مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام لوگ بہادر صحافی بہادر صحافی کرتے ہیں۔ انھیں بہادر کی ب کا بھی علم نہیں ہوتا۔ صحافت اور سیاست تو دور کی بات، اپنے سماج کی حرکیات کی خبر نہیں ہوتی۔
ہم نے کراچی میں ایم کیو ایم کا عروج اور اس کے سامنے دوسری سیاسی جماعتوں کی پہلے بقا کی جنگ اور پھر مقابلہ دیکھا ہے۔ وہ سب بہت غلط تھا، لیکن اس نے کئی معاملات میں شعور کو جلا بخشی۔
میں پریمئیر کالج میں پڑھتا تھا۔ پڑھنے والا بچہ تھا۔ سیدھا کلاس میں اور سیدھا واپس۔ کسی سے کچھ لینا نہ دینا۔ کلاسوں سے باہر بہت کچھ ہوتا تھا۔ ایک صبح دیکھا کہ ایک ڈھائی چھٹانک کا لونڈا کسی ساڑھے چھ فٹے نوجوان کو اچھل اچھل کر چماٹے مار رہا ہے۔ چماٹ یعنی تھپڑ۔
میں نے ایک کلاس فیلو کے سامنے حیرت کا اظہار کیا تو اس نے کہا، یہ ڈھائی چھٹانک والا اے پی ایم ایس او کا عہدیدار ہے۔ کس میں ہمت ہے کہ اس کے چماٹے کے سامنے سے منہ بھی ہٹا لے۔
محلے میں ایک صاحب کو دیکھا جو ڈیڑھ پسلی کے تھے لیکن چوڑے ہوکر گھومتے تھے۔ آتے جاتے سلام لیتے اور جس پر غصہ آتا، اسے بے نقط گالیوں سے نوازتے۔ پتا چلا کہ کوئی ڈی ایس پی ان کا دوست ہے۔
کسی اخبار یا ٹی وی چینل میں کوئی واقف کام کرتا ہو تو اس سے پوچھیں کہ ادارے میں کسی کا کام پھنستا ہے تو کون نکلواتا ہے۔ اکثر صورتوں میں آپ کو جواب ملے گا، کرائم رپورٹر۔ وہ نہ ہو تو ڈائریکٹر نیوز کی گاڑی کا سائیڈ مرر چوری ہونے کا روزنامچہ تک نہیں کٹتا۔
کرائم رپورٹر کی دوڑ آئی جی آفس تک ہوتی ہے۔ انویسٹی گیٹو رپورٹر کے تعلقات طاقت کے اصل مراکز اور ایجنسیوں تک پہنچتے ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے، حامد میر، کامران خان، روف کلاسرا اور نجم سیٹھی کو اندر کی خبریں کہاں سے ملتی ہیں؟ کیا واقعی کوئی بلبل یا چڑیا خبر روشن دان سے پھینک جاتی ہے؟
اندر کی خبریں اندر والے ہی دیتے ہیں اور وہ عوام کی ذہن سازی کے لیے ہوتی ہیں۔ کسی سیاست دان کا امیج بگاڑنا ہوتا ہے، کسی کا سنوارنا ہوتا ہے، کسی معاملے میں رائے عامہ تیار کرنا ہوتی ہے۔
کچھ لوگ انجانے میں استعمال ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ جانتے بوجھتے یہ کام کرتے ہیں اور اس کا اچھا معاوضہ لیتے ہیں۔ بے شک ایسے بھی ہیں جو اصل خبر ڈھونڈ لیتے ہیں اور استعمال نہیں ہوتے۔
بہرحال کوئی کتنا بھی ایماندار ہو، تعلقات برقرار رکھنے اور مستقبل میں خبروں کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے تھوڑا بہت کام آ ہی جاتا ہے۔ پروگرام کا پیٹ بھی تو بھرنا ہوتا ہے۔
یہ جو لوگ ٹی وی پر اور سوشل میڈیا پر فوجی جرنیلوں اور ایجنسیوں کو برا بھلا کہتے ہیں، ان میں بہت سے انھیں کے دوست ہوتے ہیں۔ عوام میں خود کو معتبر رکھنے کے لیے سخت باتیں کرتے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں ملک کی مہار ہے، انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہوتا ہے۔
جیونیوز میں مرحوم انصار بھائی کا واقعہ میں نے کہیں لکھا تھا کہ طاہرالقادری کا دھرنا جاری تھا۔ ایک دن انھوں نے خطاب میں کہا کہ کل چار بجے اہم اعلان کروں گا۔ کل آگئی۔ نیوز چینلوں نے لائیو کٹ کردیا۔ چار بج گئے، سوا چار، ساڑھے چار، پانچ بج گئے لیکن قادری صاحب کا ظہور نہیں ہوا۔ میں نے پوچھا، انصار بھائی قادری صاحب اعلان کے لیے کیوں نہیں آرہے۔ انصار بھائی نے ہنس کر کہا، بریگیڈئیر صاحب مصروف ہوں گے۔ فون نہیں اٹھا رہے ہوں گے۔
باخبر دوست بتاتے ہیں کہ جس طرح دفتر خارجہ میں ہر ملک کی الگ ڈیسک ہوتی ہے، ایجنسیوں کے دفتر میں بھی ہر سیاسی جماعت اور ہر میڈیا گروپ کی الگ ڈیسک ہوتی ہے۔ جس طرح سپاہ صحابہ اور مجلس وحدت مسلمین کے معاملات کو ایک ہی افسر دیکھتا ہے، اسی طرح عین ممکن ہے کہ جیو اور اے آر وائے کے معاملات کو بھی کوئی ایک ہی افسر دیکھتا ہو۔
میرا خیال ہے کہ میں پس منظر پیش کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوگیا ہوں۔
اب سوچیں کہ کسی رپورٹر یا اینکر کو کوئی کرنل صاحب اندر کی خبریں اور مبینہ کرپشن کی فائلیں فیڈ کرنے لگیں اور خفیہ ملاقاتوں کی آڈیو سنوانے لگیں تو اس صحافی کا دماغ کون سے عرش پر پہنچے گا۔
پچیس ستائیس سال میں مجھے صرف ایک رپورٹر ایسا ملا جس کی سچائی کی قسم کھا سکتا ہوں۔ اس کا نام اعزاز سید ہے۔ اور بھی ہوں گے، لیکن میرے تجربے میں ایک وہی ہے جو خبر بھی ٹھیک دیتا ہے اور پھندوں سے بھی خود کو بچاتا ہے۔ نصرت جاوید صاحب، مطیع اللہ جان اور ڈان والے بھائی مبشر زیدی کے ساتھ کبھی کام کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن میں ان بارے میں بھی یہی خیالات رکھتا ہوں۔ اینکرز میں بس ایک شاہزیب خانزادہ ہے۔ دوسرا کوئی نہیں۔ کوئی بھی نہیں۔
عمر چیمہ اور احمد نورانی میرے بہت اچھے اور لائق احترام دوست ہیں۔ لیکن مجھے شک ہے کہ ماضی میں وہ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ عمران ریاض خان اور صدیق جان تو خیر صحافی ہی نہیں۔ وہ خود کو فیڈ کیے جانے کا اقرار کرتے رہے ہیں۔
بہادر کوئی نہیں ہوتا۔ کہیں سے جھوٹا آشیرواد ملتا ہے۔ کہیں کسی پر بھروسا ہوتا ہے۔ آگے بڑھتے بڑھتے ایک وقت آتا ہے جب پیچھے کوئی نہیں رہتا لیکن واپسی کا راستہ نہیں ملتا۔
ارشد شریف وہیں پہنچ گیا تھا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر