رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست اپنے حقیقی روپ میں کبھی بھی جنگ نہیں ہوتی۔ اس کا اولین مقصد ہی جنگوں کو روکنا ہے۔ تنازعات تو سیاست اورمعاشرت میں آئے روز پیدا ہوتے ہیں۔ اختلافِ رائے بھی بڑھ جاتا ہے مگر سیاست اس کا حل آئین‘ قانون اور روایات کے ذریعے تلاش کرلیتی ہے۔ ہم ابتدائی اسباق میں سیاست کی کئی تعریفوں سے ایک ”تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنا‘‘سکھاتے ہیں۔ معاشرے میں کئی سیاسی دھڑے‘جماعتیں‘ گروہ اور طاقتور حلقے ہوتے ہیں۔ سب براہ راست اور بالواسطہ اقتدار کے حصول‘ رسائی اور اس پر اثر انداز ہو کر اپنے مفادات کو محفوظ بنانے اور آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست اور آئینی ادارے مقابلے کے لیے میدان اورراستہ فراہم کرتے ہیں۔ صدیوں سے یہ کھیل جمہوری ممالک میں جاری ہے۔ نسل در نسل شکست کھائی‘ مان لیا کہ حریف کو حکومت کرنے کا قانونی حق ہے۔ سیاست انتخابات پر ختم نہیں ہوتی۔ یہ تو اقتدار کے قانونی جواز اور پرامن منتقلی کا پہلا مرحلہ ہے۔ یہ گزر جائے تو ملکی مسائل جو حالات کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں‘ کے حل‘ قانون سازی اور پالیسیاں مرتب کرنے اور معیشت کو چلانے کے سلسلے میں مختلف آرا سامنے آتی ہیں۔ بحث و مباحث کا سلسلہ چلتا رہتا ہے‘ تما م ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بظاہر تو ہمارے مسائل بھی یہی ہیں‘ مگر ایسا نہیں ہے۔ سیاست کو آئینی تقاضوں اور معروف پارلیمانی روایات سے ہٹ کر کچھ طاقتور شخصیات کے ذاتی اور گروہی مفادات کے تابع کردیا جائے تو پھر سیاست‘ سیاست نہیں رہتی بلکہ ایک جنگ کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ سیاست اور جنگ میں فرق یہ ہے کہ سیاست اصولوں پر چلتی ہے اور جنگ میں اوّل تو اصول ہیں ہی نہیں‘اگرہوں بھی تو اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ کوئی ان کی پروا ہی نہیں کرتا۔ ہماری بدقسمت قوم کی تقدیرمیں اصولی سیاست کی لکیریں طالع آزمائوں نے مٹادی ہیں۔
ہماری سیاست وہ کبھی بھی نہیں رہی جو جدید جمہوری ممالک کا خاصا ہے۔ جب عمران خان مرکزی سیاسی دھارے سے دور تھے تو میدانِ سیاست میں ایک دوسرے سے نبردآزما‘د وسیاسی گھرانوں نے سماں باندھا ہوا تھا۔ میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرنے کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے ا ور جہاں کہیں سے سرپرستی مل سکتی تھی‘ حاصل کرنے کی تگ ودو میں تھے کہ سہارا مل جائے اور مخالفین کو ان کی حد میں رکھنا آسان ہوجائے۔ کیا وہ کیفیت آج کی سیاسی جنگ سے مختلف تھی جب فروری 2009 ء میں صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے پنجاب میں گورنر راج لگایا تھا اور یہاں میاں نواز شریف سڑکوں پر لانگ مارچ کررہے تھے کہ گھروں میں نظر بند سپریم کورٹ کے ججوں کو رہا کرکے ”آزاد‘‘عدلیہ کو بحال کیا جائے۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ ہمارے اکابرین نے سیاست کے اصول ترک کر کے من مانیاں کرنی شروع کیں تو ادارے کمزورہوتے چلے گئے۔ ریاست بوجھ تلے دبتی گئی۔میں صرف معیشت کی بات نہیں کررہا۔ ریاستی اداروں میں توازن کیسے برقرار رہ سکتا تھا؟ سیاست میں طاقتور حلقوں کی جانب سے مداخلت کی بات ہوتی رہی ہے مگر اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں اور موجودہ کھلاڑیوں اور ان کی سیاسی یا جنگی حکمت عملی کوسامنے رکھیں تو کون ہے جو سہاروں کا متلاشی نہیں یا مداخلت کا خواہش مند نہیں؟ اور سہارے کون تلاش کرتاہے ؟ وہی جو کمزور ہوتا ہے۔ سامنے آکر میدان میں مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس جنگ میں سب سے طاقتور کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
موجودہ سیاسی جنگ کے خدوخال اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس سیاسی جنگ کا انجام شاید وہ نہ ہو جو اسلام آباد کی حکومت کے ذہن میں ہے۔ بات اب بڑھکوں اور دھمکیوں سے آگے نکلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ طاقت کا نشہ ہو یا سر پر خوف وخطرات کے سائے منڈلا رہے ہوںتو دانش مندانہ فیصلے نہیں ہوتے۔ ایک تعیناتی کو ایک سال سے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ یاد ہے کہ تیرہ جماعتی اتحاد والے انہی مہینوں میں گزشتہ سال وہی زبان استعمال کررہے تھے جو اب عمران خان استعمال کررہے ہیں۔ جو بھی اس بڑے عہدے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو‘ اس کے لیے ہمارے سیاسی جنگجوئوں نے اچھا نہیں کیا۔تادمِ تحریر قیاس آرائیاں اوراندازے اپنی جگہ مگر دبے لفظوں میں جو مکالمے چل رہے ہیں‘ انہیں سن کر حالات کی سنگینی کااندازہ ہورہا ہے۔ لانگ مارچ کے دن اور رخ کا تعین ہوچکا۔ اب یہ کیا رنگ لائے گا‘ بس اتناہی کہہ سکتے ہیں کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ ہمیشہ کی طرح ہم غلطیوں پر غلطیاں کرتے جاتے ہیںاور مینڈک کی طرح تاریخ کے محدود سے دائرے میں ہمارا سفر جاری رہتا ہے۔
موجودہ سیاسی جنگ ہویا ا س سے پہلے کی جنگیں‘ بعض لوگ فائدے میں رہتے ہیں مگر ملک اور قوم تباہ ہوجاتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے ہی موازنہ کرکے دیکھ لیں۔ بنگلہ دیش کہاں پہنچ گیا۔ اس کی معیشت ہو یا سماجی ترقی کا معیار‘ ہم اس سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ وہ وقت گیا جب ہم اپنا مقابلہ بھارت سے کیا کرتے تھے۔ ذمہ داروں کا تعین کرنا ہے تو ذرا ان طبقات کی طرف دیکھیں جو اپنی مالی حیثیت میں کیا تھے اور اب ان کے محلات دنیا کے کس کس ملک میں ہیں۔ خزانوںکاتوکہیں شمار ہی نہیں۔اس ملک میں اگر سیاست کی آڑ میںلوٹ مار کا چلن نہ ہوتا تو سیاست ممکنہ طور پر اصولوں پر چلتی۔ جب سیاست نے وہ رنگ اختیار کیا جوہم گزشتہ چوالیس سال سے دیکھ رہے ہیں تو سیاست کا مقصد ملک اور قوم کی خدمت تو نہیں رہے گا۔ہر صورت میں اقتدار چاہیے‘ اور پھر وہ وہی کچھ کریں گے جو جی میں آئے۔
جنگ کے بادل آسمان پر چھائے ہوئے ہیں۔ لانگ مارچ کی آندھی بھی چل رہی ہے۔ دوسر ے بھی مقابلے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ معیشت کسی سے سنبھل نہیں رہی‘ ملک دیوالیہ ہونے کو ہے‘ کوئی مشکل فیصلے کرنے کے لیے تیار نہیں‘ ادارے مفلوج ہوچکے ہیں۔ انصاف اور حکمرانی کا ایسا زوال ہے کہ سسٹم کے بیٹھ جانے کا خوف پیدا ہورہا ہے۔ ہمارے سیاسی لوگ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائیوں میں مصروف ہیں۔ ایسی ”حق و باطل‘‘ کی لڑائیاں اس ملک کے سیاسی میدان میں ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ ایسے گھمسان میں عوام کے ذہنوں پر ایسی گرد جم جاتی ہے کہ ان کے نزدیک حق وباطل کا فرق مٹ جاتاہے۔ کوئی اور ملک ہوتا تو معاملہ سیدھا تھا کہ نئے انتخابات کرادیے جائیں اور جو جماعت جیت جائے وہ ملک کا نظم و نسق اگلے پانچ سال کے لیے چلائے۔ اپنے منشور اور پروگرام پر عمل کرے۔ لڑائی ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے‘ تازہ انتخابات۔ جو سیاسی دھڑے کئی باریاں لینے کے بعد بھی کچھ نہیں کرسکے وہ اگلے دس ماہ میں کیا کرلیں گے؟ معاملہ ملک کو سنبھالنا نہیں‘ کچھ اور ہے۔ ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ اگر عمران خان کی جماعت جیت گئی تو کون سا بڑا نقلاب برپا ہوجائے گا‘مگر جن کے بوجھ اور بھاری پن نے اس ملک کو ڈبویا ہے‘ شاید وہ ہلکا ہوجائے۔ کوئی رخ متعین ہو‘ استحکام نصیب ہو‘ مگر جب پنجاب میں بزدار حکومت اور وفاق میں ان کی کارکردگی یاد آتی ہے تو خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ کوئی بھی یہ جنگ جیتے‘ ہم‘ آپ اور اس ملک میں بس وہی رہیں گے جو اَب ہیں۔ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ