مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی دن سے آلو بخارا بنا ہوا تھا۔ آلو تو خیر جسم بے ڈھنگا ہوجانے کی وجہ سے کہا، بخار البتہ تازہ واردات تھی۔ ہفتے کی رات اوبر ڈرائیور کے لیے مرادوں بھری ہوتی ہے۔ پورا ہفتہ سواری نہ ملے تو اس رات اتنی ملتی ہیں کہ کسر پوری ہوجاتی ہے۔ لیکن جسم اور سر میں اتنا درد تھا کہ گھر سے نہیں نکل سکا۔ خود کو کوستا رہا کہ جناب، آپ بڑے پیر صاحب بنتے تھے۔ اب بھگتیں پیری کہ جس میں صد عیب ہوتے ہیں۔
دو دن بخار سیلابی دریا کی طرح چڑھتا اور پہاڑی چشمے کی طرح اترتا رہا۔ حال بھی ویسا ہی ہوتا، یعنی موسلادھار پسینہ آتا۔ ایسا پسینہ بلکہ کیسا بھی پسینہ کئی سال سے نہیں آیا تھا۔ پسینہ بہاتا تو پیٹ نکلتا؟
پیر صاحب پیر کی صبح اٹھے تو دماغ گھوما گھوما سا تھا۔ یوتھیا یوتھیا سا محسوس ہوا۔ نئی نویلی ملازمت نئی نویلی دلہن جیسی ہوتی ہے۔ چھٹی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن کرنا پڑگئی۔ سوپروائزر نے بخار کا سن کر کہا، کوویڈ ٹیسٹ ضرور کروانا ورنہ دفتر میں گھسنے نہیں دوں گی۔
اسپتال گھر کے بالکل قریب ہے۔ پہلے دو میل دور تھا۔ لیکن اسپتال والوں نے کہا کہ مبشر بھائی سے اتنی دوری برداشت نہیں ہوتی۔ چنانچہ آدھے میل کے فاصلے پر ایسی خوبصورت اور جدید عمارت بنائی ہے کہ کیا کہنے۔ شفیق ڈاکٹرز اور محبتی نرسیں دیکھ بھال کو موجود۔ البتہ لیبارٹری کا انچارج کوہ قاف کے ظالم دیو کو مقرر کیا گیا ہے جو جناتی زبان بولتا ہے۔ میں ٹیسٹ کٹ لینے پہنچا تو اس نے برا سا منہ بنایا حالانکہ اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ اس نے کہا کہ لفافہ پکڑو اور دفع ہوجاؤ۔ گاڑی میں بیٹھ کر اسے کھولو۔ اس میں ایک پلاسٹک کی ڈنڈی ہے۔ اسے دونوں نتھنوں میں دس دس بار گھسیڑو۔ پھر شیشی میں بند کرکے واپس آؤ اور وہ سامنے والے ڈبے میں ڈالو۔
میں نے لفافہ سنبھال کر غور سے اس کے پھولے ہوئے نتھنے دیکھے اور ہنسا۔ اس نے کھا جانے والی نظر سے دیکھا۔
ٹیسٹ کی شیشی ڈبے میں ڈال کو سکون سے گھر آگیا۔ نتیجہ آنے میں چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
شام کو کپڑے استری اور جوتے پالش کیے۔ صبح کے لیے لیپ ٹاپ چارج کیا۔ سونے سے پہلے ای میل چیک کی تو ٹیسٹ رزلٹ آیا ہوا تھا۔
مبشر بھائی آج تک کسی امتحان میں ناکام نہیں ہوئے۔ کوویڈ ٹیسٹ میں کیسے ہوتے؟ ای میل میں سو فیصد پوزیٹو نمبروں سے کامیابی کا اعلان تھا۔
پوزیٹو ٹیسٹ باس کو ای میل کردیا۔ جواب آیا، گیٹ ویل سون لیکن پانچ دن اپنی منحوس صورت مت دکھانا۔ لچھ دیر تک سوچتا رہا کہ پانچ دن تک کیا کروں گا۔
اب بیسمنٹ میں آکر بیٹھ گیا ہوں جہاں پانچ ہزار آٹھ سو نوے کتابیں مجھے دیکھ دیکھ کر ہنس رہی ہیں۔ میں نے بھی ان کی ہنسی اڑائی۔ فیصلہ کیا ہے کہ اگلے پانچ دن پانچ سات کتابوں کو وائرس لگاؤں گا۔ پانچ سات سے محبت جتاؤں گا۔ باقی سب کا منہ چڑاؤں گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر