نومبر 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عاشق کا دھرم۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیجئے، جی پھر عصری سیاست پر لکھنے کو آمادہ نہیں۔ ہمارے انقلابی قائد جناب عمران خان نے ہی ’’سفرِ انقلاب‘‘ یعنی مبینہ سائفر سازش بیانیہ کو ماضی قرار دے دیا ہے تو ہم کیوں کھجل ہوتے پھریں تلاش انقلاب میں ،

فقیر راحموں نے اپنے انقلابی بھائیوں سے درخواست کی ہے کہ واپسی کا سفر شروع کردیں لیکن امید یہی ہے کہ انقلابی بھائی، انقلاب برپا کرکے ہی لوٹیں گے۔

چلیں جب تک انقلاب برپا ہو یا انقلابی سجدہ سہو کرکے واپس لوٹ آئیں اس وقت تک ہم شاعر ہفت زبان حضرت خواجہ غلام فریدؒ سے ملاقات کرتے ہیں۔

خواجہؒ کہتے ہیں ’’محبوب سے رخصت ہورہا ہوں تو جدائی کچوکے لگارہی ہے ایسا لگ رہاہے کہ سر پر درد و آلام کا بوجھ آن پڑا ہے‘‘۔ ہم نے وطن کی طرف رخ کرلیا ہے۔ یار کے کوچے سے جدائی کا دکھ صرف عاشق ہی سمجھ سکتا ہے۔ اس سے پریت لگائی ہے جس نے ڈگمگانے نہیں دیا‘‘۔

’’دل ہے کہ دیدار یار کو ترستا ہے، گھر، بازار اور شہر سے نہیں، عاشق کا کام محبوب سے ملاقات کے سفر کی سختیوں کو ہنس کر جھیل جانا ہے‘‘۔

’’غموں نے دل کو سخت کردیا، اس کے غم میں گھل گھل کر مروں گا‘‘۔ ’’ خون کے آنسو بہانا اور آہیں بھرنا اس سےبہتر ہے کہ یادِ یار کی مالا جپتا رہوں‘‘۔

خواجہ غلام فریدؒ کا نام خورشید عالم تھا۔ حضرت بابا فرید شکر گنجؒ کی ارادت میں غلام فرید ہوئے۔ تاریخ ولادت 26 ذی الحجہ 1261ہجری ہے۔ مرزا احمد اختر 26ذی قعدہ لکھتے ہیں لیکن محققین کی اکثریت 26 ذی الحجہ پر ہی متفق ہے۔

انکے والد گرامی محبوب الٰہی خواجہ خدا بخشؒ ، صاحب معرفت شخصیت تھے۔ خواجہ غلام فریدؒ نے اردو، سرائیکی، سندھی، فارسی، عربی زبان میں شاعری کی انہیں شاعر ہفت زبان کہا لکھا گیا۔ 1901ء میں وفات پائی۔

ان کے کلام کا مستند نسخہ ’’دیوان فرید‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ دیوان فریدؒ کو مختلف اوقات میں مرتب کیا گیا۔ سرائیکی زبان کے اس مجموعہ کلام کا ترجمہ و شرح لکھنے والوں میں بڑے بڑے صاحبان علم شامل ہیں۔

پچھلی صدی میں مولانا نور احمد خان فریدیؒ مرحوم کا مرتب کردہ دیوان فریدؒ اہل علم اور طلبا میں بہت مقبول ہوا۔ اس مقبولیت کی ایک وجہ سرائیکی اشعار کا آسان اردو ترجمہ اور شرح ہے

مجاہد جتوئی نے بھی ” دیوانِ فرید بالتحقیق ” مرتب کیا اس پر تنازعوں کی دھول بہت اڑی لیکن کام بہت محنت سے کیا انہوں نے ۔

خواجہ وحدت الوجود کے علمبرداروں میں سے تھے۔ خواجہ غلام فریدؒ کہتے ہیں

’’عاشق کو وادیء عشق میں کئی مراحل طے کرنا ہوتے ہیں۔ منزل کا حصول آسان نہیں ہے۔ سب سے بڑی آزمائش راہ یار میں سر کو قربان کرنا ہے۔ جس نے سر قربان کیا وہی واقف اسرار ہے۔

ہجر نے میرے دل میں ایسی آگ بھڑکائی کہ میں بے چارا مفت میں جل گیا۔ مسرت و شادمانی، آسودگی کو نہیں اقرار کو کہتے ہیں۔

میرے محبوب سے کہنا محبت کے سوا نرا دھوکہ ہے۔ نیت کی مراد ہوتی ہے۔ دھوکے کو دوام نہیں۔ تم بھی عجیب ہو غیروں سے عہد وفا کرکے خوش ہوتے ہو۔ ایک ہم ہیں کہ تمہارے لئے سر ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں۔

محبت کی قدر و قیمت عاشق ہی بتاسکتا ہے۔ ہمارا بوجھ دوستی اب تم ہی اٹھائو دوسرا کوئی نہیں تمہارے سوا۔ کبھی آئو ہماری آنکھوں کے اندھیرے چھٹیں اور دل کی دنیا آباد ہو۔

بندے کو زیبا نہیں کہ دوسرے کو برا بھلا کہے۔ سنبھل کر کلام کرنے میں وقار پوشیدہ ہے۔

عاشقوں کو لوگ دیوانہ بھی کہتے ہیں اور کچھ تو برا بھلا بھی۔ گاہے محبوب کا رویہ بھی سخت ہوتا ہے۔ ثابت قدمی پار لگاتی ہے۔ دل کا چور کب اپنا جرم مانتا ہے۔

ایک ہم ہیں کہ تمہاری تلاش میں شام و صبح میں امتیاز نہیں کرتے۔ ایک تم ہو کہ دیدار کرانے کی بجائے امتحان لیتے ہو۔

ان پر افسوس ہے جو دوستی کا عہد کریں اور بھول جائیں۔ دوست بھلانے کے لئے نہیں ہوتے۔ بلاوجہ کے شکوے طعنے شرمساری کے سوا کچھ نہیں دیتے۔

عشق کی راہ میں ہوئی مسافت میں ہڈیاں گرمی سے تپ جاتی ہیں۔ محبوب کو کوئی بتائے کہ تجھے دیکھے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ بھلے مانسوں کے ساتھ تو ہر کوئی گزارا کرلیتا ہے، کمال تو تب ہے کہ ’’بدصورت‘‘ کے ساتھ نبھا کیا جائے۔

ہم ہی عاشق تھے ہم ہی خریدار۔ میرے محبوب آنے میں تاخیر نہ کرنا، مستعار زندگی پر بھروسہ نہیں ہے۔ برائی کے بدلے میں اچھائی مناسب ہے برائی کے بد لے میں برائی ہو تو پھر فرق کیا رہ جائے گا۔

طلب میں برباد ہونے والے بھی تمامی سے سرفراز ہوتے ہیں۔ جھوٹ، خوبیوں کو گرہن لگادیتا ہے۔ ان لمحوں کا کیا ہی کہنا جب اس نے میرے آنگن میں قدم رکھا۔ ہر چیز میں وہ ہی تھا وہی تو اصل ہے۔ اسی کا جلوہ طور تک لے جاتا ہے۔

حق پر قائم رہنے والوں کا اپنا ہی مقام ہے۔ حالات کچھ بھی ہوں عقل کا دامن نہ چھوڑنا۔ شکر کا نغمہ الاپتے رہو یہ بھی خودشناسی کی ایک صورت ہے۔

جب سے تم جدا ہوئے ہو دکھوں نے آن گھیرا ہے۔ سُکھ رخصت ہوئے ہم تو روز الست سے ہی ہجروفراق میں مبتلا ہیں۔ سینے میں چاہت کی برچھی لگی ہے دل میں غم جمع ہیں۔ عاشق کے لئے درد اور غم ہی مونس ہیں۔ افسوس کہ ہوا و ہوس کے پتلوں نے عشاق کی آبرو کو برباد کیا۔

نہ میں مرض ہوں، نہ مشرک ہوں، یہ ایک مشرب ہے رندانہ۔ میرا مسجود ہے پیرمغاں۔ کعہ ہے میخانہ، عاشق کا دھرم محبوب کے سوا کیا ہے۔ عاشق نہ کافر ہے نہ مسلماں۔

اس کی تلاش میں کہاں کہاں خاک نہیں چھانی۔ دیدارِ یار کی حسرت میں ستم ہے۔ ویرانوں اور آبادیوں میں اسے ڈھونڈتے پھرے

کبھی تو وہ یقین کرلے گا ہم فقط اس کے لئے جیتے ہیں۔ باقی تو سب کہانیاں ہیں۔ راہ سلوک کی خبر زاہدوں کو نہیں عاشقوں کو ہوتی ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ تم انتظار کے دکھوں کا مداوا کردو۔ کبھی خود سے بچھڑ کر کائنات کو دیکھو پھر تخلیق کی وجہ سمجھ لو گے۔ سب عشاق لطف یار کے طالب ہیں۔ ایک میں ہوں کہ لطف کا نام سن کر کانپ اٹھتا ہوں۔

محبوب کا درد وہ دوا ہے جسے صرف میں جانتا ہوں۔عاشق تو ہمیشہ ملامت کا نشانہ بنتے رہے۔ اناالحق کہنے والے ہی منصور بنتے ہیں۔

جس نے نفس کی مانی وہ یار کی سن نہیں پاتا۔ جو یار کی سنتا ہے وہ نفس کا اسیر نہیں ہوتا۔ ملا حقیقت کو سمجھ نہیں پاتے عاشق کی توجہ یار کے گھر کی جانب ہوتی ہے۔

جنم دن سے ہی دکھ ہمارے گلے کا ہار ہوگئے۔ دین و دھرم کی ہم سے پابندی نہیں ہوتی۔ ہم تو عشق کے غلام اور خادم ہیں۔ عشق نے فرید کو ایسے جلایا جیسے کوہ طور جلا تھا۔

گلے لگاکر مار بھگانا ٹھیک نہیں۔ جلوہء جاناں ہی ہر سُو ہے۔ محبت کی ایک نگاہ سارے دکھوں کا مداوا ہے۔ ملائوں کے بحث مباحثے سے صرف نظر کر۔ عارف کو ہر چیز خالق کے وجود کی طرف توجہ دلاتی ہے۔

دل میں تمہارے عشق کی گرمی ہے۔ تمہارا دیدار ہی موسم بدلے گا۔ ایثار سے بڑھ کر انسانیت اور کیا ہوگی۔ بانٹ کر کھانے میں جو لطف ہے وہ پیٹ بھرنے میں نہیں۔

اس سے محبت کا امتحان اس کی مخلوق سے محبت ہے۔ بندگی تجارت نہیں۔ دل کو امیدوں کا بازار بنانے سے گریز کرو۔ بھید کھولنے سے خاموشی اچھی ہے۔ دوسروں کی ٹوہ میں رہنے کی بجائے اپنی حقیقت کو تلاش کرو۔

وہ تو ازل سے ہے اور رہے گا۔ تم سوچو کہ حق ادا ہوا۔ محبوبِ ازل کے سوا سب فریب ہے۔ اپنے ہوں یا پرائے سب اسی کے مظاہر ہیں۔ فرید تو الطاف و کرم کی امید لئے ہوئے ہے۔ امیدیں ناامیدی میں بدل گئیں۔ ہر خوف سے نجات ملی۔ اب دلبر سے رازو نیاز نہ ہوں گے۔

اس کا جلوہ ہی ہر سو ہے۔ فنا کے بغیر بقا ممکن ہی نہیں۔ لوگ اپنی ذات سے غافل ہیں اور شکوہ کرتے رہتے ہیں۔

خواجہ غلام فریدؒ کہتے ہیں عشق کی مستی نے غم دنیا سے محفوظ کرلیا۔ حسن ازل کے جلوے سے دنیا منور ہے۔ آنکھوں والے ہی بینا ہوں ضروری نہیں۔

جمع کرنے سے تقسیم کرتے رہنا افضل ہے۔ اس کی یاد سے غافل ہوکر جینے میں نقصان ہی نقصان ہے۔

خواہش نفس پر قابو پانے میں ہی اصل راحت ہے۔ عشق کے بھید کو خود سے بھی چھپاکے رکھوں۔

بداخلاقی کا ایک لمحہ عمر بھر کی ریاضت برباد کردیتا ہے۔ جو تیرے پاس نہیں اس کی حسرت نہ پال ۔

نعمتوں میں دوسروں کو شریک کرنے سے نعمتیں کم نہیں ہوتیں۔ جو تجھ سے پھرا وہ کسی کا نہ ہوا ۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author