نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دوست کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کی جائے۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخلاق کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ دوست کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کی جائے۔ کسی دوسرے کو یہ موقع خود دینا تو اور بھی بری بات ہے۔
سوشل میڈیا فرینڈ لسٹ میں موجود کسی دوست کا اسکرین شاٹ لگانا بھی ایسا ہی ہے۔
ممکن ہے کہ آپ کی فرینڈ لسٹ میں کچھ لوگ آپ کے دوست کو پسند نہ کرتے ہوں۔ وہ اس اسکرین شاٹ پر منفی تبصرے کریں گے۔ یا تو آپ ہر کمنٹ پر دفاع کریں، جو شاید ممکن نہیں ہوگا، یا منفی کمنٹس ڈیلیٹ کریں، لیکن آپ ایسا کیوں کریں گے۔
ہونا یہ چاہیے کہ آپ اپنے دوست کی وال پر ہی اچھا برا تبصرہ کریں۔ دوست جواب دینا چاہے گا تو دے گا، ورنہ بات ختم۔ آپ کی نیت پر شک نہیں ہوگا۔
گزشتہ دنوں میرے بہت سے اسکرین شاٹ وائرل ہوئے۔ مجھے غیروں کی کوئی پروا نہیں۔ لوگ باتیں کرتے ہی ہیں۔ سوشل میڈیا بنا ہی اس لیے ہے۔
لیکن فرینڈ لسٹ میں موجود افراد نے ایسا کیا، اور میرے علم میں آیا تو میں نے انھیں ان فرینڈ کردیا۔ اس طرح کوشش کی کہ ان افراد کے اخلاق پر حرف نہ آئے۔
ان فرینڈ ہونے کے بعد لوگوں نے اس نکتے کو سمجھنے کے بجائے غم و غصے کا اظہار کیا اور مزید الٹی سیدھی باتیں کیں۔ مجھے دوستی ختم ہونے کے بعد کسی تبصرے میں دلچسپی نہیں لیکن فیڈ میں یا ان بکس ایسے کمنٹس ملتے رہتے ہیں۔
ایسے ایک صاحب کو میں نے علامہ قرار دیا تھا۔ وہ علامہ خادم رضوی ثابت ہوئے۔ انھیں فخر ہے کہ وہ "دیہاتی” ہیں اس لیے گھٹیا جملے بولنے سے باز نہیں آئیں گے۔ میرے بہت سے دوست دیہاتی ہیں اور نہایت مہذب اور عالم ہیں۔ مطالعہ اگر آپ کا اخلاق نہیں سنوار سکا اور بہتر الفاظ کا چناو نہیں سکھا سکا تو آپ کے تراجم بھی کسی کے کام نہیں آسکیں گے۔
یہ صاحب کئی عشروں سے یورپ میں رہتے ہیں۔ یورپ کا مہذب معاشرہ بھی انھیں تہذیب نہیں سکھا سکا۔
ان بابا جی نے الزام لگایا ہے کہ میں نے ان کے آن لائن کتب خانے سے کتابیں چوری کرکے اپنے کتب خانے میں شئیر کی ہیں۔ اول تو ان کے گروپ میں کئی سال میں جتنی کتابیں شئیر کی گئی ہیں، ان سے زیادہ میں پہلے مہینے میں پیش کرچکا تھا۔ پھر یہ کہ انھوں نے خود کون سا ساری کتابیں شائع یا اسکین کی ہیں۔ خود بھی کہیں سے "چوری” ہی کی ہیں۔
ایک اور بابا جی کا تعلق ہندوستان سے ہیں۔ ایک ادبی جریدے کے ایڈیٹر ہیں۔ گوناگوں موضوعات پر ادھر ادھر سے مال جمع کرکے نمبر چھاپتے رہتے ہیں۔ یہ بھی آسان کام نہیں۔ میں اس پر بھی ان کی بہت تعریف کرچکا ہوں۔
کم ہی ادیب شاعر بچے ہیں، جن سے ان کا مچیٹا نہ ہوا ہو۔ وہ صرف انھیں لوگوں کو "عظمت” کے درجے پر فائز کرتے ہیں جو ان کے ناولوں کی تعریف کرتے ہیں۔ باقی سب تیسرے درجے کے ادیب شاعر نقاد اور قاری ثابت ہوتے ہیں۔
ان بابا جی نے ایک نمبر چھاپنے کا ارادہ کیا تو مجھ سے رابطہ کیا۔ کہا کہ کچھ کتابیں پاکستان میں چھپی ہیں، وہ درکار ہیں۔ مجھے جتنی کتابیں ملیں، سب جمع کرکے کورئیر سے بھیج دیں۔ اس بارے میں پہلے نہ سوچا تھا، نہ جتایا تھا لیکن ان کے منفی کمنٹس دیکھ کر یاد آیا کہ بابے نے کتابوں یا کورئیر کے پیسے دینا تو درکنار، رسالے میں بھولے سے شکریہ ادا کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
یہ ستر ستر سال کے بابوں کی اخلاقیات کا حال ہے۔ کسی اور کی شکایت کیا کیجیے۔
یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author