نومبر 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کئی کام اپنے سر لے لیے ہیں ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی کام اپنے سر لے لیے ہیں۔ آٹھ گھنٹے کی ملازمت سے اتنے پیسے نہیں ملتے کہ گھر چل سکے اس لیے روزانہ چند گھنٹے اوبر چلاتا ہوں۔ یونیورسٹی کی تعلیم جاری ہے۔ گھر کی عمومی ذمے داریاں بھی ہیں۔
اس کے باوجود کچھ وقت نکال کر فیس بک پر کتابیں شئیر کرنے کا ایک گروپ بنا رکھا ہے۔ اس کا مقصد نیک ہے۔ کوئی صلہ نہیں چاہیے۔ ہزاروں گروپ ارکان میں سے چند ایک بھی خوش ہوجائیں، نئی پرانی کتابوں سے واقف ہوجائیں، کوئی کتاب پڑھ لیں تو محنت وصول ہوئی۔
مسئلہ یہ آجاتا ہے کہ لوگ لاعلمی میں یا عادتاً تنگ کرنے پر اتر آتے ہیں۔
ہر ہفتے مجھے پچاس پچپن افراد کو بین کرنا پڑتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس گروپ میں کچھ نہ کچھ شئیر کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کتابیں ہوں تو شاید میں قبول کرکے کسی موقع پر پیش کردوں۔ لیکن کوئی اپنا ولاگ پوسٹ کرتا ہے، کوئی کسی مذہبی رہنما کی تقریر پیش کرتا ہے، کوئی لونڈا اپنے ویڈیو گیم کی اسٹریمنگ لے آتا ہے، حد یہ کہ یوتھیے بھی تبلیغ کرنے پہنچ جاتے ہیں۔
گروپ کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی لوگ کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ سو لفظوں کی کہانی کے صفحے پر عرصے سے کوئی اپ ڈیٹ نہیں۔ اس پیج کو ایک فون نمبر سے منسلک کردیا کہ ہیک ہوجائے تو فیس بک کے ذریعے کنٹرول حاصل کرسکوں۔ میری نادانی سے وہ نمبر پیج پر آگیا۔ اس کے بعد ایک ہزار نمبروں سے پیغامات آگئے اور نمبر ڈیلیٹ کیے جانے سے پہلے درجنوں افراد نے واٹس ایپ پر کال ملائی۔
ایک کال میں نے غلطی سے اٹھالی تو صاحب نے سانس لیے بغیر ڈیڑھ گھنٹے بات کی۔ میں نے کئی بار کہا کہ آپ کے وقت کا حرج ہورہا ہے۔ وہ نظرانداز کرتے رہے۔ میرے اصرار پر جواب دیا، ایک حادثے میں میری ٹانگ ٹوٹ گئی ہے اور بستر پر پڑا بور ہورہا ہوں۔ آخر میں نے کہا، تھوڑی دیر کوئی اور مشغلہ اختیار کرلیں۔ میں اپنی ٹانگ توڑ کے دوبارہ کال ملاتا ہوں۔
مجھ سے مروت میں کال درمیان میں نہیں کاٹی جاتی اور فون کرنے والوں کو بات ختم کرنا نہیں آتی۔ بہت سے دوست پوچھتے ہیں بلکہ شکایت کرتے ہیں کہ میں فون کیوں نہیں اٹھاتا۔ یہ ہے اصل وجہ۔
ابھی دو ہفتے پہلے میں نے فیس بک پر کسی کا شعر پوسٹ کیا اور لکھا کہ اس کے کئی معنی نکلتے ہیں۔ ایک صاحب نے رابطہ کیا جن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن فیس بک پر کافی عرصے سے دوست تھے۔ انھوں نے ان بکس کہا کہ اپنا فون نمبر دیجیے، بہت ضروری کام ہے۔ میں تھوڑا ہچکچایا تو انھوں نے اپنے شناختی کارڈ کا عکس بھیجا کہ میں شریف آدمی ہوں۔ کیا مطلب؟ کیا میں نادرا والوں سے کیریکٹر سرٹیفکیٹ لے کر فون نمبر شئیر کرتا ہوں؟
خیر، میں نے فون نمبر دے دیا۔ اس پر انھوں نے مدعا بیان کیا کہ وہ شعر کہتے ہیں اور مجھے اپنا استاد بناکر کلام پر اصلاح چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں استاد تو کیا، شاعر بلکہ ٹھیک سے متشاعر بھی نہیں ہوں۔ اپنے شہر کے کسی اچھے شاعر سے رابطہ کیجیے۔ انھوں نے کہا کہ نہیں، آپ ہی سے اصلاح کروانی ہے۔ میں نے پھر کہا کہ میں شاعر نہیں ہوں۔ کبھی تک بندی کی بھی تو بھائی رحمان فارس یا بھائی فاضل جمیلی سے قافیے درست کروانا پڑے۔ انھوں نے کہا کہ نہیں، آپ ہی سے اصلاح کروانی ہے۔ میں نے التجا کی کہ میں کسی قابل ہوتا تو بھی وقت کی تنگی کا شکار ہوں۔ انھوں نے کہا کہ مجھے آپ کی مشکلات کا علم ہے۔ آپ کی ملازمت، اوبر، یونیورسٹی، سب مصروفیات سے آگاہ ہوں۔ لیکن اصلاح آپ ہی سے کروانی ہے۔
میں چپکا ہوگیا۔ سوچا کہ جواب نہیں دوں گا تو بھائی سمجھ جائیں گے۔ لیکن انھوں نے ان بکس شعر بھیجنا شروع کردیے۔ پھر غزلیں بھیجنا شروع کردیں۔ پھر اپنے آن لائن دیوان کا لنک ہی بھیج دیا کہ سارے کلام کی اصلاح کردیں۔
میں نے فیس بک پر ان فرینڈ کیا تو گروپ میں شروع ہوگئے۔ گروپ سے بین کیا تو پیج پر غزلیں برسانے لگے۔ فیس بک سے بلاک کردیا تو واٹس ایپ پر گولہ باری شروع کردی۔
ٹوئیٹر ڈھائی لاکھ فالوورز پر چھوڑ دیا تھا۔ انسٹاگرام کے امکانات دیکھنے کے باوجود کنارہ کشی اختیار کی۔ اب واٹس ایپ کا نمبر بدلنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں۔ فیس بک پروفائل پر اس ناچیز کے 75 ہزار فالوورز ہیں۔ اتنی آڈیئنس بڑے مشاہیر کو بھی کم میسر آتی ہے۔ لیکن یہ ٹیگیے، ان بوکسیے اور شعریے یہاں سے بھی مجھے بھگا کے دم لیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author