حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اداروں کے سربراہ جب اپنے منصب اور حلف کے تقاضوں سے ہٹ کر سیاست میں ٹانگ اڑائیں گے تو انہیں تنقید کا بھی خندہ پیشانی سے سامنا کرنا چاہیے۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی جج کسی مقدمہ کی سماعت کے دوران ایک سیاستدان یا سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر منفی تبصروں کا شوق پورا کرے اور پھر توہین عدالت کا قانون ڈراتا بھی رہے۔
کوئی جرنیل کسی انتخابی نتیجے کو لے کر ’’اللہ ہی عزت اور ذلت دینے والا ہے‘‘ کی ٹیوٹ کرے اور جواب ملنے پر اس کے حواری کہیں کہ فوج کے خلاف بات کی گئی یہ تو ملک دشمنی ہے۔
اسی طرح یہ بات ان دوسرے لوگوں پر بھی صادق آتی ہے جو اپنے فرائض تو بجا نہیں لاتے لیکن پرائے پھڈوں خصوصاً سیاست اور امور مملکت میں ٹانگ اڑاتے پھرتے ہیں۔
ہماری عدلیہ میں سیاست افتخار چودھری سے قبل بھی موجود تھی لیکن افتخار چودھری نے عدلیہ کو ایک سیاسی جماعت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس کے دور اور بعد کے جانشینوں کے معاملات ’’اقوال زریں‘‘ اور دیگر چیزوں کو دیکھ لیجئے پتہ چل جائے گا کہ عالمی طور پر انصاف کی فراہمی کے لئے پاکستانی عدلیہ کس قابل فخر مقام پر کھڑی ہے اور اس کا نمبر کیا ہے۔
سادہ لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں ہمارے ہاں کوئی شخص اپنے حصے کا کام نہیں کرنا چاہتا۔ انجینئر دین سمجھارہے ہیں۔ ڈاکٹر مبلغ اسلام ہیں۔ سائنسدان کہلانے والے لغو سیاسی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں ، ان حالات میں مبلغ اسلام خواتین و حضرات جو سمجھارہے ہیں وہ ہے کیا یہی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔
چند دن قبل نئے عدالتی سال کے آغاز پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جن خیالات کااظہار کیا ان خیالات کا اظہار نہ ہوتا تو اچھا تھا۔ اب ان کے دو سینئر ساتھی ججز نے ایک خط لکھا یہ خط میڈیا کی زینت بھی بن گیا۔ چیف جسٹس صاحب سیاسی تقریر نہ کرتے تو یقیناً جواب آں غزل بھی نہ گنگنائی جاتی۔
بسا اوقات ان ’’معززین‘‘ کے ارشادات و جذبات دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بس نہیں چل رہا ورنہ سب کچھ خود سنبھال لیں۔
یہ سوچ ترک کرنا ہوگی۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہر شخص اور ادارہ دستور و قانون کی پابندی کرے۔ کیا سکیورٹی اسٹیٹ میں ریاست کے ساجھے دار قرار پانے والے فرائض کی حد تک محدود رہ سکتے ہیں؟
اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ بعض اداروں میں تقرریوں اور ترقیوں کے نظام کو ازسر نو دیکھنا اور تبدیل کرنا ہوگا۔ ججز کی تقرری پارلیمنٹ کے ذریعے ہونی چاہیے۔
یہاں کچھ کیا لوگوں کی اکثریت اول جھول قسم کی گفتگو کرنے لگے گی۔ خدا کے بندو جس معاشرے سے پارلیمنٹ کے ارکان اٹھ کر آئے ہیں اسی معاشرے سے ان قانون دانوں کا تعلق ہے جن میں سے جج منتخب ہوتے ہیں (معاف کیجئے ججز کی تقرری کا عمل مکمل ہوتا ہے)
ان حساس معاملات پر آپ کسی محفل میں گفتگو کرکے دیکھ لیجئے بہت ’’تیر مارے‘‘ گا کوئی تو یہ کہے گا فرشتے کہاں سے لائیں۔
بھائی آسمانی مذاہب کی متھ کے مطابق انسان فرشتوں سے افضل ہے۔ آدمیوں کے جنگل میں انسان تلاش کیجئے۔ فرشتوں کو اپنا کام کرنے دیں۔
اچھا صرف ججز کی تقرری کے نظام کو ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ دستور میں یہ لکھ دیا جانا چاہیے کہ سینئر کو سپر سیڈ کرکے کوئی شخص کسی ادارہ کا سربراہ نہیں بنایا جاسکے گا۔
جس دن یہ لکھ دیا جائے گا گھٹالے اپنی موت آپ مرجائیں گے بصورت دیگر جب تک ہم پسندوناپسند کی روش پر گامزن رہیں گے مسائل ہمارے تعاقب میں موجود ہوں گے۔
اصل میں سب کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ تمام اداروں میں اصلاحات کی ٗضرورت ہے۔ بیٹوں اور دامادوں کونوازنے کی پالیسی کے آگے دستور کی دیوارِ چین اٹھانے کی ضرورت ہے۔
یہ تاثر ختم کرنا چاہیے کہ دوسروں کو مافیا قرار دینے میں منٹ نہ لگانے والے بھی اپنے اداروں کو خاندانی ورثے یا مافیا کی سوچ پر چلارہے ہیں۔ اس سے آگے بھی کچھ باتیں ہیں وہ پھر سہی فی الوقت یہی ہے کہ خاندانوں کے سیاسی رجحانات سے عبارت بھاشنوں کی ضرورت نہیں اپنا اپنا کام کیجے دستور و قانون اور حلف کے مطابق ذمہ داریاں ادا کیجئے۔
ادھر عمران خان کی اس بات پر کہ ’’عام انتخابات کے انعقاد اور نتائج تک آرمی چیف کی تقرری موخر کردی جائے اور نتائج بعد بننے والی نئی حکومت اگلا آرمی چیف مقرر کرے‘‘۔ کو لے کر بحث جاری ہے۔ خان کے بقول اس نے ایکسٹنشن کی بات نہیں کی۔ اچھا یہ موخر کس قانون کے تحت کیا جائے آرمی چیف کی تقرری کو؟ دستور میں کچھ لکھا ہے اس بارے کوئی قانونی گنجائش ؟ ۔ جی دونوں نہیں ہیں۔
عمران خان اپنے علاوہ کسی کو محب وطن اور ایماندار نہیں سمجھتے حالانکہ وہ بھی ’’عدالتی صادق و امین‘‘ ہی ہیں ۔ ان کے بھی بہت سارے معاملات ویسے ہی جیسے وہ اپنے مخالفین کے بیان کرتے ہیں پھر ان کی خواہش پر آرمی چیف کی تقرری موخر کیوں کی جائے۔
یہ معاملہ قانون کے مطابق مقررہ وقت پر نمٹانے میں امر مانع کیا ہے۔ کیا ان تک ان کی پارٹی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر کی ایک عسکری شخصیت سے حالیہ ملاقات کے دوران ہوئی گفتگو نہیں پہنچی؟ بہتر ہوگا وہ اسد عمر سے پوچھ لیں کہ ملاقات کے ساتویں منٹ میں وہ عجلت میں اجازت لے کر کیوں پتلی گلی سے نکل لئے؟
خود عمران خان اور آرمی چیف کے درمیان ایوان صدر میں ہوئی حالیہ ملاقات (اس کا انکشاف اسحق خاکوانی نے کیا) پر کیا یہ پوچھا جاسکتا ہے اپنے دور اقتدار میں اس وقت کے اپوزیشن رہنمائوں کی عسکری حکام سے ملاقاتوں کا جس طرح ٹھٹھہ اڑاتے ہوئے زبان دانی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے وہ کیسے درست تھا اور ان کا ملنا کیسے درست؟
یہ بجا ہے کہ ان کے عقیدت مندوں نے میر جعفر میر صادق، ایکس وائی زیڈ والی اصطلاحات کو پَر لگائے تھے امریکی سازش کے راگ الاپے تھے اب وہ سازش کہاں گئی اور میر جعفر میر صادق کیا ہوئے؟
دوسروں کو بے اصولی کی جگتیں مارتے عمران خان کا بھی کوئی حقیقی سیاسی نظریہ ہے نہ اصول ۔ بس مرکزی کردار رہنے کے لئے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
چند دن قبل ان سطور میں ان کے اس اعتراف کا دوتین بار ذکر کیا تھا کہ ’’مجھے سیاستدانوں کی کرپشن بارے ایجنسیاں بتاتی رہیں‘‘
اب سوال یہ ہے کہ جب انہی ایجنسیوں والوں نے ان کے انتہائی قریبی لوگوں کی کرپشن بارے انہیں اطلاع دی تو ان کا موڈ کیوں خراب ہوگیا؟
تحریر نویس کو چند برس بلکہ پیپلزپارٹی دور کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ اس وقت کے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی اور ایک ایجنسی کے سربراہ ایوان صدر میں آصف علی زرداری (اس وقت صدر مملکت) کو ملنے گئے۔ ملاقات کے دوران کیانی اور پاشا نے پیپلزپارٹی کے بعض وزراء اور چند دیگر لوگوں کی کرپشن کی اخباری داستانوں کا ذکر چھیڑدیا۔
اسی دوران جنرل پاشا نے ایک فائل کیانی کی طرف بڑھائی درمیانی میز پر وہ فائل رکھ دی گئی۔ عین اسی لمحے صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی سائیڈ ٹیبل پر رکھی دو فائلیں سامنے رکھتے ہوئے کیانی کے بھائی اور پاشا کے دو عزیزوں کے کاروبار اور چند دوسرے معاملات پر بات کرتے ہوئے کہا
’’عزیزوں کے کاروبار اچھے تو جارہے ہیں کوئی پریشانی تو نہیں‘‘؟ دونوں نابغوں کے "چراغ گل” ہوگئے۔
اس واقعہ کا اس کالم سے کوئی لینا دینا نہیں بس یاد آگیا تو عرض کردیا لیکن اس کے بعد جناب کیانی اور پاشا کی جوڑی نے پیپلزپارٹی کی حکومت کے ساتھ عدالتوں، میڈیا اور دوسرے میدانوں میں جو سلوک کروایا وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔
اس ملاقات کے بعد ہی ’’عجب کرپشن کی غضب کہانی‘‘ والی ڈرامہ سیریز نشر ہونا شرع ہوئی۔ میمو گیٹ ہوا اور نوٹس پہ نوٹس۔ ازخود نوٹسوں کی اس ’’بہار‘‘ بارے فقیر راحموں نے ایک اصطلاح ایجاد کی تھی وہ یہاں لکھنے سے قاصر ہوں۔
آج کی معروضات پیش کرنے کے فقط دو امر ہیں اولاً یہ کہ جس کسی کو سیاست کا شوق اور خاندانوں و اہلخانہ کا سیاسی نظریہ اور عشق چین نہیں لینے دیتے وہ عہدہ چھوڑے اور سیاست کے میدان میں اتر آئے۔
ثانیاً یہ کہ سیاست دانوں کی کرپشن کہانیاں اگر ماضی میں سچی تھیں کیونکہ محب وطن ایجنسیوں نے بتائی تھیں تو یہ کرپشن کہانیاں خان کے پونے چار برسوں کے دور اقتدار کے حوالے سے بھی درست ہی ہوں گی۔ کچھ باتیں مزید ہیں وہ پھر سہی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ