مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خرابی قانون میں نہیں!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپریم کورٹ میں نیب قانون میں ترامیم کے ایکٹ کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے یہ ریمارکس سو فیصد درست ہیں کہ خرابی قانون میں نہیں اس کے غلط استعمال میں ہے۔ لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ بعض قوانین مخالفین کے خلاف شکنجہ کسنے کیلئے بنائے جاتے ہیں اور قوانین میں ترامیم بھی شکنجہ کھولنے کیلئے کی جاتی ہیں۔ نیب قانون اور اس میں ترمیم اس کی واضح مثال ہے۔ قوانین بنانے والوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ عدلیہ کا کام آئین اور قانون کی تشریح ہے۔ ہمارے سیاستدان دوسروں کے گلے میں پھندا ڈالنے کے لئے قوانین بناتے ہیں جب یہ پھندا اپنے گلے میں فٹ ہوتا ہے تو ترامیم شروع ہو جاتی ہیں۔ کرپشن کے خلاف ایک سے ایک قانون بنا مگر کرپشن عروج پر چلی گئی ، وجہ قانون کی نہیں اس کے استعمال میں ہے۔ ہر آنے والی حکومت احتساب کا نعرہ لگاتی ہے۔ عمران خان کی حکومت نے کرپٹ افراد کے خلاف کڑا احتساب کیا، بڑے بڑے سیاستدان گرفتار ہوئے، جیلوں میں گئے مگر حاصل کیا ہوا؟ لوٹی گئی دولت واپس کیا آنی تھی مقدمات اور وکلاء کی فیسوں کے نام پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے چلے گئے۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیاستدان کو کرپشن کے خاتمے سے نہیں بلکہ ذاتی انتقام سے دلچسپی ہے۔ کل عمران خان نیک پاک تھے اور پی ڈی ایم والے گنہگار، آج پی ڈی ایم نیک پاک ہو کر بر سراقتدار آ چکی ہے اور عمران خان گھڑی چور ہے۔ گھڑی چوری کا مقدمہ بھی ضروری ہے مگر ضیاء الحق دور سے شروع ہو جائیے جس جس نے جتنا لوٹا واپس لیجئے۔ لیاقت علی خان ، ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل اور سیاستدانوں کے کھربوں ڈالروں کی کرپشن سمیت تمام بڑے بڑے کیسز اور سکینڈلز سے بڑھ کر پروپیگنڈہ گھڑی چوری کا ہو رہا ہے۔ احتساب ضروری ہے مگر سب کا، آئین و قانون سے کوئی ادارہ یا کوئی شخص ماورا نہیں ہونا چاہئے۔ کرپشن کے خلاف بے رحمانہ احتساب کی ضرورت ہے ، یہ ملک ہمارا گھر ہے، گھر سے گھر کے آدمی چوری نہیں کرتے ، گھڑیکے ساتھ تمام بڑے چوروں کو پکڑا جائے۔ آج کراچی میں ساحل سمندر پر آیا ہوں،بڑے بڑے پلازے سمندر کے ساتھ نظر آئے ، کہا گیا کہ لینڈ مافیا نے حکمرانوں کی زیر سرپرستی سمندر سے زمین چھین کر پلازے بنائے ہیں ، ’’گویا کرپشن نے بحر میں بھی گھوڑے دوڑا دئیے ‘‘قومی اثاثوں کی نجکاری اونے پونے ہوئی، لینڈ مافیا نے ہائوسنگ سوسائٹیوں کے نام پر سرکاری رقبے اپنے نام کرائے۔ میرے ملتان میں میری آنکھوں کے سامنے آم کے باغات کا قتل عام آج بھی جاری ہے، میرے وسیب کے چولستان میں منگلہ ڈیم متاثرین کے چکوک ، تربیلا ڈیم متاثرین کے چکوک ، پٹ فیڈر متاثرین کے چکوک اسی طرح نہ جانے کس کس نام سے متاثرین کے چکوک ہیں اور یہ تمام زمینیں جو فرضی سکیموں کے ذریعے حاصل کی جائیں چوری کے زمرے میں آتی ہیں اور اس چوری کا ’’کُھرا‘‘ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے افراد کے گھروں تک جاتا ہے، گھڑی کے ساتھ دھرتی چوروں کو بھی پکڑنا چاہئے۔ گزشتہ روز اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کو چولستان کی نئی الاٹمنٹوں کے بارے میں کمشنر بہاولپور راجہ جہانگیر انور نے بریفنگ دی ۔ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ جب تک صوبہ نہ بنے چولستان ، تھل ، دمان اور وسیب کی تمام سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ بند کی جائے کہ یہ بہت ہی حساس مسئلہ ہے۔ وزیر اعلیٰ کا اعلیٰ سطحی اجلاس میں سول سیکرٹریٹ کو فنکشنل کرنے کیلئے اقدامات اور مختص 35 فیصد بجٹ کی فراہمی پر عملدرآمد کی ہدایت دینے کا مقصد یہی ہے کہ بزدار حکومت کے دور میں عمل نہ ہوا لیکن اب سول سیکرٹریٹ کی بجائے صوبائی سیکرٹریٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ چولستان کا ذکر آیا ہے تو یہ بتاتا چلوں کہ چولستان ہمارا وسیع اور خوبصورت صحرا ہے ، اس کے حصے میں بہت سے اضلاع آتے ہیں ، لیکن صحرا کا سب سے بڑا حصہ سابق ریاست بہاولپور کے تین اضلاع بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یارخان پر مشتمل ہے ۔ یہ صحرا قدیم وادی ہاکڑہ کا اہم حصہ ہے جس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر افسوس کہ صحرا کے آثار کو بچانے اور اس پر تحقیق کرنے کی بجائے شکاریوں نے اس کے حسن کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔پاکستانی شکاریوں کے علاوہ چولستان پر سب سے بڑا ظلم عرب شکاریوں نے کیا اور اس صحراء کے قیمتی جانوروں اور پرندوں کو ختم کر کے رکھ دیا ۔ چولستان کی قدامت بارے ابن حنیف لکھتے ہیں کہ ’’قدیم تہذیبی و تمدنی اثار کے حوالے سے وسیب میں اس لحاظ سے خصوصی اہمیت بہاولپور کے علاقے چولستان کو حاصل ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کے مختلف ادوار ہاکڑہ عہد ، ابتدائی ہڑپائی دور ،عروج یافتہ ہڑپائی دور ، متاخر ہڑپائی دور اور خاکستری سفالی عہد سے تعلق رکھنے والی آبادیوں کے مجموعی طور پر سب سے زیادہ آثار وہیں سے ملے ہیں جبکہ چولستان سے ہی ملنے والے بعد کے ابتدائی تاریخی ،وسطی ( مسلم ) عہد اور بعد کے آثار ان کے علاوہ ہیں ۔ ‘ ‘ چولستان دنیا کے بڑے صحراؤں میں شمار ہوتا ہے ،یہ صحرا ہزاروں مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ محققین بتاتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے یہ دریاؤں کا علاقہ تھا ، دریائے گھاگھرا، دریائے ہاکڑہ ، سرسوتی مختلف نام آتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کی خوبصورتی شادابی اور زرخیزی کی بناء پر حملہ آور اس علاقے آتے رہے ۔ سکندر اعظم کے یہاں آنے اور خونریزی کا ذکر ملتا ہے ۔ چولستان کی ریت میں بہت راز ہیں ، چولستان کے لوگ بہت سادہ اور دلنواز ہیں ، وہ اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور وسیب سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ انسانی زندگی کی کوئی بھی سہولت نہ ہونے کے باوجود بھی وہ صدیوں سے چولستان سے وابستہ ہیں اور وہ ایک پل کیلئے بھی اسے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ۔ وہ نسل در نسل ایک آس پر زندگی گزار رہے ہیں ، چولستان کے جس باشندے سے آپ پوچھیں ، وہ کہے گا کہ ’’ ہاکڑہ ول واہسی ‘‘ یعنی دریائے ہاکڑہ ایک بار پھر آئے گا اور ہم صحرا سے دریا میں تبدیل ہو جائیں گے ۔

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: