نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ دل یہ پاگل دل میرا ۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ دل یہ پاگل دل میرا ۔۔
آجکل میں جب ملک خدا داد پاکستان کی حالت دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اللہ نے ہمیں ایک جنت نظیر ملک عطا کیا اور ہم تمام وسائل کے باوجود نان شبینہ کے محتاج در در پر کشکول لے کر پھر رہے ہیں اور کوئ گھاس نہیں ڈالتا پھر بھی ہم اپنی روش تبدیل نہیں کرتے۔
کچھ عرصہ پہلے میں نے جارج واشنگٹن یونیورسٹی امریکہ کی ایک تحقیقی رپورٹ دیکھی کہ قرانی تعلیمات کی اقتصادی اور سماجی اقدار پر سب سے زیادہ عمل کونسے ملک میں کیا جاتا ھے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مسلمان ملکوں سے زیادہ ان تعلیمات پر غیر مسلم ریاستوں میں عمل ھو رہا ھے۔ پہلے بھی ہمارے بزرگ جب مغربی ملکوں میں رہ کے آتے تو ہمیں یہی بتاتے مسلمان یہاں ہیں اور اسلام پر عمل مغربی ملک کر رھے ہیں اور امن۔سکھ چین سے رہ رھے ہیں جبکہ ہم یہاں قتل وخونریزی کی وجہ سےخوار ہیں ۔ قصاص کے قرانی حکم پر عمل ہی نہیں کرتے۔ تحقیقی رپورٹ میں قران کی تعلیمات پر عمل کرنے میں آئرلینڈ کو ٹاپ قرار دیا گیا۔۔میرے ذھن میں یہ خلش پیدا ہوئی کہ آخر آئیرلینڈ میں قران اور اسلام کی اقدار کیسے پہنچی ھونگی؟جب آپ کسی مسئلے پر غور کرتے ہیں تو اللہ تعالے کی ذات ضرور کوئی حل آپکے لئیے نکال دیتی ھے اور یہاں بھی یہی ہوا۔ اللہ نے ایک اور رپورٹ سامنے کردی جو بڑی دلچسپ ھے اور جس کے تانے بانے میری خلش کو ختم کرنے سے ملتے ہیں۔ہوا یوں کے 1845ء اور 1852ء کے دوران آئیرلینڈ میں آلوٶوں کی فصل پر کچھ ایسی وائیرس نے حملہ کیا کہ فصل تباہ ہو جاتی اور ہر سال بھت قلیل پیداوار ھوتی۔ آلو جیسے ہمارے ہاں گندم استعمال ھوتی آئیرش لوگوں کی بنیادی خوراک تھی۔ چنانچہ آئیرلینڈ میں ایسا قحط پڑا کہ بھوک اور بیماری سے ہر گھر میں لوگ مرنے لگے ۔ یہ ظالم قحط آٹھ سالوں میں دس لاکھ لوگوں کو نگل گیا۔ جب یہ قحط آیا اس وقت سلطنت عثمانیہ میں سلطان عبدالمجید اول جو ابھی 23 سال کا تھا کی حکومت تھی۔ سلطان کو جب آئیرلینڈ کے اس ظالم قحط کی اطلاع ملی جس میں ھزاروں لوگ روزانہ مر رھے تھے اس نے انہیں امداد دینے کا فیصلہ کیا اور فوری طور پر دس ھزار پونڈ کا اعلان کر دیا جو اس زمانے میں بڑی خطیر رقم تھی۔یاد رھے کہ 1901 میں ہندوستان میں ایک پونڈ پندرہ روپے کا تھا اور ایک تولہ سونا بھی پندرہ روپے کا تھا۔ اس حساب سے یہ امداد دس ھزار تو لے سونے کے برابر سمجھ لیں۔میرے خیال میں آج کے حساب سے 68 کروڑ روپے امداد بنتی ھے۔جب برطانوی سفیر کو اس غیر متوقع خطیر رقم کا پتہ چلا تو اس نے سلطان کو دس ھزار پونڈ دینے سے روکا اور کہا کہ ملکہ وکٹوریہ چونکہ دو ھزار پونڈ کا اعلان کر چکی ھے اس لئیے آپکی دس ھزار پونڈ کی امداد سے ملکہ کی سُبکی ھو گی بس آپ ایک ھزار پونڈ کا اعلان کریں۔۔۔انسانوں کو تباہ و برباد کرنے میں سیاست نے بڑے گھناونے روپ دھارے۔۔جب آئرلینڈ والوں کو سفیر کی سازش کا پتہ چلا تو انہوں نے سفیر کو خوب گالیاں دیں۔ سلطان نے غلے کے بحری جہاذ بھیجنے کا فیصلہ کیا تو وہ بھی برطانیہ نے روک دئیے۔ سلطان بھی باز نہیں آیا اور کسی اور سمندری راستے سے خفیہ طور پر غلے سے بھرے پانچ جھاذ ائرلینڈ پہنچا دئیے جس سے آئیرش لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انکی مصیبت کم ھو گئ ۔ اس بندرگاہ پر مسلمانوں کی امداد کی یاد میں کریسنٹ اور کراس کی ایک یادگار بنادی جو اب بھی موجود ھے۔۔ خیر 1852ء میں قحط تو ٹل گیا لیکن آئیریش لوگوں کو غم کے طوفان میں ڈبو گیا ۔1853ء میں روس نے سلطنت عثمانیہ پر بلقان میں حملے شروع کر دئیے اب بھی سلطان عبدالمجید اول کی حکومت تھی۔ آئیرش لوگوں کو جب پتہ چلا تو تیس ھزار کی فوج۔نرسیں ۔انجینیر۔ صحافی برطانوی فوج کو ساتھ لے کر سلطان کی امداد کو پہنچ گئیے اور حملہ پسپا کردیا۔ اس دوران آئیرش آرمی کا مسلمان آرمی اور لوگوں سے انٹر ایکشن ھوا اور مسلمانوں کی طرز زندگی اور قرانی تعلیمات سے بھی آگاہ ھوۓ۔ اس جنگ کو کریمین وار کے نام سے یاد کیا جاتا ھے جب سلطنت عثمانیہ کی امداد کے لئیے فرانس ۔بر طانیہ اور سارڈینیا کھڑے ھو گئیے۔ ان ممالک نے روس کو 1856ء میں شکست دے کر معاہدہ پیرس کرنے پر مجبور کر دیا۔ کہا جاتا ھے کریمین وار دنیا کی جدید جنگ تھی کیونکہ اس میں بارود شیل۔ریلوے اور ٹیلی گراف کا پہلی دفعہ استعمال ھوا۔ جنگ کے فوٹو بھی پہلی بار بناۓ گئیے۔ زخمیوں کا جنگ میں علاج کرنے کے لئیے فلورنس آف نائٹینگیل کا پیشہ ورانہ کردار بھی سامنے آیا۔ فلورنس آف نائٹیگیل 1820ء میں اٹلی میں پیدا ہوئیں۔ کریمین وار میں اس خاتون نے نرسوں کے ساتھ ملکر جنگی محاذوں کے قریب ہسپتال بناۓ اور زخمیوں کا علاج جاری رکھا جس سے جنگی زخمیوں کی اموات میں دو تہائی کمی ہوئی۔ پھر اس خاتون کی تحریروں کے ذریعے پوری دنیا میں صحت اور ہسپتالوں کو بہتر بنانے میں مدد ملی۔
آج ہمارے ملک کے ہسپتالوں۔دفتروں عدالتوں ۔پارلیمنٹ ۔میڈیا ۔انتظامیہ۔سیکورٹی میں کیا ہو رہا ہے ؟

About The Author