حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعید ابراہیم نے فکری مغالطوں پر بات کی، سچ یہی ہے کہ ان کی بات درست ہے۔ برصغیر کے مسلم طبقات فکری مغالطوں کے مارے ڈسے ہوئے ہیں اس پر ستم یہ ہے کہ اگر کبھی کسی نے لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا تو غوروفکر کی بجائے جہل گزیدہ اس شخص کے درپے ہوگئے جس نے بھی یہ کہا
’’عقل پر لاٹھیاں برسانے اور تحقیق کو انکار سے باندھ کر پیش کرنے کی بجائے غوروفکر کی زحمت کیجئے‘‘۔
ایک سے زائد بار ان کالموں میں عرض کرچکا کہ اولاً تو مسلم تاریخ کی چھان پھٹک کا انتظام ہونا چاہیے، ثانیاً کم از کم برصغیر کی تاریخ کے اس حصہ کا تو ضرور جس میں مسلمان یہاں پہنچے، پھلے پھولے۔
ہم مسلم تاریخ کی چھان پھٹک سے اس لئے بھاگتے ہیں کہ یہ اب ہمارے عقیدوں کا حصہ ہے۔ اپنے اپنے عقیدوں کو اس تاریخ کے خاص ادوار سے رزق فراہم کرتے ہیں باقی ماندہ حصوں سے انکار کردیتے ہیں۔
برصغیر کی تاریخ کے مسلمانوں کی آمد کے بعد والے حصے پر اس لئے بات نہیں کرپاتے کہ یک قومی نظریہ کی بھول بھلیوں کو رزق اسی سے فراہم کرتے ہیں۔
اچھا یہ معاملہ تاریخ کے ان دو ادوار تک نہیں ہم برصغیر والوں کی اکثریت پوری انسانی تاریخ کو مخصوص عینک سے دیکھنے کی عادی ہے۔
مثلاً آج بھی ہمارے ’’پڑھے لکھے‘‘ یہی سودا بیچتے ہیں کہ ظہور اسلام سے قبل بلاد عرب میں جہالت کا دوردورہ تھا۔ حالانکہ قبل از اسلام کا عربی ادب اس تصور کی نفی کرتا ہے۔
ہم ایک ہی وقت میں توسیع پسندی کو جہاد اور سامراجیت قرار دیتے ہیں یعنی ایک سرائیکی مثال کے مطابق ’’جب چاہا کراڑی (ہندو) کہا جب چاہا غلام فاطمہ بنادیا‘‘۔
جس سوال سے ہم بھاگتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہماری تاریخ کیا ہے؟ کیا مذہب کی تبدیلی کے ساتھ تاریخ کی وراثت بھی بدل جاتی ہے؟
عمومی رویہ تو اثبات میں ہی ہے۔
یہ خیال کہ مذہب کی تبدیلی کے ساتھ اب مقامیت، تہذیب و تمدن، تاریخ وغیرہ سے تعلق نہیں رہا۔
کیا پھر برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ اولین مسلمان سے یا پہلے مسلم حملہ آور سے شروع ہوئی؟ دونوں صورتوں کو اگر درست مان لیاجائے تو پھر اس تاریخ کا کیا کرنا ہے جس نے فکری مغالطوں کی فصلیں بوئیں اور ہزار برس سے ہم نسل در نسل کاٹتے آرہے ہیں۔
مسلم قومی تشخص کی فکر نے جس مقامیت کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوشش کی کیا ایسا دوسرے خطوں میں بھی ہوا یا یہ صرف برصغیر کے حصے میں ہی آئی سوچ ہے۔
سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ سوچ برصغیر میں ہی پیدا ہوئی اس کے پھولنے پھلنے کے سارے انتظامات بھی یہیں ہوئے ورنہ باقی ماندہ دنیا میں کہیں بھی مذہب کی تبدیلی کے ساتھ مقامیت پر مسلم قومیت مسلط ہوئی نہ مسلم تاریخ۔
یہاں بدقسمتی سے ایسا اس لئے ہوا کہ یہاں مسلم حملہ آوروں سے برادرانہ تعلقات کا پرچار ہوا اور ثانیاً یہ کہ مسلم اقلیت کو ایک خاص تعصب کے خمار میں مبتلا رکھنے کی ضرورت تھی۔
یہ بھی بدقسمتی ہے کہ اس فکری مغالطے کی مزاحمت بہت کم ہوئی۔
مثال کے طور پر اگر ہم دیکھیں تو ہمارے یہاں اہل دانش کے مقابلہ میں ملائیت اور حکمرانوں کے مذہبی پولیٹیکل ایجنٹوں کا عمل دخل بہت زیادہ رہا۔
ایک طالب علم کے طور پر جو سمجھ سکا وہ یہ ہے کہ پتھروں کے بتوں کی پرستش سے آزاد کرانے کا دعویٰ کرنے والوں نے پوجاپاٹ کے نئے انداز متعارف کروائے۔
ان مغالطوں کے فروغ نے ایک طرف علم کے حوالے سے دینی علم اور دنیاوی علم کی متھ کو مضبوط کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے پرکھوں نے برصغیر کے مسلمانوں سے اس حقیقت کو پوشیدہ رکھا کہ جسے دینی علم کے نام پر نجات کی کنجی بناکر پیش کیا جارہا ہے اس درس نظام کی اول شکل تو ملوکیت کے انتظامی دفاتر کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے تھی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جب جناب شیخ احمد سرہندیؒ نے سقراط وغیرہ پر جناب عیسیٰؑ کی دعوت حق کو قبول نہ کرنے کی پھبتی کسی تو اس پر واہ واہ بہت ہوئی لیکن کسی نے اُس وقت یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ہر دو فہموں یعنی دین مسیحیتؑ اور یونانی فلسفہ کے ارتقا میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔
کیا ملوکیت کے مذہبی پولیٹیکل ایجنٹوں سے یہی کام لینا مقصود تھا کہ مقامیت اور مقامی تاریخ دونوں کو شرک کے طور پر پیش کرکے نومسلموں کی وفاداری کے نئے مراکز منوائے جائیں۔ بادشاہ، پیر، ملا اور مسلم تاریخ؟
غالب امکان یہی ہے کہ تاریخ اور شناخت کے حوالے سے رواج پانے والے مغالطے اصل میں اسی سوچ کا نتیجہ تھے کہ نئے مذہب کو قبول کرنے والوں کو الگ شناخت کی فکر دے کر انہیں باقی ماندہ آبادی کے طبقوں سے الگ تھلگ کرلیا جائے اس طور عقیدت مند رعایا کبھی عوام نہیں بن سکے گی۔
اسی وجہ سے ہمیشہ عرض کیا کہ ہمیں برصغیر کی مسلم تاریخ کے حصے کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مذہب کی تبدیلی کے باوجود لوگوں کی اکثریت کا خمیر اسی مٹی سے گندھا ہے۔ پناہ کے لئے آنے والے ہوں ، حملہ آور یا حملہ آوروں کے ساتھ آنے والے یا پھر کاروباری ضرورتوں کے تحت نقل مکانی کرکے آنے والے مسلم خاندانوں کو بھی نئے وطن کی تاریخ و تمدن کو قبول کرنا چاہیے تھا ان میں سے بہت کم لوگوں نے خود کو مقامی رنگ میں رنگا۔
حملہ آوروں کے ساتھ آنے والے طبقات نے ہمیشہ خود کو بالاتر مخلوق سمجھا۔
خود مسلم حکمرانوں میں ہمیں اکبر کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں ملتا جو ادیان کی بنیاد پر ملاکھڑوں سے تعصب کو رزق فراہم کرنے کی بجائے سماجی وحدت کی ضرورتوں کو شعوری طور پر سمجھ پایا ہو۔
اکبر کی وسعت قلبی پر کیا کیا فتوے نہیں لگے یہاں تک کہ سماجی وحدت کی فہم اور ادیان کے یکساں احترام کی سوچ کو کٹھ ملائیت نے ایک نئے دین (دین اکبری) سے تعبیر کیا۔
میں یہ نہیں کہتا کہ اکبر ملامتی خیالات کا حامل تھا لیکن یہ ضرور ہے کہ اس نے برصغیر میں ایک ایسی سماجی وحدت قائم کرنے کی شعوری کوشش کی جو مذہبی تعصبات سے محفوظ ہو۔ اس پر جو الزامات اور فتوے لگے اگر ان کا مطالعہ کرلیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مولوی اور پیر صاحبان ہر دو سماجی وحدت کی آزادانہ سوچ کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے ان کی اپنی فکر کے دوام کے لئے ازحد ضروری تھا کہ مذہب تبدیل کرنے والے طبقات کو باقی ماندہ آبادی سے الگ شناخت کے تعصب سے ’’سرشار‘‘ کیا جائے۔
ان سارے گھٹالوں اور فکری مغالطوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ہیرو مسلم حملہ آور ہوگئے۔ بہت زیادہ ہوا تو ہم نے ایک ہی وقت میں ابن رشد اور امام غزالی دونوں کو اپنالیا۔
حالانکہ ایسا سوچا جانا ہی در حقیقت فکری مغالطوں کا المیہ تھا اور ہے۔ اصولی طور پر اگر تبدیلی مذہب کے عمل کو (وہ جیسے بھی ہوا ہو) اگر مقامیت کے انکار سے یا نہ ماننے کی بجائے اسی سماجی اور تاریخ میں سے اپنا حصہ لیا جاتا تو یہ زیادہ بہتر ہوتا شناخت کے جس بحران سے ہم ہزار سال بعد بھی دوچار ہیں کم از کم یہ تو نہ ہوتا۔
میں جب مقامی شناخت کو مذہبی شناخت پر مقدم قرار دیتا سمجھتا ہوں تو اس کی وجہ مذہب سے انکار نہیں بلکہ اس اجنبی تاریخ سے برات ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ نہیں البتہ ان کے ہم مذہب عربوں، ترکوں، ایرانیوں، مصریوں کی تاریخ ضرور ہے۔
آپ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ دراصل مسلم سلاطین کے مختلف الخیال خاندانوں کی تاریخ ہے یا اس سے قبل دعوت اسلامی کے آغاز کے برسوں دور رسالت مآبؐ اور خلفائے راشدین کرامؓ کے ادوار کی تاریخ۔
مزید سہل انداز میں یہ کہ کسی بھی مذہب کے پیروکاروں اور مذہب کی تاریخ ضرور ہوتی ہے لیکن تاریخ کا مذہب اور عقیدہ نہیں ہوتا۔
ہم برصغیر کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ یا فکری مغالطہ یہی ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ کے اس حصہ سے انکار کردیا جو تبدیلی مذہب سے قبل کے عرصہ کی تھی۔ اس مسلسل انکار کی وجہ سے ہم اپنے ہی سماج میں اجنبی ہوتے چلے گئے۔
کیا ہمارے اہل دنش اس امر پر غور کی زحمت کریں گے کہ اپنے ہی سماج میں اجنبی ہوجانے کا فائدہ کس کو ہوا؟ نقصان بہرطور عام شخص کا ہوا۔
افسوس کہ ہمارے یہاں دستیاب تاریخ پر مکالمہ کا رواج نہیں۔ مکالمے کی حوصلہ شکنی کی وجہ بھی یہی ہے کہ مکالمے کے لئے عقل اور علم لازم ہیں۔
عقل اور علم کی دولت سے مالامال لوگ مصنوعی متھوں سے انکار کی زندہ نشانی ہوتے ہیں اور ہمیں ایسی نشانیاں اس لئے قابل قبول نہیں کہ ان کی وجہ سے مذہب کو کاروبار بنانے والوں کی دکانوں کے بند ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔
کیا اب بھی تاریخ کو ازسرنو دیکھنے اور فکری مغالطوں سے نجات کے لئے اقدامات کی ضرورت نہیں؟ ہماری دانست میں اس کی اشد ضرورت ہے تاکہ حقیقت پسندی کو رواج ملے اور سرابوں کے تعاقب سے نجات۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور