دسمبر 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اداسی سے ڈرجاتاہوں۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی منتقل ہونے کے بعد مجھے دوست بنانے میں مشکل پیش آئی۔ کزن اور کلاس فیلو تھے لیکن کوئی رازدار دوست نہیں تھا۔ کافی عرصے بعد شباہت حسین کی صورت میں ایسا دوست ملا۔ پھر کئی سال تک ایسا ہوا کہ چوبیس میں سے اٹھارہ بیس گھنٹے ہم ساتھ ہوتے۔ ساتھ کھاتے، ساتھ پیتے اور ساتھ گھومتے۔ وہ واحد شخص تھا جس سے میری توتڑاق ہوتی اور روانی سے گالیوں کا تبادلہ ہوتا۔ اس کے سوا کسی شخص کو میرے منہ سے گالی سننے کا اعزاز نہیں ملا۔
انچولی میں تب دو طرح کے لوگوں کی اکثریت تھی۔ امروہے والے اور بہار والے۔ میرا خاندان امروہوی اور شباہت کا بہاری۔ باقی ہر شخص سے آپ ان دونوں کی برائیاں سن سکتے تھے۔ بہاریوں کے لیے مشہور تھا، جو کٹ سکا نہ آری سے، وہ کٹ گیا بہاری سے۔
شباہت میں بہاریوں والی تمام خوبیاں تھیں۔ اس کی یادداشت غیر معمولی حد تک اچھی تھی۔ اسے سیاست سے دلچسپی تھی۔ ایسی دلچسپی کہ پورے ملک کے انتخابی حلقوں کے نمبر، ان کے ارکان اسمبلی، سیاسی خاندان اور سیاسی تاریخ اسے یاد تھی۔ میں نے بعد میں دوسرا ایسا شخص سہیل وڑائچ کو پایا۔
شباہت کے والد حسین بھائی پیپلز پارٹی میں سرگرم تھے۔ کوئی رہنما قسم کی شے تو نہیں تھے لیکن پارٹی میں کافی تعلقات تھے۔ شاید مقامی سطح کے رہنما ان کے گھر بھی آتے تھے۔ شباہت کے دو چچا تھے۔ ایک ہمارے بابا کی طرح نیشنل بینک کے ملازم تھے۔ دوسرے سے صحافی اور ایجنسیوں کے لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کا نام محمود اختر نقوی ہے۔
میں شباہت کے ساتھ ایک دو بار محمود اختر نقوی کے گھر گیا تھا۔ ان دنوں وہ ملیر میں رہتے تھے۔ یہ نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں کا ذکر ہے۔ ان کے ڈرائنگ روم میں متعدد فوٹو لگے تھے جن میں وہ بڑے سیاست دانوں کے ساتھ نظر آرہے تھے۔ وہ ایسی تصویریں دکھاکر سرکاری دفاتر سے بڑے کام نکلوالیتے تھے۔
شباہت تو چچا کا ذکر نہیں کرتا تھا لیکن انچولی میں ان کے بارے میں کافی کہانیاں مشہور تھیں۔ بزرگوں کو یاد ہوگا کہ اس زمانے میں فون لگوانا کس قدر مشکل تھا۔ کنکشن لینے میں برس ہا برس لگ جاتے تھے۔ محمود اختر نقوی نے ضیا دور میں اپنے تعلقات استعمال کرکے اپنے گھر میں درجنوں فون لگوالیے تھے۔ کنکشن لیتے رہتے اور آگے بیچتے رہتے۔
ایک بار حضرت نے اعلان کیا کہ وہ بہت کم پیسے لے کر قافلہ کربلا لے جائیں گے۔ آج کی طرح بہت سے قافلے نہیں جاتے تھے۔ پاسپورٹ مشکل سے بنتا تھا۔ ڈالر بینک سے ملتے تھے۔ کم پیسوں میں زیارات کا سن کر بہت سے لوگوں نے پاسپورٹ اور پیسے جمع کروائے۔ شاید دوسرے شہروں کے لوگوں نے بھی بھیجے۔ بیرون ملک جانے والے پاسپورٹ پر ویزا دکھاکر بینک سے ایک ہزار ڈالر خرید سکتے تھے۔ محمود اختر نقوی نے سو ڈیڑھ سو لوگوں کے پاسپورٹ دکھاکر ڈالر خریدے، اوپن مارکیٹ میں بیچے اور سب کے پاسپورٹ واپس کردیے کہ پروگرام کینسل ہوگیا۔ اگر ایک ڈالر پر دو روپے بھی کمائے ہوں تو کم از کم دو لاکھ روپے کمائے۔ اس وقت یہ کافی بڑی رقم تھی۔
شباہت کے والد اپنے چھوٹے بھائی سے بالکل مختلف تھے۔ لیکن آخری عمر میں آکر نہ جانے کیوں وہ پیر صاحب بن گئے۔ عملیات کرنے لگے اور تعویذ دینے لگے۔ مرید نذرانے میں مرغیاں اور بکرے دے جاتے۔ وہ جس مکان میں کرائے دار رہے، وہاں برسوں بعد میں بھی کچھ عرصہ رہا۔ آنٹی پراسرار قصے سناتی تھیں۔
شباہت اپنے والد اور چچا سے قطعی الگ طبیعت کا تھا۔ ذہانت کے ساتھ شرارت غالب تھی۔ اچھا کرکٹر بھی تھا۔ الٹے ہاتھ سے بیٹنگ کرتا تھا۔ کراچی پولیس کی کرکٹ ٹیم بنی تو اس میں ملازمت مل گئی۔ ذہین ہونے کی وجہ سے وہ جلد جان گیا کہ کرکٹ میں اس کا کوئی مستقبل نہیں۔ ویسے بھی اس کا ارادہ ملک سے نکلنے کا تھا۔
میں کہیں پہلے شباہت کا ذکر کرچکا ہوں کہ اس میں اعتماد بلا کا تھا۔ جھوٹ ایسے بولتا کہ سننے والا ایمان لے آتا۔ ہم کہیں جارہے ہوں، کوئی پوچھ لے، اسکور کیا ہے؟ شباہت بتاتا، ساٹھ پر تین۔ سننے والا مطمئن ہوکر آگے بڑھ جاتا۔ ایک بار میں نے کہا، صبح سے میرے ساتھ ہو۔ میچ کی ایک گیند نہیں دیکھی۔ جھوٹا اسکور کیوں بتایا؟
ایسے موقع پر شباہت کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آجاتی۔ اس نے کہا، ایک گھنٹے بعد جب یہ بندہ ٹی وی دیکھے گا تو اسکور زیادہ ہوچکا ہوگا۔ اسے یاد ہی نہیں آئے گا کہ میں نے کیا بتایا تھا۔ اس وقت وہ مضطرب تھا۔ میں نے اسے مطمئن کیا ہے۔ یہ ثواب کا کام ہے۔
میں اس جواب پر مطمئن ہوگیا۔ اس کا ثواب بھی شباہت کو ملا ہوگا۔
شباہت کا کوئی کالج کا دوست غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک چلا گیا۔ وہ نوجوان اپنی محبوبہ کو خط لکھ کر شباہت کو بھیجتا تھا۔ شاید پیسے بھی ساتھ ہوتے۔ وہ شباہت اس عورت کو پہنچاتا تھا۔ میں بھی ایک دو بار اس کے ساتھ اس عورت کے گھر گیا۔ معلوم ہوا کہ وہ عورت شادی شدہ اور بچوں والی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس کے پاس جانے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا جاتا جب اس عورت کا شوہر گھر پر نہ ہو۔
ایک دن میں نے شباہت سے کہا کہ تمھارا دوست کس چکر میں پڑا ہوا ہے۔ اسے سمجھاتے کیوں نہیں؟ شباہت نے جذباتی لہجے میں کہا کہ محبت بہت عظیم جذبہ ہے۔ سچی محبت زندگی کا عظیم ترین تحفہ ہے۔ ایسی محبت کرنے والے کو دنیا اور آخرت میں بڑا اجر ملتا ہے۔
یہ سن کر میں بہت متاثر ہوا۔ چند دن متاثر رہا۔ پھر ایک دن ہوش آیا تو شباہت سے کہا، ابے اس عورت کا شوہر گہری سانولی رنگت کا ہے اور چھوٹا بچہ گورا چٹا ہے۔ ضرور تیرے دوست کا ہوگا۔ کسی شادی شدی عورت سے جسمانی تعلقات رکھنا کس قسم کی پاک محبت ہے؟ تیری تو۔۔۔
اس موقع پر شباہت کے چہرے پر وہی شیطانی مسکراہٹ ابھری جو اس کا ٹریڈ مارک تھی۔
انچولی ایم کیو ایم کا گڑھ تھا اور شباہت پیپلز پارٹی کا جیالا۔ میرا جھکاو بھی ہمیشہ پیپلز پارٹی کی طرف رہا ہے۔ 1993 کا الیکشن آیا تو ہمارے حلقے سے پیپلز پارٹی نے سید سعید حسن کو قومی اسمبلی اور غلام مصطفی بگھیو کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا۔ بگھیو صاحب ایک کارنر میٹنگ کے لیے آئے۔ ہمارے دوست کامی باس کے گھر پر لوگ جمع ہوئے۔ شباہت نے بڑی جرات سے کہا کہ اس حلقے سے پیپلز پارٹی جیت نہیں سکتی۔ کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ مقامی امیدوار کو ٹکٹ دیا جاتا۔ بگھیو صاحب سٹپٹا گئے۔ شاید انھوں نے بیلٹ پر نام چھپوانے کی خاطر تعلقات استعمال کرکے پارٹی ٹکٹ لیا ہوگا۔
بعد میں مجھے غلام مصطفی بگھیو کے رشتے دار خلیل بگھیو کے ساتھ وائس آف امریکا میں کام کرنے کا موقع ملا۔ خلیل بگھیو صاحب اے پی پی کے بڑے صحافی تھے اور وائس آف امریکا سے پہلے واشنگٹن میں اس کے نمائندے رہے۔ بدقسمتی سے وہ میرے ساتھ ان چار صحافیوں میں شامل تھے جو ٹرمپ دور میں وائس آف امریکا سے نکالے گئے۔ بعد میں ہم سب کی ملازمت بحال ہوگئی تھی۔ وہ اب بھی کام کررہے ہیں۔
شباہت میں ایک کمال یہ تھا کہ اسے نام اور صورتیں یاد رہتی تھی۔ ایک دن ہم صدر سے ٹوڈی روٹ کی بس میں چڑھے۔ ایک بھاری جسم والے صاحب بھی بیٹھے تھے۔ شباہت نے ان کے پاس جاکر کان میں کچھ کہا۔ انھوں نے اسے گلے لگالیا اور کہا، اچھے دن آئیں گے، اچھے دن آئیں گے۔ پھر وہ بس سے اتر گئے۔ شباہت نے بتایا کہ وہ سید محمد اسلم تھے جو ہمارے حلقے سے ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر دو بار ڈیڑھ دو لاکھ ووٹ لے کر ریکارڈ بناچکے تھے۔ 1992 میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہونے کے بعد سب رہنما ادھر ادھر ہوگئے تھے۔ شباہت کے پہچان لینے پر خود انھیں بھی حیرت ہوئی ہوگی۔ ضرور اسے ایم کیو ایم کا کارکن سمجھے ہوں گے۔
ایک دن انچولی میں ایک کار، شاید ایف ایکس یا مہران میں ایک داڑھی والے صاحب نے رک کر راستہ پوچھا۔ شباہت نے آگے بڑھ کر راستہ بتایا اور کچھ بات بھی کی۔ واپس آکر پوچھا، پہچانے انھیں؟ میں نے کہا، نہیں۔ اس نے کہا، یہ صاحب جماعت اسلامی کے رہنما ہیں۔ سید منور حسن نام ہے۔
میرا خیال ہے کہ منور حسن کا آخری انٹرویو میں نے ہی کیا۔ وہ بستر علالت پر تھے جب میں نے وائس آف امریکا کی جانب سے انھیں فون کیا اور گفتگو ریکارڈ کی۔ وہ انٹرویو طلبہ یونین سلسلے کی کڑی تھا۔
شباہت کے کہنے پر میں نے کئی الٹے سیدھے کام بھی کیے۔ ایک کام ایسا ہے کہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے۔
ایک دن شباہت نے کہا، میرا ایک دوست بہت اچھا کرکٹر ہے۔ اگر وہ یونیورسٹی کی جانب سے کھیل جائے تو اس کا مستقبل بن جائے گا۔ لیکن وہ انٹر کا امتحان پاس نہیں کرپارہا۔ اگر تم اس کی جگہ امتحان میں بیٹھ جاو تو۔۔۔۔ بہت ثواب ملے گا۔
ثواب کی حقیقت مجھے معلوم ہوچکی تھی لیکن شباہت کی بات ٹالنا مشکل تھا۔ میں تیار ہوگیا۔ دوست کے ایڈمٹ کارڈ سے اس کی تصویر اتار کے میرا فوٹو لگایا گیا۔ کوئی جعلی مہر بھی لگادی گئی۔ گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں مرکز تھا۔ میں نے بغیر پڑھے انٹر کامرس کے چودہ پرچے دیے اور بی گریڈ میں پاس کرلیا۔
اگلے سال شباہت نے کہا، ایک اور پارٹی ہے جو امتحان دینے کے دو ہزار روپے دے گی۔ ہم ہزار ہزار کرلیں گے۔ میری جھجک نکل چکی تھی۔ ہزار روپے کافی رقم معلوم ہوئی۔ اس بار پہلے سے زیادہ نمبر آئے۔ اگلے دو سال یہ کھیل چلتا رہا۔ میٹرک، انٹر، بی اے بلکہ ایم اے تک کے پرچے دیے، حالانکہ خود اس وقت تک گریجویشن بھی نہیں کیا تھا۔ کسی پرچے میں فیل نہیں ہوا۔
ایک بار ایسا ہوا کہ بی اے سال اول کے پرچے ایک لڑکے کے ایڈمٹ کارڈ پر دیے اور سال دوم کے دوسرے لڑکے کے ایڈمٹ کارڈ پر۔ ممتحن روز مجھے دیکھتے تھے، ایڈمٹ کارڈ سے اپنی شیٹ پر نام، رول نمبر وغیرہ لکھتے تھے لیکن پلٹ کر نہیں پوچھتے تھے کہ بھائی آج تیرا نام کیوں بدل گیا۔ کوئی یاد نہیں رکھتا۔ کئی بار ایڈمٹ کارڈ پر میری تصویر نہیں تھی۔ ایک لڑکا انگریزی میں کئی سال سے فیل ہورہا تھا۔ ایڈمٹ کارڈ پر اس کی سانڈ جیسی تصویر تھی۔ میں سارا وقت ڈرتا رہا کہ کسی نے فوٹو پر ایک نظر بھی ڈال لی تو پکڑا جاوں گا۔ لیکن کسی نے نہیں دیکھا۔
شباہت کا سارا ننھیال ملک سے باہر تھا۔ نانی کینیڈا میں رہتی تھیں۔ ایک ماموں ہالینڈ میں تھے۔ دوسرے ماموں یا خالا انگلینڈ میں تھیں۔ وہ خود باہر جانا چاہتا تھا۔ چچا سے کہا ہوگا۔ بات نہیں بن رہی تھی۔ پھر ایک ماموں نے دعوت نامہ بھیج دیا۔ اس نے ویزا اپلائی کیا اور لگ گیا۔
مجھے یاد ہے کہ 19 ستمبر 1996 کو میری بہن کے نکاح کی تقریب تھی۔ پنجاب سے اس کے سسرال والے تقریب میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ تقریب جاری تھی کہ مرتضی بھٹو کی موت کی خبر آئی۔ چند گھنٹوں بعد شباہت کی پرواز تھی۔ خدشہ ہوا کہ ردعمل میں شہر بند نہ ہوجائے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تقریب کے بعد میں بری طرح تھکن کا شکار تھا لیکن شباہت کے گھر والوں کے ساتھ اسے چھوڑنے ائیرپورٹ گیا۔ شباہت بہت خوش تھا۔ پتا نہیں اسے اندازہ تھا یا نہیں کہ اگلے بیس سال تک وہ کئی ملکوں میں بھٹکتا پھرے گا اور واپس پاکستان نہیں آسکے گا۔
گھر آکر میں دیر تک گم صم بیٹھا رہا۔ دن کے بیس گھنٹے ساتھ گزارنے والا دوست اچانک رخصت ہوگیا تھا۔ ایک دن پہلے تک میں نے نہیں سوچا تھا کہ اب کیا کروں گا؟ ایسا اداسی والا لمحہ پھر کبھی نہیں آیا۔
اس کے بعد میں نے دوست بہت بنائے لیکن شباہت جیسی دوستی کسی سے نہیں کی۔ کسی دوست میں اس کی شباہت بھی آتی ہے تو اداسی سے ڈر جاتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author