حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹر محترمہ صدف نعیم پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران گزشتہ شب جی ٹی روڈ پر سادھوکی اور کامونکی کے درمیان پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے کنٹینر کے نیچے آکر راہی ملک عدم ہوگئیں۔
محترمہ صدف نعیم پندرہ سولہ برسوں سے شعبہ صحافت سے منسلک تھیں ۔ باہمت اور فرض شناس رپورٹر کے طور پر لاہور کے صحافتی حلقے ان کے معترف تھے۔ گزشتہ شب پیش آنے والے اس المناک سانحہ کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنا لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مارچ اب سوموار کی صبح کامونکی سے دوبارہ شروع ہوگا۔
صدف نعیم کی شہادت کیسے ہوئی کیا وہ عمران خان کے کنٹینر پر چڑھنے کی کوشش کے دوران خان کے گارڈز کی جانب سے دھکا دیئے جانے پر سڑک پر گریں اور اسی کنٹینر کے ٹائروں تلے دب گئیں؟
کیا وہ کنٹینر کے ساتھ لگ بھگ اڑھائی کلومیٹر کے فاصلے سے بھاگتی ہوئی آرہی تھیں اور وقوعہ والی جگہ پر توازن برقرار نہ رکھ پائیں ؟
کیا وہ کسی دوسرے کنٹینر سے گریں اور جاں بحق ہوئیں؟ (جیسا کہ ابتداً پی ٹی آئی کے بعض سوشل میڈیا مجاہدن نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا اور معاملے پر تنقید کرنے والوں کو بے دریغ سنائیں؟)
یہ تینوں سوال بہت اہم ہیں۔
سوال یہ بھی اہم ہے (موقع پر موجود بعض صحافیوں کے مطابق) عمران خان کے کنٹینر کے نیچے آکر جاں بحق ہونے والی رپورٹر صدف نعیم کے ساتھی صحافی جب وقوعہ کی ویڈو بنارہے تھے تو عمران خان کے گارڈز نے انہیں تشدد کا نشانہ کیوں بنایا؟
آگے بڑھنے سے قبل دو باتیں عرض کئے دیتا ہوں اولاً یہ کہ شہید صدف نعیم کے شوہر محمد نعیم نے متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ او کے نام اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ان کی اہلیہ کی وفات ایک اتفاقی حادثہ ہے وہ اس کی تحقیقات اور کارروائی کے ساتھ مرحومہ کا پوسٹ مارٹم نہیں کرانا چاہتے۔
اصولی طور پر اس درخواست کے بعد اس معاملے پر مزید ایک لفظ لکھنے کی ضرورت نہیں بچتی لیکن یہ تحریر لکھنے کی وجہ وہ ویڈیو ہے جس میں شہید صدف نعیم کے شوہر محمد نعیم کو ایک سفید کاغذ پر دستخط کرنے اور انگوٹھے لگانے کے لئے کہا جارہا ہے۔
ہسپتال میں ایم ایس کے کمرے میں اس وقت صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال اور پی ٹی آئی کے چند دیگر راہنماوں کے علاوہ پولیس اہلکاران بھی موجود ہیں۔ محمد نعیم سے سادہ کاغذ پر دستخط کروانے کے بعد درخواست کس نے لکھی مضمون کس کا تھا۔ اگر اس تحریر کے بارے میں ماہرین سے رائے لے لی جائے اور تحقیقات کے وقت دستخط کروانے والی ویڈیو (جس کا بالائی سطور میں ذکر کیا بھی تفتیش کا حصہ ہو تو بہت سارے سوالوں کا جواب مل جائے گا)۔
مثلاً صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال کو اتنی کیا جلدی تھی کہ انہوں نے شہید صدف نعیم کے شوہر سے ایم ایس کے کمرے میں اپنی نگرانی میں سادہ کاغذ پر دستخط کروائے۔
کرائم رپورٹنگ ہی نہیں دیگر شعبوں میں رپورٹنگ کرنے والے ساتھی اور چند دیگر احباب بھی اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ مذکورہ ویڈیو اس امر کا ثبوت ہے کہ صدف نعیم کے شوہر دستخط نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن ان سے دبائو ڈال کر دستخط کروائے گئے ویڈیو میں پنجاب کے سینئر وزیر اسلم اقبال کی پھرتیاں ریکارڈ ہیں ۔
آیئے اب ابتدا میں کئے گئے تین سوالات پر بات کرتے ہیں۔ یہ بات درست نہیں کہ شہید صدف نعیم کسی دوسرے کنٹینر سے گریں اور اس کے نیچے دب کر جاں بحق ہوئیں ۔
لگ بھگ اڑھائی کلومیٹر کا فاصلہ انہوں نے عمران خان والے کنٹینر کے ساتھ دوڑتے اور پی ٹی آئی کی خواتین رہنمائوں سے درخواستیں کرتے طے کیا کہ انہیں کنٹینر پر آنے کی اجازت دلوادیں وہ اپنے چینل کے لئے عمران خان کاانٹرویو کرنا چاہتی ہیں۔ کہا جاتا ہے ان سے جواباً کہا گیا کوئی بات نہیں 2کلومیٹر اور دوڑلو۔
وہ چونکے کافی فاصلے سے عمران خان والے کنٹینر کے ساتھ دوڑتی آرہی تھیں ایک موقع پر سنبھل نہ پائیں اور کنٹینر کے نیچے دب گئیں۔ یہ بات درست ہے تو عمران خان کے گارڈز نے وقوعہ کی ویڈیو بنانے والے صحافیوں پر تشدج کیوں کیا کیوں ویڈیو بنانے سے زبردستی منع کیا کیمرہ مینوں کو دھکیلا اور 2موبائل چھین لئے؟
عینی شاہدین اور ان کے ساتھی رپورٹر گواہی دے چکے کہ شہید صدف نعیم بھاگتے ہوئے عمران والے کنٹینر پر چڑھنے کے لئے لٹک گئیں اس پر انہیں گارڈز نے دھکا دیا وہ گریں اور کنٹینر کے ٹائر ان پر سے گزرگئے۔ موقع پر ہی ان کی روح پرواز گئی ۔
یہ بات بھی سفید جھوٹ ہے کہ حادثے کے بعد کنٹینر رکا عمران خان نیچے اترے انہوں نے شہید صدف نعیم پر اپنی چادر ڈال دی۔ کنٹینر ضرور رکا حادثے کے بعد عمران خان نیچے بھی اترے وقوعہ دیکھا واپس اوپر گئے اور اس سانحہ پر دکھ کا اظہار کرنے کے بعد انہوں نے لانگ مارچ اگلی صبح تک کے لئے ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔
وقوعہ ایسے ہی ہوا جیسا کہ صدف نعیم کے ساتھی رپورٹرز بیان کرتے ہیں یعنی وہ عمران خان کے کنٹینر پر چڑھنے کی کوشش کے دوران گارڈ کے دھکا دینے پر گر کر کنٹینر کے نیچے دب کر جاں بحق ہوئیں۔
ایسا نہ ہوا ہوتا تو پنجاب کے ایک وزیر میاں اسلم اقبال کی موجودگی میں شہید صدف نعیم کے شوہر محمد نعیم سے ایم ایس کے کمرے میں پولیس کے ذریعے زبردستی سادہ کاغذ پر دستخط و انگوٹھا لگوانے کی ضرورت ہی نہیں تھی (ایم ایس کے کمرے میں سادہ کاغذ پر دستخط و انگوٹھا لگوانے کی ویڈیو موجود ہے) لانگ مارچ کے دوران اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے کوشاں ایک رپورٹر حادثے کا شکار ہوئیں اس کے معصوم بچے ماں کی ممتا سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگئے۔
اتوار کی صبح جب وہ ڈیوٹی پر جانے کے لئے گھر سے رخصت ہورہی تھیں تو ان کے بچوں نے ضد کی کہ وہ آج دفتر نہ جائیں چھٹی (بچوں کی چھٹی) کا دن گھر پر گزاریں لیکن محنت کش رپورٹر نے بچوں کی فرمائش پر فرض کی ادائیگی کو ترجیح دی۔ صدف نعیم جس نجی چینل سے منسلک تھیں اس میڈیا ہائوس کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور کئی کئی ماہ تک تاخیر کی شہرت بہت قدیم ہے۔
انہیں بھی تین یا پانچ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی۔ دوست بتارہے ہیں کہ میڈیا ہائوس نے نومبر کے پہلے ہفتے میں واجبات کا پچاس فیصد ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ چند ایک بڑے میڈیا ہائوس میں ہی دیر سویر کے باوجود معمول کے مطابق کم یا زیادہ تنخواہ ملتی ضرور ہے۔ لیکن دوسرے درجہ کے میڈیا ہائوسز تین تین چار چار ماہ تنخواہ نہیں دیتے۔ کارکنوں کی کہیں شنوائی بھی نہیں ہوتی۔
صدف نعیم کی ڈیوٹی لانگ مارچ کی کوریج کے لئے لگائی گئی مگر ان کے میڈیا ہائوس نے انہیں رپورٹنگ کے لئے کوئی سہولت نہیں دی یہ بی کلاس اور سی کلاس چینل ایسی کوئی سہولت دیتے بھی نہیں۔
ایک عمومی شکایت یہ ہے کہ میڈیا ہائوسز فیلڈ میں کام کرنے والے اپنے کارکنوں کو حفاظتی کٹ اور دوسری سہولیات نہیں دیتے۔ مثلاً جلسوں جلوسوں اور لانگ مارچوں کی کوریج کے لئے جانے والے رپورٹروں اور کیمرہ مینوں کی حفاظتی کٹ میں بلٹ پروف جیکٹ۔ پتھرائو یا کسی دوسرے آفت سے بچنے کے لئے خصوصی ہیلمٹ۔
کسی انہونی کی صورت میں انہیں وہاں سے نکالنے کا خصوصی انتظام ہونا چاہیے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
شہید صدف نعیم دفتر کی جانب سے لانگ مارچ کی کوریج کے لئے ڈیوٹی پر تھیں لیکن سہولت کوئی نہیں۔ اتوار کو بھی وہ ایک دوسرے نجی چینل کے ساتھیوں کو ریکوئسٹ کرکے ان کی گاڑی میں لاہور سے لانگ مارچ کے آغاز والی جگہ سادھوکی تک پہنچیں۔ ان کی شہادت قانونی طور پر سیدھا سادہ قتل ہے۔
اس قتل کے دو بڑے کردار ہیں اولاً سہولتوں کے بغیر فرائض کی ادائیگی کے لئے بھجوانے والے میڈیا ہائوس کی انتظامیہ، ثانیاً انہیں عمران کے کنٹینر سے دھکا دینے والا گارڈ۔ پی ٹی آئی کی وہ خواتین رہنما بھی انتہائی بے حس ثابت ہوئیں جو کنٹینر سے دیکھ رہی تھیں کہ ایک خاتون رپورٹر 2کلومیٹر سے کنٹینر کے ساتھ بھاگتی آرہی ہے۔ بے حسی میڈیا ہائوس کے مالکان اور انتظامیہ کی بھی ہے جو کارکنوں کو ضروری سہولتوں کے بغیر فرائض کی ادائیگی کے لئے بھیجتے ہیں۔
درجہ دوئم (بعض درجہ اول کے بھی) کے میڈیا ہائوسز تو اس ملک کے بیگار کیمپ میں تین تین چار چار ماہ تنخواہیں نہیں دیتے۔ کیا مالکان اور انتظامیہ کے ذمہ دارن نے کبھی سوچا ہے کہ بروقت تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے کارکنوں کے خاندان کس اذیت اور کن مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔
بہت کم صحافی مردوخواتین ایسے ہیں جن کے شوہر یا اہلیہ بھی کوئی دوسری ملازمت کرتے ہوں کیونکہ اس سے بھرم قام رہ جاتا ہے۔
قلم مزدوروں کی بدقسمتی یہ ہے کہ مالکان اور ایجنسیوں نے ان کی حقیقی نمائندہ تنظیموں کے ٹکڑے ٹکڑے کروادیئے۔
لیڈران کی اکثریت کروڑ پتی اور صحافت کے علاوہ نجی بزنس بھی کرتی ہے ان میں سے بعض لیڈر جب عملی صحافت میں آئے تو سائیکل سوار بھی نہیں تھے آج قیمتی بنگلوں اور گاڑیوں کے مالک ہیں ۔
صدف نعیم کی شہادت کوئی عام واقعہ ہرگز نہیں، یہ تحقیقات کا متقاضی ہے کیونکہ جس طرح پنجاب حکومت نے پھرتیاں دیکھائیں اس سے شبہات پیدا ہوئے۔ خصوصاً ہسپتال والی ویڈیو کی وجہ سے۔ مجھے امید نہیں کہ انصاف ہوسکے کیونکہ انصاف کے لئے اشرافیہ کا حصہ ہونا ضروری ہے اور رعایا کی اس ملک میں کوئی اوقات نہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر