گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ملک کی لگام خواتین کے ہاتھوں دے دیجائے ۔
پاکستان بننے کے بعد سے ملک پر مرد حضرات کی حکمرانی ہے ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کا چھوٹا سا دور مستثنی ہے۔ ان 75 سالوں میں مرد حکمرانوں نے قرض لے کر ۔پرائیویٹ پاور پروڈیوسر لگا کر ۔ کرپشن کی انت کر کے ملک کو غلامی کے آخری گڑھے میں دھکیل دیا۔ اب بس کرو یار ۔ملک کو خواتین کے حوالے کر دو تم فیل ہو چکے۔
میری سکول لائف پرانے لاھور میں گزری ۔ جب سڑکوں پر ڈبل ڈیکر۔ مورس ٹیکسیاں اور تانگے رہڑے گھومتے پھرتے تھے۔ویسپا سکوٹر بھی ایک سٹیٹس سواری تھی۔ لاھور کی زندگی سینماٶں سے پُر تھی۔ سر شام گلی میں چارپائیاں۔پیڑیاں بچھ جاتیں اور حقے کے دور کے ساتھ قہقہے چلتے۔ لڑکیاں علیحدہ ۔خواتین علیحدہ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھی ہنس رہی ہوتیں۔لڑکوں کا شغل سائیکل۔سڑکیں۔سینما۔ باغات اور بہترین لباس تھا۔ سکول کی لڑکیوں سے بیت بازی مقابلے میں اکثر لڑکوں کی ٹیم ہار جاتی۔آج جب ملک کے بورڈز کے امتحانات میں لڑکیوں کو ٹاپ پوزیشنیں حاصل کرتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں لڑکے پہلے بھی کودن ہی تھے..
نوٹ ۔۔ کوئ بھائ ناراض نہ ہو یہ میرا ذاتی تجربہ ہے غلط بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
”کوئی خواب میکوں اُدھارا نہ ݙیویں“ (وسیب یاترا :12)||سعید خاور
”بدن دی بھوئیں تے مُونجھ دا متام“ (وسیب یاترا :11)||سعید خاور
””سندھو سکرات وِچ اے“ (وسیب یاترا :10)||سعید خاور