فہد مڑل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئی ریلیز ہونے والی مووی "دی لیجنڈ آف مولا جٹ” دیکھنے کا موقع ملا۔ مار دھاڑ، قتل و غارت پر مشتمل یہ فلم اگرچہ تفریح کے لیے ترستی اس قوم کے لیے ایک بہتر تفریح کا ذریعہ ہو سکتی ہے مگر سرائیکی قومی تحریک کے تناظر میں دیکھتے ہوئے مجھے اس مووی میں بولے گئے شفقت چیمہ کے دو مسلسل ڈائیلاگ ذہن پر نقش ہوگئے ہیں۔
سوچ رہا ہوں کہ کس طرح باریک بینی سے دو چھوٹے چھوٹے ڈائیلاگز میں سرائیکی پر تہذیبی، ثقافتی اور لسانی حملہ کر دیا گیا جسے عام سرائیکی تو ویسے ہی نہیں سمجھے گا۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ہیرو مولا جٹ کے والد سردار جٹ کا تعلق کوٹ مٹھن سے دکھایا گیا ہے جو ہر ظلم کے خلاف لڑنے والا کردار تھا جسے نتوں نے اس کے محل میں گھس کر بیوی سمیت قتل کردیا۔
مولا جٹ چھوٹا بچہ ہونے کی وجہ سے وہاں سے نکل جانے میں کامیاب ہوا اور کسی پیر صاحب کے ہاں پرورش پا کر بڑا ہوا جو بعد میں نتوں سے اپنے والدین کے قتل کا بدلہ لیتا ہے۔ لیکن شفقت چیمہ جو کہ نت قبیلے کا سردار ہوتا ہے اپنی پگ کا نیا وارث ڈھونڈتے ہوئی کہتا ہے کہ "میں تے کوٹ مٹھن دے جٹاں دے وی سر لاہ دتے سن تے پورے پنجاب نوں میری سرداری وچ نتاں نے اپنی جُتی دے تھلے رکھیا ہویا سی” تاثر یہ دینے کی کوشش کی گئی کہ شاید کوٹ مٹھن جٹوں کی جاگیر اور ازل سے پنجاب کا حصہ رہی ہے۔
کاکا ایہ سرائیکی دھرتی ہے۔ ہم تو رنجیت سنگھ کی یلغار کے نتیجے میں پنجاب کا مفتوحہ علاقہ ہیں جو اپنے revival کی جنگ بہت دیر سے لڑ رہا ہے۔
دھیان رہوے جو سرائیکی ہن جاگ پئے ہن۔ بقول امان اللہ ارشد ہݨ
چپ دی چادر چیر کراہیں سچ لب تئیں آوݨ سکھدے پن
ساݙا حق کھاوݨ ہݨ سوکھا نئیں ساݙے ٻال الاوݨ سکھدےپن
لکھ دیا ہے تاکہ سند رہے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ