حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب صورتحال سے دوچار ہوں، پچھلی شب ایک ناصح نے سمجھایا کہ ذاتی خیالات احساسات اور باتیں کالم میں نہ لکھا کرو۔ عرض کیا پڑھنے والوں سے چار دہائیوں پر پھیلا تعلق ہے انہیں زیرزبر پیش سب معلمو ہے۔ ویسے بھی فقیر کون سا کسی مخدوم ’’جہاں‘‘ کی اولاد ہے۔ سفید پوش والدین، محنت کش آپا کی تربیت کا حق یہی ہے کہ دل کی بات ہی زبان ہو۔
گزشتہ اور گزشتہ سے پیوستہ دن ہمیں اپنے عزیز جاں دوست ارشاد امین سمیت کچھ دوستوں نے ٹیلیفون پر یاد کیا۔ حسام درانی زحمت کرکے فقیر خانے پر تشویف لے آئے ان سے ڈھیروں باتیں ہوئیں۔ وہی سیاست دوراں اور بنی گالوی انقلابیوں کی جدوجہد کے تذکرے تھے۔
ارشاد امین، مبشر علی فاروق ایڈووکیٹ اور دوسرے دوستوں کا کہنا تھا، سفر حیات کی یادداشتوں کو لکھتے رہا کرو گزرے ماہ و سال کیسے تھے۔ موسم اور لوگ، مختلف الخیال احباب و شخصیات کی باتیں۔
ایک عہد ہے جو گزرگیا اس گزرے عہد اور رخصت ہوئے لوگوں کا ذکر اچھا لگتا ہے۔ ماضی کا تذکرہ خود مجھے بھی مرغوب ہے۔
گو یہ بہت شاندار اور اعلیٰ ہرگز نہیں لیکن باعثِ فخر و افتخار ہے۔
محنت مشقت سے عبارت ہے میرا ماضی اور اب حال بھی ۔ کبھی کبھی اپنی لائبریری میں کوئی کتاب پڑھتے ہوئے کوئی یاد، قصہ، شہر اور احباب و بزرگوں کی یادیں دستک دیتی ہیں تو کتاب میز پر رکھ کر ان یادوں میں کھوجاتا ہوں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن سکول سے واپسی پر کھانا کھاتے ہوئے میں نے اپنی آپا اماں (سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ) سے سوال کیا، آپا ریاکاری کیا ہے؟
انہوں نے شفقت کے ساتھ اپنے بیٹے کا ماتھا چوما اور بولیں، میرے بچے
’’ریاکاری یہ ہے کہ شکر کی بجائے سودے بازی کی جائے‘‘۔ ساعت بھر کے بعد گویا ہوئیں، "راجی میاں حق بندگی کی ادائیگی شکر ہے۔ صلے کی خواہش ریاکاری، شکر کرنے والوں کو نعمتوں سے نوازنا اس کا کام ہے وہ ظرف کے پیالے میں قطرہ بھر بھی زائد نعمت نہیں ڈالتا” ۔
مجھے یاد پڑتا ہے یہ سال 1971ء کی بات ہے، نصف صدی سے اوپر کی۔ ان گزرے ماہ و سال میں جو دیکھا سنا محسوس کیا اسے لفظ بہ لفظ رقم کررہا ہوں۔
اس احساس سے دوچند ہوں کہ ادنیٰ سا زمین زادہ ہوں۔ محنت مشقت اور اپنی فہم کا حق ادا کرتا سفر حیات کے اس موڑ پر پہنچا ہوا ایک عام آدمی جسکی سوانح عمری میں ” پدرم سلطان بود ” والی کوئی بات نہیں ہوگی۔
چار اور بستے لوگوں کے رویوں، سیاست و ریاست کے ماہ و سال، آنکھوں دیکھی باتیں۔ اپنی اپنی فہم پر استقامت سے ڈٹ جانے والے فرزانوں کا ذکر جو طلوع صبح جمہور کا خواب آنکھوں میں سجائے رخصت ہوگئے۔
اس سب کے باوجود وہ سب لکھنا ہے جو بیتا گزرا مسلط ہوا بھگتا۔
پچھلے چند دنوں سے صرف پڑھ رہا ہوں۔ مختلف موضوعات پر منگوائی تین چار کتابیں ہیں۔ یہ پڑھ لوں تو مطالعے میں آپ کا جو حصہ بنتا ہے وہ پیش کرتا ہوں۔
گزری سپہر سے مرشدِ کریم سیدی بلھے شاہؒ کے دیوان میں پناہ لئے ہوئے ہوں۔ چند دن یا دو ہفتے ہوتے ہیں جب برادر عزیز و محترم مخدوم سید عامر عباس نقوی سے خانقاہی نظاموں کے سلسلہ اور اس کے ہمارے سماج پر مرتب ہوئے اثرات پر بڑی تفصیلی نشست ہوئی۔
فقیر نے عرض کیا کہ
” طالب علم ان سے متفق نہیں جو کہتے ہیں کہ خانقاہیں متوازی نظام ہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ خانقاہوں کے ورثا نے اسے کاروبار کی شکل دے دی۔ آج کا خانقاہی نظام زمین زادوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا بلکہ یہ اشرافیہ کا سہولت کار ہے لیکن یہ صرف ہمارے آج کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر دور میں یہ نظام دو واضح حصوں میں بٹا ہوا اپنا اپنا کردار ادا کرتا دیکھائی دیتا ہے۔
ایک طبقہ ہر دور میں بخوشی اپنے عہد کی اسٹیبلشمنٹ کے پولیٹیکل ایجنٹ کا کردار ادا کرتا ہوا دیکھائی دیتا ہے اور ایک طبقہ ان لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے الگ سے دنیا آباد کئے ہوئے ہے۔
ہمارے یہاں غلط العام بات یہ ہے کہ ہر صاحب خانقاہ صوفی ہے۔ خانقاہوں میں آرام فرماتے بزرگوں کا احترام اپنی جگہ لیکن ہر صاحب خانقاہ صوفی نہیں ہے۔ صوفی تو طمع اور جمع سے دامن بچاکے جیتا ہے ” ۔
معاف کیجئے گا یہ بالائی سطور کی خشک باتیں۔ کیا کروں باقاعدہ منصوبہ بندی سے کبھی تحریر نہیں لکھی جو ذہن میں آئے لکھتا ہوں۔
گزشتہ سپہر سے مرشد بلھے شاہؒ کے دیوان کی پناہ میں ہوں۔ مرید فرماتے ہیں
’’دیدار کے بغیر بھنور سے نجات کیسے ملے، ہم تو سخت حیرانی میں ہیں۔ محبت دکھ دیتی ہے، عاشق جی سکتا ہے نہ مر سکتا ہے” "میں نے ایک دن اس سے کہا، ہم تمہارے اسیر ہوئے، یہ جانتے ہوئے بھی، یہ اسیری کوئی انوکھی بات ہرگز نہیں، میرے محبوب۔ ایک سخت مصیبت آن پڑی ہے۔ کوئی چارا کرو کہ یہ دوئی ختم ہو‘‘۔
” کیسا زمانہ آگیا ہے اعلیٰ نسل کے گھوڑے گندگی کے ڈھیر پر ہیں۔ دلوں سے الفت نکل چکی۔ اتفاق کو حسد کی دیمک نے چاٹ لیا ہے ۔ سچ بولنے والے مصلوب اور جھوٹے سرفرار ہوتے ہیں‘‘۔ ’’میرے محبوب، تیرے دیدار کے لئے بہت بھٹکا ہوں پھر ایک دن میں نے خود سے ملاقات کی۔ اب روز تجھ سے ملتا ہوں‘‘۔
"سچ یہی ہے کہ پانے کے لئے تلاش ضروری ہے۔ خود سے ملنا بھی آسان نہیں۔ بے خبری باخبری سے بھلی ہے اور سوئے رہنے سے جاگتے رہنا اچھا‘‘۔
” میں آوازوں اور سرابوں کے پیچھے نہیں بھاگتا، معرفت کا باجہ زندگی کے میلے میں بجتا ہے۔ زندگی کا میلہ سانسوں سے سجتا ہے۔ کوئی دم جائے یا آئے زندگی کے میلے کی شام نہیں ہوتی ” ۔ ’’فقیر کی منزل بہت مشکل اور عاشق کی طلب اس سے بھی کٹھن راہوں کی ہے۔ خریداری سے فروخت ہونا اچھا ہے۔ اگر وہ خرید لے ” ۔
” تم خود ہی تو میرے دل میں آن بسے تھے، اب جدا کیوں کرتے ہوں، کنواں ہو کہ کوہ طور۔ تیرے حسن کا جلوہ ہر جگہ تھا اور ہے‘‘۔
’’میں نے خود کو مرشد کے رنگ میں رنگ لیا ہے۔ نفس کو قربان کیا، خواہشوں کو دفن۔ فنا میں بقا ہے۔ مسجدوں میں ڈیرے ڈالے نہ کفر کے راستوں پر چلا۔ کتابوں میں پوشیدہ راز ہوں نہ خوابوں کا شوقین۔ جب سے اس کا دیدار ہوا، اسی کا ہوگیا ہوں‘‘۔
’’اناالحق کا بھید سولی پر کھلتا ہے۔ بھید والا سولی کے پاس کھڑا مسکراتا ہے‘‘۔
مرشد بلھے شاہؒ کہتے ہیں
’’عشق زہر نہیں، طلب کی مستی ہے۔ عشق کا جام آدمی اپنی مرضی سے پیتا ہے۔ میرا قبلہ اکبر وہی ہے، گو سورج چھپ گیا ہے لیکن افق پر لالی موجود ہے۔ اس لالی میں سورج کا بھید ہے۔ جس نے پالیا بے نیاز ہوگیا‘‘۔
’’بلھے شاہؒ کو فقیر پسند ہے اسے معلوم ہے کہ تیرا نور ہی جلوہ فرما ہے۔ زمانہ کروٹیں لیتا ہے۔ سچے زہر پیتے ہیں اور جھوٹوں کو ملکیت ملتی ہے۔ جس نے جھوٹ اور سچ کا فرق جان لیا وہی طمع سے بچ رہا‘‘۔
’’جو دوست کے دکھ سن کر محسوس نہ کرے اسے دوستی کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔ دوست وہی ہے جو محسوس کرلے ” ۔
” آنکھیں مسلسل آنسو بہاتی ہیں۔ شاہ بھی سودا کرنے سے باز نہیں آتا۔ عشق کے سودے میں حساب نہیں ہوتا۔ عاشق نہیں ٹھگ بیوپاری بھائو تائو کرتے ہیں۔ عاشق تو یار کی آنکھوں سے بھید پاتے ہیں "۔
” سولی وہ چڑھے جو حق عاشقی ادا کرنے کو زندگی سمجھے۔ یہ راہ بہت کٹھن ہے۔ محبت والے دریا تک کے سفر میں پیاس اور آبلہ پائی ہے۔ کسی کا دکھ درد محسوس نہ کرسکنے والے سے دوستی کیسی؟ ”
” میرے عیبوں کو شمار کرنے کی بجائے، روزِ ازل کا وعدہ یاد کر۔ عاشق کا قبلہ کعبہ تو اس کا محبوب ہے۔ تیرے وصال سے ہی دکھ درد دور ہوں گے ” ۔
” محبت بے ہنری کو نہیں طلب کو دیکھتی ہے۔ دنیا سھکوں کا گھر نہیں عارضی پڑائو ہے۔ ہم نے دنیا سے نہیں اس سے دل لگایا۔ اسی سے جس نے روز ازل وعدہ کیا تھا۔ وعدہ یاد کرانے میں ڈر تو لگتا ہے لیکن، اسے پانے کی راہ پر چلتے ہوئے ثابت قدمی ڈر کو جھٹک دیتی ہے ” ۔
"میں نے جمع کرنے کا شوق نہیں پالا کیونکہ تیری ناراضگی سے ڈرتا رہا "۔
"جو خواہشوں کا غلام ہوا اسے نفس کے سرکش گھوڑے نے بیچ بازار کے پٹخ دیا "۔
"مجھے حاکم کے حکم اور ملا کے فتوے سے کیا لینا۔ میں اس کے عشق میں کب کا ناچ رہا ہوں۔ ڈھول کی تھاپ سے زیادہ پانے کی لگن نچواتی ہے۔ عاشق کے لئے محبوب کے روبرو ناچنا نعمت سے کم نہیں‘‘۔
’’لوگ سمجھتے کیوں نہیں، قاضی رشوت پر اور ملا کسی کی موت پر راضی ہوتا ہے۔ قاضی اور ملا پیٹ کی آنکھ سے دیکھتے ہیں "۔
"عاشق تو صرف اس کی مالا جپتا ہے "۔ "میں موت سے نہیں ڈرتا کیونکہ مجھے حساب کی کوئی فکر نہیں۔ یار کے دیئے ہوئے میں خیانت کی نہ حساب رکھا‘‘۔
’’میں نے عشق کی آگ میں جل کر اپنا دل کباب کیا اور آنسوئوں کو شراب سمجھ کر پی لیا۔ ہڈیوں کا رباب بنالیا۔ اب تو مجھے اپنالے۔ میرے ساز اور آواز کو سن، تیرا نغمہ ہی گارہا ہوں اور ناچ رہا ہوں‘‘۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور