حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسحٰق ڈار کو آپ جو مرضی کہہ لیجئے، میں ان کی مستقل مزاجی کا قائل ہوں۔ وہ وزیراعظم کے طیارے میں ملک سے ’’نکل‘‘ گئے تھے۔ لگ بھگ پانچ سال بعد وزیراعظم کے "طیارے” میں "واپس” آگئے۔
درمیان میں پونے چار برس تبدیلی سرکار رہی اس کے ایک مشیر احتساب جنہیں ’’پیار‘‘ سے یار لوگ احتساب اکبر کہتے بلاتے تھے روز نہیں تو ایک دن چھوڑ کر دعویٰ کیا کرتے تھے برطانوی حکومت سے مجرموں اور مفروروں کی حوالگی کا ’’معاملہ‘‘ طے پاگیا ہے بس چند دن کی بات ہے نوازشریف اور اسحق ڈار کو گھسیٹتے ہوئے لے آئیں گے۔
بعد کے دنوں میں شہزاد اکبر مرزا ایک عدالتی فیصلے کے سہارے پتلی گلی کے راستے ملک سے نکل لئے ۔ اب وہ ملک سے باہر ہیں اور جن دو مفروروں کو انہوں نے گھسیٹ کر لندن سے پاکستان لانا تھا ان میں ایک وزیراعظم کے طیارے میں بیٹھ کر آگیا ہے فقیر راحموں کہتے ہیں یہ سب راولپنڈی کا کرم ہے۔ ہوسکتا ہے کیونکہ راولپنڈی کے ’’کرموں‘‘ کے پھل کھاتے کھاتے اب تو بس ہوگئی ہے۔ شوق دا کوئی مل نہیں۔ چلیں دیکھتے ہیں محفوظ راستہ لے کر عقل کے چراغ روشن ہوئے یا پروتھے ٹکر والی اَکڑ ہے کہ ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘۔
ارے چھوڑیئے ہم بھی کن چکروں میں پڑگئے، ڈار صاحب (اسحٰق ڈار) واپس آگئے ہیں۔ (ن) لیگ کے دوست انہیں پچھلی اور رواں صدی کا سب سے دھانسو برانڈ ماہر معامشیات سمجھتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن میں اور فقیر راحموں پچھلے تیس برسوں سے جس محمد اسحق ڈار کو جانتے ہیں وہ سفید جھوٹ بھی اس ذہانت کے ساتھ بولتا ہے کہ جوتوں سمیت آنکھوں میں گھس کر چوکڑی مار کے بیٹھ جاتا ہے۔
یہ دو ہزار آٹھ کی بات ہے محترمہ بینظیر بھٹو کے سڑک پر ماردیئے جانے کے بعد ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں پیپلزپارٹی قومی اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی بن گئی۔ کچھ آزاد امیدواروں اور ق لیگیوں نے انتخابی عمل سے قبل پیپلزپارٹی کو یقین دہانی کروائی تھی ان یقین دہانیوں کی "بیخ کنی” کرنے والوں کا ذکر اب فضول ہے۔
پی پی پی نے (ن) لیگ، جے یو آئی ف، اے این پی، ایم کیو ایم اور چند دیگر کے تعاون سے مخلوط حکومت کا ڈول ڈالا۔ اسحق ڈار اس مخلوط حکومت کے وزیر خزانہ تھے۔ پرویز مشرف نے وفاقی کابینہ سے حلف لیا تھا۔ لیگی وزراء نے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھی ہوئی تھیں۔ کابینہ بن گئی، اسحق ڈار نے پہلی ہی پریس کانفرنس میں انکشاف کیا ’’ملک دیوالیہ ہوچکا ہے‘‘۔
ملکی اور عالمی سطح پر بہت لے دے ہوئی۔ پیپلزپارٹی والے حیران تھے کہ اتحادی وزیر خزانہ نے ان سے عجیب ہاتھ کیا (ویسے وہ اب بھی حیران ہی ہیں کہ ڈار نے وہ کیوں کہا تھا) اس ہنگامہ خیز پریس کانفرنس کے چند دن بعد مخلوط حکومت کے وزیر خزانہ سے ملاقات کی ’’سعادت‘‘ حاصل ہوئی۔
ان سے پوچھا، حضور یہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے والی راگنی چھیڑنے کی ضرورت کیا تھی؟ انہوں نے پانچ سات منٹ نان سٹاپ گفتگو کی۔ فقیر راحموں نے میرے کان میں کہ "شاہ جی نیا سوال کرو ورنہ ڈار صاحب نے شام کردینی ہے اور ” فیر کھانا ٹھنڈا ہوجائے گا ” ۔
سچ یہی ہے کہ ڈار صاحب بڑے عظیم ماہر معاشیات ہیں۔ ان کا اندازہ ان کی ذاتی معاشی حالت کو دیکھ کر آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ حسد کے مارے کچھ لوگ شریف برادران کی معاشی حالت کو بھی ڈار صاحب کا ’’کرشمہ‘‘ قرار دیتے ہیں حالانکہ ایسا بالکل نہیں۔
ابدی سچائی یہ ہے کہ ڈار صاحب شریف برادران تک رسائی سے قبل فقیر راحموں کی طرح ’’فُقرے‘‘ تھے اتفاق فونڈری کے پارس کو چھوا تو سونا بن گئے۔
خیر ہم اصل موضوع پر آتے ہیں۔ اسحق ڈار ہچکولے کھاتی معیشت کے نئے ناخدا ہوں گے اگر کہیں سے حکم امتناعی آڑے نہ آگیا تو ۔ ویسے امید نہیں کہ حکم امتناعی آڑے آئے گا۔ اس ہچکولے کھاتی معیشت کو ان سا جادوگر ہی سنھال سکتا ہے۔ پچھلے چند دن سے کچھ کالم نویس ان کی خوبیاں اور خامیاں بیان کررہے ہیں ایک صاحب نے تو یہ انکشاف بھی کیا کہ ڈار صاحب ہمہ وقت باوضو رہتے ہیں اور درود شریف کی تلاوت بھی کرتے رہتے ہیں۔
چلیں کوئی تو فقیر راحموں جیسا ہوا۔ ہمارے فقیر راحموں بھی اکثر باوضو رہتے ہیں، درود شریف اور سورۃ کوثر کی تلاوت کرتے رہتے ہیں۔ معاف کیجئے گا یہ فقیر راحموں کا ذکر یونہی درمیان میں آگیا۔
اسحق ڈار کہاں اور فقرائو جان ادا فقیر راحموں کہاں۔ ڈار صاحب اب اگر وزیر خزانہ بنتے ہیں جیسا کہ کہا جارہا ہے اور بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ۔ رکاوٹ کسی کونے کھدرے میں چھپی بییٹھی ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتے۔ وجہ یہی ہے کہ اس ملک میں اتفاقات، حادثات اور انہونیاں یہ سب اتنا کچھ ہوچکا کہ اب حیرانی ہوتی ہے نہ پریشانی۔
سفید پوش آدمی کو حیرانی اور پریشانی دونوں سے محفوظ رہنا چاہیے۔ان دونوں سے یاری زندگی کی خواری ہے۔ ڈار صاحب نے اگر وزارت خزانہ سنبھال لی تو اب ہے تو اتحادی حکومت ہی مگر اس میں (ن) لیگ کا پلڑا بھاری ہے اس لئے وہ ’’دیوالیہ دیوالیہ‘‘ جیسی شرلیاں بالکل نہیں چھوڑیں گے۔
ہم اور آپ ان کی جادوگری کے تماشے دیکھیں گے۔ 40ارب ڈالر ساہوکاروں کو واپس کرنے ہیں لگ بھگ 30ارب ڈالر یااس سے کچھ اوپر کا معاشی نقصان سیلاب سے ہوچکا۔
ارے ہاں سیلاب سے یاد آیا، دنیا بھر میں سندھ اور بلوچستان کے سیلاب کو بیچ کر جو امداد حاصل کی جارہی ہے وہ این ڈی ایم اے کے گوداموں میں آرام کررہی ہے۔ ممکن ہے یہ امداد گرمی اور سیلابی علاقوں کا حبس برداشت نہ کرسکتی ہو اس لئے این ڈی ایم اے کے ماہرین ٹھنڈے میٹھے موسم کا انتظار کررہے ہوں۔
ان کی نیت پر شک نہیں کیا جانا چاہیے این ڈی ایم اے والوں نے کورونا کے ایک مریض پر سخاوت کے ساتھ 26لاکھ روپے خرچ کرکے کورونا کو جس طرح شکست دی اس کے بعد کورونا نے پہلے توبہ کی اور پھر سرحد ’’ٹاپ ‘‘ کر بھاگ نکلا تھا ۔
امید واثق ہے کہ این ڈی ایم اے سیلاب کی بھی اسی ولولہ تازہ سے مرمت کرے گا اور پھر سیلاب کبھی جرات نہیں کرے گا۔
بار دیگر معافی موضوع سے بھٹک جانے کی اصل میں ڈار صاحب کی واپسی اور معیشت کی بحالی کے روشن امکانات کی خوشی بھول بھلیوں میں پھنسادیتی ہے۔
یقین کیجئے ہم "انجمن گستاخانِ ” اسحق ڈار کے رکن کیا ہمدرد بھی بالکل نہیں بلکہ ان کی معاشی جادوگری کے "دیوانے” ہیں۔ دیوانگی ہی بھٹکادیتی ہے ورنہ ہمیں بھی معلوم ہے کہ اب عالمی اداروں اور بڑے ملکوں کے ماہرین معاشیات کو ’’دندل‘‘ پڑنے والی ہے کیونکہ اب ان کا سامنا گولیاں ٹافیاں بیچنے والے مفتاح اسماعیل سے نہیں ایک جید ماہر معاشیات جناب اسحق ڈار سے پڑنے والا ہے۔
ایک بار پھر یقین کیجئے میں سو فیصد پرامید ہوں کہ جو شخص اپنی معیشت کو چار چاند لگاسکتا ہے وہ ا پنے مادر وطن کی غیروں کے سامنے سبکی نہیں ہونے دے گا۔
اسی لئے مجھے یہ بھی "یقین” ہے کہ ڈار صاحب دنیا کے ماہرین معاشیات کو وختے ڈال دیں گے اور وہ اپنے 40ارب ڈالر کی وصولی بھول بھال کر خالی چیک لئے پھریں گے کہ ڈار سے ملاقات ہو اور انہیں چیک پیش کیا جائے۔ ایک بات کہوں اسحق ڈار کی قابلیت اور حب الوطنی پر اعتراضات کرنے والے دوسرے تمام لوگوں کو تو کچھ نہیں کہنا البتہ انصافی ارسطو اسد عمر سے فقط یہ عرض کرنا ہے اسحق ڈار کو سستی جگتیں مارنے سے قبل اگر وہ صرف اپنے گریبان میں جھانک کر یہ یاد کرلیں کہ انہیں وزارت خزانہ سے ’’رخصت‘‘ کیوں کیا گیا تھا تو بہت افاقہ ہوگا۔
پس نوشت/ ایک دوست نے وجاہت مسعود کے ایک تاریخی مغالطے کی طرف متوجہ کیا تھا اس پر یقیناً بات ہوگی فی الوقت اس دوست سے درخواست ہے کہ وہ ڈار صاحب کے علم معاشیات میں سے کیڑے نا نکالا کریں کیونکہ یہ "آخری چراغ” ہے اور اگر یہ جل نہ پایا تو ” فیر اندھیرا جے ” کالا سیاہ اندھیرا ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر