اخبارات دیکھتا رہتا ہوں۔ ایک آدھ ملک کے علاوہ کسی ملک کے اخبارات میں آرمی چیف کون ہے مصروفیات کیا ہے، تقرری کی مدت اور سبکدوشی کب ہوگی کی خبریں بہت مشکل سے ملتی ہیں۔
ہم چونکہ نسل در نسل لشکر پسند ہیں اس لئے لشکری خبروں کو اہمیت دیتے ہیں۔ فقیر راحموں کہتا ہے کہ ہمارے پُرکھے (یہاں ہم سے مراد سب ہیں فقط ہم نہیں) چونکہ لشکروں کی فتوحات سے ملنے والے مال غنیمت سے وظائف پاتے تھے اس لئے
’’چُھٹتی نہیں ہے یہ کافر منہ کو لگی ہوئی‘‘۔
ہم پسماندہ شہروں کے اخباروں سے منسلک ہیں اس لئے اگر آپ کو فقیر راحموں کی یہ منطق سمجھ میں آجائے تو بتایئے گا ضرور، ثواب کی نیت سے ہی بتادیجئے گا۔
یقین کیجئے ہمیں خود دو دن قبل یہ پتہ چلا کہ عمران خان بھی اب اس مشہور زمانہ "کلب” کے رکن بن گئے ہیں جس کے خلاف وہ ’’بقولِ خود‘‘ 26برسوں سے جدوجہد کررہے تھے۔
گو ہم نے ان کی باتوں اور دعوئوں وغیرہ پر کبھی اعتبار نہیں کیا لیکن ایک زمانہ ان کا دیوانہ ہے اس لئے بات سننا پڑتی ہے۔
ہمیں اپنی بے خبری کا اعتراف ہے اسی لئے تو 9اپریل کے تھپڑوں پر کوئی کالم پھڑکایا نہ گھڑیوں والے معاملے پر اچھل کود کی۔ بہت پہلے ان کالموں میں صرف یہ بتایا تھا کہ عمران خان کا یہ کہنا کہ تحائف بیچ کر سڑک بنوائی ہے والی بات اس لئے درست نہیں کہ سی ڈی اے کو سڑک کی تعمیر کے لئے انہوں نے جو 18لاکھ روپے دیئے یہ رقم 2017ء میں ادا کی تھی وہ چاہتے تھے کہ بنی گالہ کی مرکزی سڑک سے ان کے گھر تک کے راستے کو تارکول والی سڑک میں بدل دیا جائے۔
یہ راستہ پختہ کروانے کے لئے انہوں نے یک بار نوازشریف کو بھی کہا تھا جب وہ وزیراعظم کے طور پر ان سے ملے تھے۔
سی ڈی اے کے مطابق عمران خان نے 48لاکھ میں سے 18لاکھ دیئے تھے۔ پھر وہ وزیراعظم بن گئے۔
ظاہر ہے وزیراعظم تو وزیراعظم ہوتا ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے براستہ سڑک روزانہ گھر سے ایوان وزیراعظم جانے اور سڑکوں پر لوگوں کو تنگ کرنے کی بجائے ہیلی کاپٹر سے آمدورفت کو ترجیح دی۔ غالباً فواد چودھری نے کہا تھا کہ 38روپے میں ایک کلومیٹر طے ہوتا ہے ہیلی کاپٹر سے۔
اب ایسے سادہ وزیراعظم پر اگر گھڑیاں فروخت کرنے اور کراکری تک توشہ خانہ سے گھر لے جانے کے الزامات لگیں تو افسوس ہی ہوگا۔
خان صاحب بھی اچھے آدمی ہیں چند دن قبل انہوں نے کہا ’’امریکی سازش کا بیانیہ پیچھے رہ گیا ہمیں آگے بڑھنا ہے‘‘۔ اب گزشتہ روز فرمایا
’’مان لیا اسٹیبلشمنٹ میری حکومت گرانے کی سازش میں شریک نہیں تھی لیکن حکومت گرانے کے عمل کو روک تو سکتی تھی؟‘‘۔ شاعر اس شعر میں کیا کہنا چاہ رہا ہے یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
ابھی کچھ دیر قبل ہی ناشتہ پھڑکایا ہے گرما گرم چائے کا کپ بھی انڈیلا پھر بھی موضع سے اِدھر اُدھر بھٹک جاتا ہوں۔
خیر اب تازہ خبر یہ ہے کہ خان صاحب نے کہا ہے کہ ’’26نومبر کو سب کو سرپرائز ملے گا۔ لانگ مارچ راولپنڈی کیوں جارہا ہے حکمت عملی جلد ہی سمجھ میں آجائے گی‘‘۔
شیخ رشید اور کچھ دوسرے اتاولے مارشل لاء کی کھسر پھسر کررہے ہیں۔ اب ہم اتنے بھی پسماندہ نہیں کہ یہ نہ بتاسکیں کہ یہ ایڈونچر مشکل ہی ہو گا ، خطے اور بدلتے ہوئے عالمی حالات معاون نہیں ہوں گے۔
معاشی اتھل پتھل سے لولی لنگڑی جمہوری حکومت ہی نکلواسکتی ہے۔ ایڈونچر کی صورت میں دیوالیہ واجب ہوجائے گا۔
آئی ایم ایف والے پچھلے برس کے اکتوبر نومبر سے ناراض ہیں رواں سال فروری میں انہوں نے کھل کر ناراضگی کا اظہار کیا تھا تب ان کالموں میں عرض کیا تھا ا نہوں نے قسط روک لی ہے
قسط روکنے کی وجہ پچھلی قسط کی رقم کا غلط استعمال تھا۔ تب حکومت نے ان کی تسلی کرانے کی بجائے نواں کٹا کھول لیا۔ خیر یہ بھی پرانی باتیں ہیں۔
آئندہ آرمی چیف کون ہوگا؟ وہی جس کے نام کا اعلان ہوگا۔ طرفین کی سیاسی "ترقی” اور "پسماندگی” کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔
خان صاحب کو یہ غلطی ماننا ہی پڑے گی ایک دن کہ کابل کے حوالے سے انہوں نے جس ہیرو گیری کی کھلے بندوں حمایت کی تھی وہ ملکی مفاد میں نہیں تھی اس ہیرو گیری کے نتائج ابھی ہمیں اور آپ کو مزید بھی بھتنگا ہوں گے۔
آخری سطر یہ ہے کہ لالہ باجوہ کے حوالے سے احمد نورانی کی رپورٹ وقت گزرنے کے بعد کا وہ مُکا ہے جو اپنے ہی چہرے پر مارنا پڑتا ہے۔
سوال کے آخری الفاظ ابھی ان کے منہ میں ہی تھے کہ فقیر راحموں نے قہقہے اچھالنے شروع کردیئے۔ دوست نے ایک لمحے کیلئے ہماری طرف دیکھا اور پھر فقیر راحموں کی طرف اور حیرانی سے دریافت کیا، کیا میں نے کوئی غلط بات کہہ پوچھ لی فقیر سائیں؟
جواباً فقیر راحموں نے کہا، "ملک صاحب آپ تیسری دنیا کے دو پسماندہ شہروں سے شائع ہونے والے اخبارات سے منسلک اخبار نویس سے اگر آرمی چیف کی تعیناتی بارے میں پوچھیں گے تو میں ہنسوں گا ہی۔
اسے تو ملتان اور پشاور کے کسی تھانے کا ایس ایچ او چھوڑیں محرر تک نہیں جانتے، کوئی ہیڈ کلرک چھوڑیں عام سا کلرک اس کی بات سننے کو تیار نہیں۔
وضع قطع چیک کیجئے، ملنگ درویش لگتا ہے یا سائل کہیں کسی طرح ” صحافی دکھتا ہے یہ ” ۔
اس کا بھتیجا اگر اسے ہر ماہ ایک معقول رقم نہ بھجوائے تو ڈن ہل سگریٹ خریدنے پینے کے لالے پڑجائیں اور لگ پتہ جائے شاہ جی کو ” ۔
ملک صاحب نے ایک بار پھر ہماری طرف دیکھا منہ سے کچھ نہیں بولے لیکن سوال آنکھوں اور چہرے پر رقص کرتا صاف دیکھائی دے رہا تھا۔
عرض کیا فقیر درست کہتا ہے، مرحوم راشد حیدر سیال کے صاحبزادے کو اپنے مرحوم والد کے یار سے خصوصی محبت ہے ۔ رہی بات ایس ایچ او یا محرر سے عدم شناسائی کی تو یہ تو پھر ’’بڑے‘‘ عہدے ہیں مجھے تو چند برس قبل ویگن میں جیب کترے کے ہاتھوں قیمتی موبائل نکال لئے جانے کے بعد تھانہ شاہدرہ کے اے ایس آئی نے صحافی ماننے سے اس وقت انکار کردیا تھا جب میں نے اسے تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ، ہم لاہور سے شائع ہونے والے ایک اخبار کے ایڈیٹر ہیں۔
تھانیدار نے بے ساختہ کہا ’’صوفی صاحب، شکلوں تے تسیں نامہ نگار وی نی لگدے‘‘۔ بڑی مشکل پیش آئی چھوٹے تھانیدار کو یہ یقین دلانے میں کہ ہم واقعی ایڈیٹر ہیں۔ اس نے جیب کاٹ لئے جانے کی درخواست لکھوائی ایک ٹھنڈی کوک بھی منگواکر دی اور رخصت کرتے ہوئے بولا، صوفی جی کسے چنگے جئے نامہ نگار نوں استاد کرلئو تاکہ ویگناں اچ دھکے کھان توں بچ جائو۔
اچھا چھوڑیں پرانے زخم کریدنے کا کیا فائدہ ہم کوئی توپ مارکہ صحافی ہوتے تو لاہور میں جماعت اسلامی والے ظہور احمد وٹو کو اس کی ہائوسنگ سوسائٹی میں اپنے 2عدد پلاٹ اور ایک فائل ڈکارنے دیتے یا ہمارا ایک ملزم لین دین کرکے ضمانت کرواکے نکل جانے میں کامیاب ہوجاتا۔
فقیر راحموں درست ہی کہتا ہے تیسری دنیا کے دو پسماندہ شہروں سے شائع ہونے والے اخبارات سے منسلک ہم ایسے شخص کی پہنچ ہی کیا ہے ہمیں کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا۔
سمری میں کون سے تین یا پانچ نام ہوں گے جن میں سے ایک کو وزیراعظم چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی اور دوسرے کو آرمی چیف لگادے گا۔
آپ اسے ہماری سادگی کہیں یا پسماندگی، ہم اب تک یہی سمجھتے ہیں کہ سیکرٹری دفاع کے ماتحت تین محکموں کے سربراہوں یا یوں کہہ لیجئے کہ بری فوج کے سربراہ کی تقرری روٹین کی بات ہے۔
اس پر سیاست، قیاس آرائیاں وغیرہ وغیرہ اور تجزیئے ’’ٹھوکنے‘‘ والی ’’عبادتیں ‘‘ بے کار ہیں۔
بدقسمتی سے ہم اور آپ چونکہ نیم جمہوری نہیں بلکہ سکیورٹی سٹیٹ کے باشندے ہیں، ایسی سکیورٹی سٹیٹ کے جس میں 4عدد مارشل لاء مجموعی طور پر تقریباً 36 سال نگل گئے باقی کے برسوں میں جو حکومتیں تھیں وہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت رہیں یا مجبوری۔
مجبوری بننے والوں کے ساتھ اس ملک میں جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور ضرورت بننے والوں کی حالت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہم ’’نو انقلابی‘‘ بھی نہیں ہیں کہ انقلاب کی باسی کڑی میں اُبال چین نہ لینے دے۔
اے این پی اور پیپلزپارٹی سے قدرے محبت وغیرہ ہے یہ بھی سوتے ہوئے بچے کا منہ چومنے والی بات ہی سمجھ لیجئے۔
معاف کیجئے گا بات مہمان کے سوال سے شروع ہوئی تھی۔ فقیر راحموں کی باتوں نے الجھاسا دیا۔ ویسے سچ پوچھیں تو عرض کروں، فقیر راحموں درست کہتا ہے، تیسری دنیا کے 2پسماندہ شہروں سے شائع ہونے والے اخباروں سے منسلک قلم مزدور کی پہنچ کیا ہوسکتی ہے، کوئی بھی نہیں۔
ویسے اس پہنچ کی ضرورت کیا ہے۔ ہمارے بعض دوست کہتے ہیں ضرورت ہے زندگی ڈھب سے گزارنے کے لئے یہ ڈھب سے زندگی گزارنا کیا ہوتا ہے۔
ہمیں یہی اچھا لگتا ہے ہر گزرنے والا دن عزت کے ساتھ گزرگیا۔ وقت پر جو دال ساگ ملا کھالیا۔ سگریٹ پھونکے، چائے پی، مزدوری کی اور کتابیں پڑھ لیں۔
نیٹ پر پاس پڑوس کے علاوہ دنیا بھر کے اخبارات دیکھتا رہتا ہوں۔ ایک آدھ ملک کے علاوہ کسی ملک کے اخبارات میں آرمی چیف کون ہے مصروفیات کیا ہے، تقرری کی مدت اور سبکدوشی کب ہوگی کی خبریں بہت مشکل سے ملتی ہیں۔
ہم چونکہ نسل در نسل لشکر پسند ہیں اس لئے لشکری خبروں کو اہمیت دیتے ہیں۔ فقیر راحموں کہتا ہے کہ ہمارے پُرکھے (یہاں ہم سے مراد سب ہیں فقط ہم نہیں) چونکہ لشکروں کی فتوحات سے ملنے والے مال غنیمت سے وظائف پاتے تھے اس لئے
’’چُھٹتی نہیں ہے یہ کافر منہ کو لگی ہوئی‘‘۔
ہم پسماندہ شہروں کے اخباروں سے منسلک ہیں اس لئے اگر آپ کو فقیر راحموں کی یہ منطق سمجھ میں آجائے تو بتایئے گا ضرور، ثواب کی نیت سے ہی بتادیجئے گا۔
یقین کیجئے ہمیں خود دو دن قبل یہ پتہ چلا کہ عمران خان بھی اب اس مشہور زمانہ "کلب” کے رکن بن گئے ہیں جس کے خلاف وہ ’’بقولِ خود‘‘ 26برسوں سے جدوجہد کررہے تھے۔
گو ہم نے ان کی باتوں اور دعوئوں وغیرہ پر کبھی اعتبار نہیں کیا لیکن ایک زمانہ ان کا دیوانہ ہے اس لئے بات سننا پڑتی ہے۔
ہمیں اپنی بے خبری کا اعتراف ہے اسی لئے تو 9اپریل کے تھپڑوں پر کوئی کالم پھڑکایا نہ گھڑیوں والے معاملے پر اچھل کود کی۔ بہت پہلے ان کالموں میں صرف یہ بتایا تھا کہ عمران خان کا یہ کہنا کہ تحائف بیچ کر سڑک بنوائی ہے والی بات اس لئے درست نہیں کہ سی ڈی اے کو سڑک کی تعمیر کے لئے انہوں نے جو 18لاکھ روپے دیئے یہ رقم 2017ء میں ادا کی تھی وہ چاہتے تھے کہ بنی گالہ کی مرکزی سڑک سے ان کے گھر تک کے راستے کو تارکول والی سڑک میں بدل دیا جائے۔
یہ راستہ پختہ کروانے کے لئے انہوں نے یک بار نوازشریف کو بھی کہا تھا جب وہ وزیراعظم کے طور پر ان سے ملے تھے۔
سی ڈی اے کے مطابق عمران خان نے 48لاکھ میں سے 18لاکھ دیئے تھے۔ پھر وہ وزیراعظم بن گئے۔
ظاہر ہے وزیراعظم تو وزیراعظم ہوتا ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے براستہ سڑک روزانہ گھر سے ایوان وزیراعظم جانے اور سڑکوں پر لوگوں کو تنگ کرنے کی بجائے ہیلی کاپٹر سے آمدورفت کو ترجیح دی۔ غالباً فواد چودھری نے کہا تھا کہ 38روپے میں ایک کلومیٹر طے ہوتا ہے ہیلی کاپٹر سے۔
اب ایسے سادہ وزیراعظم پر اگر گھڑیاں فروخت کرنے اور کراکری تک توشہ خانہ سے گھر لے جانے کے الزامات لگیں تو افسوس ہی ہوگا۔
خان صاحب بھی اچھے آدمی ہیں چند دن قبل انہوں نے کہا ’’امریکی سازش کا بیانیہ پیچھے رہ گیا ہمیں آگے بڑھنا ہے‘‘۔ اب گزشتہ روز فرمایا
’’مان لیا اسٹیبلشمنٹ میری حکومت گرانے کی سازش میں شریک نہیں تھی لیکن حکومت گرانے کے عمل کو روک تو سکتی تھی؟‘‘۔ شاعر اس شعر میں کیا کہنا چاہ رہا ہے یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
ابھی کچھ دیر قبل ہی ناشتہ پھڑکایا ہے گرما گرم چائے کا کپ بھی انڈیلا پھر بھی موضع سے اِدھر اُدھر بھٹک جاتا ہوں۔
خیر اب تازہ خبر یہ ہے کہ خان صاحب نے کہا ہے کہ ’’26نومبر کو سب کو سرپرائز ملے گا۔ لانگ مارچ راولپنڈی کیوں جارہا ہے حکمت عملی جلد ہی سمجھ میں آجائے گی‘‘۔
شیخ رشید اور کچھ دوسرے اتاولے مارشل لاء کی کھسر پھسر کررہے ہیں۔ اب ہم اتنے بھی پسماندہ نہیں کہ یہ نہ بتاسکیں کہ یہ ایڈونچر مشکل ہی ہو گا ، خطے اور بدلتے ہوئے عالمی حالات معاون نہیں ہوں گے۔
معاشی اتھل پتھل سے لولی لنگڑی جمہوری حکومت ہی نکلواسکتی ہے۔ ایڈونچر کی صورت میں دیوالیہ واجب ہوجائے گا۔
آئی ایم ایف والے پچھلے برس کے اکتوبر نومبر سے ناراض ہیں رواں سال فروری میں انہوں نے کھل کر ناراضگی کا اظہار کیا تھا تب ان کالموں میں عرض کیا تھا ا نہوں نے قسط روک لی ہے
قسط روکنے کی وجہ پچھلی قسط کی رقم کا غلط استعمال تھا۔ تب حکومت نے ان کی تسلی کرانے کی بجائے نواں کٹا کھول لیا۔ خیر یہ بھی پرانی باتیں ہیں۔
آئندہ آرمی چیف کون ہوگا؟ وہی جس کے نام کا اعلان ہوگا۔ طرفین کی سیاسی "ترقی” اور "پسماندگی” کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔
خان صاحب کو یہ غلطی ماننا ہی پڑے گی ایک دن کہ کابل کے حوالے سے انہوں نے جس ہیرو گیری کی کھلے بندوں حمایت کی تھی وہ ملکی مفاد میں نہیں تھی اس ہیرو گیری کے نتائج ابھی ہمیں اور آپ کو مزید بھی بھتنگا ہوں گے۔
آخری سطر یہ ہے کہ لالہ باجوہ کے حوالے سے احمد نورانی کی رپورٹ وقت گزرنے کے بعد کا وہ مُکا ہے جو اپنے ہی چہرے پر مارنا پڑتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر