مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دلچسپ نظم
عنوان: پانچ مختصر ابواب میں آپ بیتی
۔
پہلا باب
میں گلی سے گزر رہی تھی
ایک جانب گہرا گڑھا تھا
میں اس میں گر گئی
میں گم ہوگئی۔۔۔ مدد دستیاب نہیں تھی
یہ میری غلطی نہیں تھی
باہر نکلنے میں بے اندازہ وقت لگا
۔
دوسرا باب
میں اسی گلی سے گزر رہی تھی
ایک جانب گہرا گڑھا تھا
میں نے ظاہر کیا کہ میں نے وہ نہیں دیکھا
میں دوبارہ اس میں گر گئی
مجھے یقین نہیں آیا کہ میں دوبارہ اسی جگہ تھی
لیکن یہ میری غلطی نہیں تھی
باہر نکلنے میں اس بار بھی طویل عرصہ لگا
۔
تیسرا باب
میں اسی گلی سے گزر رہی تھی
ایک جانب گہرا گڑھا تھا
میں نے اسے دیکھ لیا
میں پھر بھی اس میں گرگئی۔۔۔ یہ عادت بن گئی تھی۔۔۔ لیکن میری آنکھیں کھلی ہوئی تھیں
مجھے معلوم تھا کہ میں کہاں ہوں
یہ میری غلطی تھی
میں فورا باہر نکل آئی
۔
چوتھا باب
میں اسی گلی سے گزر رہی تھی
ایک جانب گہرا گڑھا تھا
میں اس سے بچ کر گزر گئی
۔
پانچواں باب
میں نے کسی اور گلی کی راہ اختیار کی
۔
یہ نظم ساتویں جماعت کی امریکی طالبہ پورشیا نیلسن کی ہے۔ یہ مجھے ایک استانی نے سنائی۔ ان کا خیال ہے کہ بچی نے علامتی انداز میں اپنی پڑھائی کا حال بتایا ہے کہ وہ امتحان میں بار بار فیل ہورہی تھی۔ آخر سمجھ گئی کہ غلطیوں سے بچنا ہوگا۔ یہ سمجھ داری اور محنت رنگ لائی۔ وہ کامیاب ہوئی۔
پاکستانی قوم، سیاست دان، اشرافیہ بار بار کی غلطیوں کے باوجود کیوں نہیں سمجھتی؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر