نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اتوار کے انتخابی نتائج اور چند معروضات ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں عمران خان قومی اسمبلی کی 7نشستوں پر امیدوار تھے انہوں نے 6پر کامیابی حاصل کی جبکہ ایک پر پیپلزپارٹی سے شکست کھاگئے۔ پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں 2پر پی ٹی آئی اور ایک پر (ن) لیگ کامیاب ہوئے۔

اے این پی خیبر پختونخوا کے صدر ایمل ولی خان چارسدہ سے اور بزرگ سیاستدان غلام احمد بلور پشاور میں عمران خان کے مقابلہ میں ہار گئے۔

ملتان میں صوبائی اسمبلی کے ایک ضمنی الیکشن میں پی ڈی ایم جمع پیپلزپارٹی کے مشترکہ امیدوار سلمان نعیم کو ہراکر صوبائی اسمبلی کا رکن بننے والے زین قریشی کی چھوڑی ہوئی نشست پر مخدوم شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی محترمہ مہر بانو قریشی نے 82141 ووٹ لئے جبکہ ان کے مدمقابل سید علی موسیٰ گیلانی نے 107327 ووٹ لئے۔ علی موسیٰ گیلانی نے اپنی مدمقابل امیدوار کو 25086 ووٹوں سے شکست دی

یہ نشست قریشی خاندان کے آبائی حلقہ کے طور پر مشہور تھی۔ علی موسیٰ گیلانی 2012ء کے ضمنی انتخابات میں بھی اس حلقہ سے جیتے تھے۔

2013ء میں اس حلقہ سے (ن) لیگ کے عبدالغفار ڈوگر جیتے اور 2018ء میں زین قریشی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر۔

عمران خان کراچی کے ایک حلقہ سے پیپلزپارٹی کے ایک کارکن عبدالحکیم بلوچ کے 32567 ووٹوں کے مقابلہ میں 22493ووٹ لے کر 11ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔

جن 7حلقوں سے عمران خان جیتے ان میں انہوں نے مردان سے جے یو آئی کے امیدوار مولانا محمد قاسم کو 8ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ این اے 24 سے انہوں نے اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کو 10ہزار ووٹوں سے، این اے 31پشاور سے حاجی غلام احمد بلور کو 25ہزار ووٹوں سے، این اے 118فیصل آباد سے (ن) لیگ کے عابد شیر علی کو 19ہزار ووٹوں سے، ننکانہ صاحب سے (ن) لیگ کی محترمہ شذرہ منصب کو 12ہزار ووٹوں سے جبکہ این اے 239 کراچی سے ایم کیو ایم کے نیئر رضا کو 31898 ووٹوں سے شکست دی۔

عمران خان 6 حلقوں سے جیتے اس اعلان کے باوجود کہ وہ جیت کر قومی اسمبلی میں نہیں جائیں گے۔ ان کے حامیوں نے انہیں ووٹ دیئے اسے سیاسی شعور کا کمال کہیں کہ اندھی شخصیت پرستی کے ساتھ ہم کوئی خاندانی غلام ہیں کا منہ بھر کے نعرہ لگانے والوں کی پارلیمانی عمل سے بیزاری؟

کیا ووٹ ڈال کر بھی رائے عامہ کا ایک طبقہ پارلیمانی عمل سے بیزار قرار پاسکتا ہے؟

اس کا سادہ جواب ہے کہ ان کے حامیوں میں زیادہ تعداد ان طبقات کی ہے جو 9اپریل سے قبل سکیورٹی اسٹیٹ پر ایمان کامل رکھتے تھے۔ عمران خان کو اس کا نمائندہ اور ان کی سیاست کواسلامی صدارتی نظام کی طرف بڑھنے کا ذریعہ۔

دوسروں کو سیاسی غلامی شخصیت پرستی کاطعنہ دیتے ووٹروں نے اتوار کے ضمنی الیکشن میں سات نشستوں پر عملی طور پر خود بھی غلامانہ ذہنیت اور شخصیت پرستی کا ہی مظاہرہ کیا۔

عمران خان 6 نشستوں سے جیت گئے اپنے اعلان کے مطابق وہ قومی اسمبلی میں نہیں جائیں گے۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کو ڈالا گیا ووٹ موجودہ قومی اسمبلی اور نظام پر عدم اعتماد ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کرتے وقت انہیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ وہ ایک نشست سے 31ہزار اور 2سے 25ہزار کی لیڈ سے 3نشستوں سے ان کی جیت 8سے 12ہزار ووٹوں کی بدولت ہے۔

موجودہ نظام اور اسمبلیوں پر رائے دہندگان کے بڑے طبقے نے بھی اعتماد کا اظہار کیا اس رائے کو وہ نظرانداز نہیں کرسکتے کیونکہ یہ مخالف ووٹرز سرحدوں کے دوسری جانب سے نہیں آئے تھے بلکہ انہی حلقوں سے تعلق رکھتے تھے۔

جن 6نشستوں سے وہ امیدوار بنے یہ وہی نشستیں ہیں جن سے پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی مستعفی ہوئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان حلقوں کے سابق ارکان اپنے استعفوں کی منظوری کے خلاف عدالت بھی پہنچے ہوئے ہیں۔ عدالت نے انہیں سوچنے کےلئے ایک ہفتہ کی مہلت دی تھی۔

ضمنی الیکشن اسی مہلت کے درمیان ہونے تھے اور ہوگئے۔ پھر بھی کیس ابھی عدالت میں ہے۔

پی ٹی آئی کے عدالت گئے ارکان کے لئے تحریری طور پر یہ ثابت کرنا مشکل ہوجائے گا کہ ان کے استعفے مشروط تھے (جیسا کہ انہوں نے درخواست میں لکھا)۔

خود عمران خان کا میانوالی سے رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے دیا گیا استعفیٰ سپیکر نے منظور نہیں کیا۔ بالفرض اگر سپیکر انفرادی تصدیق کے لئے عدم حاضری کو جواز بناکر یہ استعفیٰ مسترد کردے تو اتوار کو جیتی ہوئی 6نشستیں قانونی طورپر خالی ہوجائیں گی۔

سپیکر وہ استفعیٰ منظور کرلیتا ہے اور خان نئے حلف کے لئے قومی اسمبلی نہیں جاتا تو پھر اس معاملے کو پارلیمانی قواعد اور انتخابی قوانین کی روشنی میں نمٹایا جائے گا۔

اتوار کی شب اسد عمر نے کہا کہ کراچی سے عمران خان کے ہارنے کو ہرایا جانا سمجھتے ہیں ہم اس نتیجہ کو چیلنج کریں گے۔ ہرایا گیا تو پھر دوسرے حلقہ سے وہ ایم کیو ایم سے کیسے جیت گئے؟ مردان اور چارسدہ کے حلقوں سے عمران سے ہارنے والے امیدوار بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ صوبائی حکومت پوری طرح اثرانداز ہوئی۔ پشاور میں انتخابی عملے پر کچھ الزامات ہیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ الزامات ایک طرف سے نہیں دونوں طرف سے ہیں مثلاً ننکانہ صاحب جہاں سے عمران خان 12ہزار ووٹوں سے جیتے ہیں، سابق وزیر داخلہ اعجاز شاہ اور ان کے سابق محکمے کے کچھ افراد پر سنگین الزامات لگائے جارہے ہیں اگر الزامات لگانے والوں کے پاس دعوے کے مطابق ثبوت موجود ہیں تو قانونی دنگل بہت شاندار ہوگا۔

یہ درست ہے کہ 7میں سے 6نشستیں جیت کر عمران خان نے مقبولیت ثابت کردی ہے۔ یہ کہنا کہ مدمقابل ہی کوئی نہیں یہ غلط ہے۔ انتخابی نتائج مقبولیت اور مخالف کی سیاسی حیثیت دونوں صاف بتارہے ہیں۔

بالفرض اگر ہم یہ مان لیں کہ اتوار کو ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج نے پی ٹی آئی کے مبینہ حقیقی آزادی جہادی لانٓگ مارچ اور دھرنے کی راہ ہموار کردی ہے تو پھر ان 2بیانات کا کیا کرنا ہے جو عمران خان کے ہیں

اولاً چیف جسٹس پاکستان مجھے ’’سائفر‘‘ پر عدالتی کمیشن بنانے کی یقین دہانی کروادیں ہم اسمبلیوں میں واپس چلے جائیں گے۔ ثانیاً حکومت اگر الیکشن کی تاریخ دے دے تو لانگ مارچ نہیں کروں گا۔

عمران خان اپریل مئی 2023ء میں الیکشن چاہتے ہیں اور حکومت والے اکتوبر 2023ء کا عندیہ دے رہے ہیں۔

ان حالات میں اگر سپیکر عمران خان کے 10اپریل والے استعفے کو درست قرار دے دیتے ہیں تو عمران حالیہ ضمنی الیشن کی6 میں سے صرف ایک نشست کا حلف لے سکیں گے۔ 5 ان میں سے خالی ہوجائیں گی اور ایک استعفیٰ والی۔

وضاحت سے عرض کئے دیتا ہوں ادھر عمران خان کو چیف جسٹس ان کی خواہش پر سائفر تحقیقاتی کمیشن کی یقین دہانی کراتے ہیں ادھر سپیکر نے پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفے منظور کرلئے تو کیا ہوگا؟

ایک نئی قانونی جنگ ، کیااس وقت عمران خان اور ان کے ساتھی ارکان یہ موقف اپنائیں گے کہ ’’چونکہ ہم سپیکر کے پاس انفرادی تصدیق کے لئے نہیں گئے اس لئے وہ ہمارے استعفے منظور نہیں کرسکتے؟

جبکہ تادم تحریر ان کاموقف ہے ’’سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری ان کے 123ارکان کے استعفے منظور کرچکے ہیں موجودہ سپیکر صرف سیاست کررہے ہیں۔

اب آیئے کالم کے اس حصے میں این اے 157 ملتان کی بات کرلیتے ہیں۔ قومی اسمبلی کایہ حلقہ زین قریشی نے صوبائی اسمبلی کی نشست جیت کر اور حلف اٹھاکر خالی کیا تھا۔ زین قریشی کے والد مخدوم شاہ محمود قریشی نے اس حلقہ سے اپنی صاحبزادی محترمہ مہر بانو قریشی کو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر میدان میں اتارا۔

بجا ہے کہ علی موسیٰ کی جیت کا سہرا پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کے سر پر ہے۔ مہر بانو قریشی کی شکست کا داغ پی ٹی آئی کی سیاست پر لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس حلقہ میں دو بڑے خاندانوں نے اپنی سیاسی جماعتوں اور ہمدرد برادریوں کے زور پر پنجہ آزمائی کی۔

یہ گیلانی، قریشی دنگل تھا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی 50فیصد الیکشن اسی دن ہار گئے تھے جب انہوں نے سید علی موسیٰ گیلانی کے مقابلہ میں خود امیدوار بننے کی بجائے اپنی صاحبزادی کو میدان میں اتارا۔

2013ء اور 2018ء میں اہتمام کے ساتھ ہروائے گئے علی موسیٰ گیلانی پچھلے ساڑھے 9سال کے دوران حلقہ انتخاب سے نکلے ہی نہیں۔ 2018ء میں انہیں ہروانے والے ’’صاحب‘‘ بھی اب ملتان میں نہیں تھے۔

یہ ضمنی الیکشن علی موسیٰ گیلانی کے عوامی پن اور قریشی خاندان کی اشرافیہ مزاجی کے درمیان تھا (یاد رکھئے تحریر نویس نے اشرافیہ مزاجی لکھا ہے اشرافیہ نہیں) این اے 157 کے ضمنی الیکشن بارے الیکشن سے تین دن قبل ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں علی موسیٰ گیلانی کی جیت اور مہر بانو قریشی کی شکست بارے جو تجزیہ عرض کیا تھا وہ حرف بحرف درست ثابت ہوا۔

حرف آخر یہ ہے کہ ذاتی طور پر مجھے اپنے بزرگ دوست اورسیاستدان حاجی غلام احمد بلور کے ہارنے پر افسوس ہے۔ کبھی سیکولر مزاج سمجھے جانے والے پشاوریوں نے ’’اسلامی ٹچ‘‘ کی پذیرائی کی یہ ان کا حق ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author