مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پت جھڑ کا ایک اور موسم….….|| وجاہت مسعود

عمران خان صاحب کے فرمودات کا دفاع ممکن نہیں مگر اس کا جواب تو پارلیمنٹ اور حکومت سے آنا چاہیے تھا۔ کیا ہم نے اس زمینی حقیقت کو جائز تسلیم کر لیا ہے کہ قوم اور ادارہ دو غیرمتصل اکائیاں ہیں۔ اگر ریاستی محکمے کو دستور میں بخشی گئی فصیلوں کی آڑ میسر ہے تو قوم کو بھی دستوری شہر پناہ کی سہولت ملنی چاہیے۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مقبولیت اور احترام دو الگ الگ لفظ ہی نہیں، دو مختلف تصورات ہیں۔ قبول عام تو لمحہ موجود میں گلی کوچے کا ہنگامہ ہے، خام، ناآزمودہ اور سیماب صفت۔ احترام وہ نقد خالص ہے جو آزمائش کی بھٹی سے کندن کی صورت برآمد ہوتا ہے، تکمیل اور افادیت کے اوصاف سے مملو۔ افسوس ہے اس قوم پر جس کے تعلیم یافتہ افراد بھی بار بار آمریت کا فریب کھاتے ہیں اور وقتی مفاد کے تعاقب میں جمہوریت کو گالی دیتے ہیں۔ زیادہ دور نہیں جاتے۔ صرف 1988 سے اب تک کی تاریخ دیکھ لیجئے۔ گیارہ سالہ آمریت کے حادثاتی خاتمے کے بعد ہمیں جمہوری عمل کی طرف واپسی کی نوید سنائی گئی۔ کیا ہم نے پوچھا کہ غلام اسحاق خان کو جی ایچ کیو میں طلب کر کے آئندہ حکومتی بندوبست کے خدوخال طے کئے گئے تو عوام اور سیاسی قوتیں کہاں تھیں؟ اگر عدالت عظمیٰ مئی 1988 کے صدارتی اقدام کو غلط سمجھتی تھی تو جونیجو حکومت بحال کیوں نہیں کی گئی۔ عدالتی فیصلے پر اثر انداز ہونے والوں کے اعتراف کے باوجود قانون حرکت میں کیوں نہیں آیا۔ آئی جے آئی تشکیل دے کر نام نہاد سیاسی توازن قائم کرنے کا فیصلہ کس دستوری اختیار کے تحت کیا گیا؟ سیاست دانوں کی ’نااہلی، بدعنوانی اور بددیانتی‘ کا سہ نکاتی نسخہ گورنر جنرل غلام محمد نے اپریل 1953 میں تیار کیا تھا۔ آٹھویں آئینی ترمیم میں 58(2) ب کا اضافہ کر کے اس نسخے پر نام نہاد دستوری مہر ثبت کر دی گئی۔ ن۔ م راشد کے لفظوں میں ’ابولہب کی دلہن جب آئی تو سر پہ ایندھن، گلے میں سانپوں کے ہار لائی‘۔

نومبر 1988 میں بینظیر شہید کی پہلی حکومت کے پاﺅں ہی ٹکنے نہیں دیے گئے۔ کہیں آدھی رات کے گیدڑ تھے تو کہیں دور فاصلاتی اشاروں پر ہونے والے لسانی فسادات۔ کہیں سکیورٹی رسک کے نعرے تھے تو کہیں وفاق اور صوبوں میں تصادم۔ نومبر 1990 میں نواز شریف کو ایسی ہی مالی اور سیاسی دست کاری سے اقتدار دلایا گیا تھا جیسے اب تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ اور سیاسی سازشوں کا احوال کھل رہا ہے۔ غلام اسحاق اور نواز شریف میں اختلافات بھی آرمی چیف کی تقرری ہی پر شروع ہوئے تھے جو ’کاکڑ فارمولا‘ نامی ماورائے دستور حربے سے اکتوبر 1993 میں بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت پر منتج ہوئے۔ یہ حکومت بھی نومبر 1996 میں منہدم ہو گئی۔ نواز شریف کی دو تہائی اکثریت اکتوبر 1999 میں پرویز مشرف کے ہاتھوں انجام کو پہنچی۔ 2007 کے موسم خزاں میں پھر سے ہمیں سیاست سے لاتعلقی کی بشارت دی گئی۔ اس اعلان کی حقیقت اکتوبر 2011 میں میمو گیٹ کی صورت میں کھلی۔ جیسے اسلم بیگ اور حمید گل نے نواز شریف میں ایک حکیم حاذق ڈھونڈا تھا، دو عشروں بعد عمران خان کی صورت میں ایک مسیحا دریافت کیا گیا۔ 2014 کے موسم خزاں میں کس کی حکومت تھی، کوئی نہیں بتا سکتا۔ محبوب خزاں نے لکھا تھا۔ ’سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں/ کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں‘۔

پانامہ قضیے کا عدالتی فیصلہ تو جولائی 2017 میں آیا مگر یہ کہانی اکتوبر 2016 کے ڈان لیکس ہی میں ختم ہو چکی تھی۔ آرمی چیف کی توسیع کا جھگڑا تھا۔ اکتوبر 2021 میں ایسی ہی کشمکش میں نام نہاد ’ون پیج‘ کے پرزے اڑ گئے۔ گزشتہ ایک برس سے قوم رسی سے معلق ہے۔ اس دوران معیشت کا پہیہ رک گیا۔ سیلاب نے کروڑوں شہریوں کو بے گھر کر دیا۔ غذائی بحران کے خدشات نے سر اٹھایا۔ زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے سات ارب ڈالر تک اتر آئے۔ وزیراعظم صاحب چین سے 9 ارب اور سعودی عرب سے 4 ارب ڈالر کے معاشی تار عنکبوت کی خبر لائے ہیں۔ دوسری طرف ایک ذمہ دار ریاستی اہلکار نے قوم کو اپنے ادارے کا فیصلہ سنایا ہے کہ سیاسی عمل میں مداخلت سے گریز کیا جائے گا۔ اندھیری گلی میں روشنی کے یہ دو نشان مگر سیاست اور معیشت میں موسم خزاں کے مزمن مرض سے نجات کی ریاضیاتی تصدیق نہیں کرتے۔ سیاسی عمل میں مداخلت پیوستہ معاشی مفادات کے ایک پھیلے ہوئے نظام سے جڑی ہے اور سیاسی عمل کا افلاس بنیادی معاشی فیصلوں کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اہل صحافت کو ہر روز گرجتی برستی خبروں کا پشتارہ میسر آتا ہے مگر قوم کا کیسہ امید سے خالی ہے۔

عمران خان صاحب کے فرمودات کا دفاع ممکن نہیں مگر اس کا جواب تو پارلیمنٹ اور حکومت سے آنا چاہیے تھا۔ کیا ہم نے اس زمینی حقیقت کو جائز تسلیم کر لیا ہے کہ قوم اور ادارہ دو غیرمتصل اکائیاں ہیں۔ اگر ریاستی محکمے کو دستور میں بخشی گئی فصیلوں کی آڑ میسر ہے تو قوم کو بھی دستوری شہر پناہ کی سہولت ملنی چاہیے۔ ہمارے سیاسی اور معاشی بحران باہم پیوست ہیں۔ سیاست کو ایسا دستوری تسلسل چاہیے جو کسی فرد یا جماعت کے اقتدار سے مشروط نہ ہو۔ اس کا اصل ہدف معاشی ترجیحات پر ایسی نظرثانی ہے جو ہمیں آئندہ بیس یا پچیس برس میں معاشی خودکفالت تک پہنچا سکے۔ ہم نے زمین لیز پہ رکھ دی، کسان بیچ دیا، رنگ و بو نیلام کر دیے، مگر معیشت بدستور زمین بوس ہے۔ ہر تین برس بعد لوٹنے والے پت جھڑ کی گلیوں میں بھٹکتی قوم کے پاس صرف ایک اثاثہ باقی ہے۔ کوئی پندرہ کروڑ کے قریب نوجوان آبادی جس کی معیاری تعلیم کو یک نکاتی قومی ترجیح قرار دیا جائے تو یہ انسانی سرمایہ محتاج قوم کو پیداواری معیشت کی شاہراہ تک لے جا سکتا ہے۔ کم مدتی قرضوں، بانڈز اور سکوک جیسے ہنگامی اقدامات سے برآمد و درآمد کا توازن قائم نہیں ہو سکتا۔ ایسی بیرونی سرمایہ کاری لاحاصل ہے جس کے حاصلات کو برآمدات میں تبدیل نہ کیا جا سکے۔ تارکین وطن سے ترسیلات زر ایک غیر پیداواری تصور ہے جس کے حجم میں کمی ناگزیر ہے۔ کوئی سرمایہ کار ایسی قوم پر اعتماد نہیں کرے گا جو ہر تین برس بعد نومبر کی تعیناتی کے منجدھار میں غوطے کھاتی نظر آتی ہے۔ ہمیں ایک اور پت جھڑ کا سامنا ہے۔ کچھ ایسا سوچنا چاہیے کہ اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں شاخوں سے زرد پتے گریں تو فروری اور مارچ کی کونپلوں کا امکان زندہ رکھا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: