حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی چند دن قبل ہی بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بھاری بھرکم فیول چارجز کے خلاف صارفین کے احتجاج پر وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ فیول چارجز کی مد میں صارفین کو رعایت دے رہے ہیں بعد ازاں اس رعایت کا نوٹیفکیشن صارفین کے ساتھ سنگین مذاق سے کم نہیں تھا۔ وزیراعظم کے اعلان کے برعکس متعلقہ حکام کی طرف سے کہا گیا فیول چارجز واپس لئے جانے کی رعایت سے6 ماہ سے ماہوار 100یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے علاوہ 200یونٹ ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے مستفید ہوسکیں گے۔
مزید عوامی ردعمل سامنے آیا تو اعلان کیا اگیا کہ یہ رعایت 300یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والوں کے لئے ہے۔
اب بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے فیول چارجز کے حوالے سے رعایت عارضی تھی۔ 100سے 300 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے جن صارفین نے اس سے استفادہ کیاہے انہیں یہ رقم 6اقساط میں ادا کرنا ہوگی۔
اس بات کی تصدیق وفاقی وزیر خرم دستگیر کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ ” فیول سرچارج معاف نہیں مئوخر کیا گیا ہے ” اصولی طور پر تو اب وزیراعظم کو وضاحت کرنی چاہیے کہ انہوں نے جس ’’انسانی ہمدردی‘‘ کا مظاہرہ کیا تھا وہ واقعتاً شہریوں کی حالت زار دیکھ کر کی گئی دلجوئی تھی یا وقتی طورپر عوامی احتجاج سے جان چھڑانے کی کوشش؟
یہ وضاحت اس لئے بھی ضروری ہے کہ گزشتہ روز ماہ ستمبر کے بجلی بلوں میں 4روپے 37پیسے فی یونٹ فیول چارجز کی مد میں وصولی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔
کے الیکٹرک کے سوا ملک بھر کے بجلی صارفین ماہ ستمبر کے بجلی کے بلوں کے ذریعے حکومت کو 59ارب روپے کی اضافی ادائیگی کریں گے۔
اضافی ادائیگی صرف ایک مد تک ہی محدود نہیں بجلی کے صارفین مختلف ٹیکسوں کے علاوہ ہر ماہ 45سے 63ارب روپے اور گاہے اس سے بھی زیادہ رقم فیول چارجز کے نام پر ادا کرتے ہیں۔ حکومت کے پالیسی اور فیصلہ ساز عوام کو یہ بتانے کی زحمت بھی فرمادیں گے کہ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے پٹرولیم مصنوعات کی بین الاقوامی منڈی میں قیمتیں بتدریج کم ہورہی ہیں تو اس کا فائدہ پٹرولیم اور بجلی کے صارفین کو کیوں نہیں پہنچتا؟
نیز یہ کہ کیا بجلی کی مجموعی پیداوار ایندھن ( فیول ) سے ہی ہورہی ہے کہ صارفین ہر یونٹ پر فیول چارجز ادا کریں؟
ہر دو سوالات کا جواب اس لئے بھی ضروری ہے کہ رائے عامہ کا ایک بڑا طبقہ فیول چارجز کو "زبردستی” کی وصولی قرار دیتا ہے اس کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت ایندھن ( فیول ) کے علاوہ پن بجلی کے اور چین کی مدد سے لگائے ایٹمی توانائی کے مراکز سے بھی پیداواری عمل جاری ہے۔
اسی طرح پنجاب میں غیرملکی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے یونٹوں کے علاوہ تھر میں مقامی کوئلے سے بھی بجلی کی پیداوار کا عمل جاری ہے۔ ان تینوں اقسام سے پیدا ہوئی بجلی بھی وفاقی سسٹم میں شامل کر کے صارفین کو تقسیم کار کمپنیوں کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے۔
صارفین کا سوال یہ ہے کہ جو بجلی ایٹمی توانائی، پانی اور کوئلے سے بنائی جارہی ہے اسے وفاقی سسٹم میں شامل کرکے ہر ماہ استعمال ہونے والی بجلی پر فی یونٹ فیول چارجز کی وصولی کہاں کا انصاف ہے؟
بجلی کی ترسیل پر مامور کمپنیاں 20ہزار 5سو 58روپے 65پیسے کی استعمال شدہ بجلی کے بل میں 12ہزار 7سو 43 روپے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اور 4 ہزار 950 روپے جی ایس ٹی کے علاوہ دیگر ٹیکسز ڈال کر ایک صارف سے جس نے 755 یونٹ بجلی استعمال کی ہے مجموعی طور پر 43ہزار روپے وصول کرلیتی ہیں۔
یہی وہ بنیادی نکتہ اور سوال ہے کہ کیا صارف نے جو 755 یونٹ بجلی استعمال کی وہ فیول سے بنائی گئی تھی؟
یقیناً ایسا نہیں ہے کیونکہ نیشنل سسٹم میں مختلف طریقوں سے بنائی جانے والی بجلی شامل ہوتی ہے۔ یہی حقیقت ہے اس طور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بجلی کی ترسیل کیلئے نیشنل سسٹم کا کاروبار سامراجی ذہنیت سے عبارت ہے
حالانکہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز صرف بجلی کے اسی پیداوار کے حصہ پر نافذ ہونا چاہیے جو فیول سے پیدا کی جارہی ہے۔
ہم ایک بار پھر وفاقی حکومت اور بالخصوص وزیراعظم کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ فیول چارجز کی طرح پی ٹی وی کی اقساط میں وصول کی جانے والی فیس بھی صریحاً ظلم ہے۔
ملک کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں تک میں عشروں سے کیبل سسٹم رواج پاچکا، کیبل سسٹم سے استفادہ کرنے والے صارفین کی 98 فیصد تعداد پی ٹی وی دیکھتی ہی نہیں ان سے اس فیس کی وصولی کیوں؟
ملک میں مہنگائی پچھلے پانچ ماہ کے دوران جس تیزی سے بڑھی اس نے ہر شخص کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ بجلی کے صارفین کی ایک عمومی شکایت مقررہ تاریخ پر میٹر ریڈنگ کی بجائے دو تین دن بعد ریڈنگ کے حوالے سے ہے جس کی وجہ سے استعمال شدہ یونٹس پر نرخوں کی درجہ بندی کے حوالے سے اگلے درجہ کے نرخ کا اطلاق ہوتا ہے۔
ایک عام گھریلو صارف جس کی ماہانہ آمدنی اوسطاً 20سے 28ہزار روپے ہے اسے 10سے 15ہزار روپے بجلی کا بل موصول ہوتا ہے مکان کا کرایہ گھریلو اخراجات اور دوسرے مسائل نے اس کی زندگی میں جو تلخیاں بھردی ہیں ان کا کسی کو اندازہ ہی نہیں خصوصاً ان پالیسی سازوں کو جو ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کردیتے ہیں۔
اندریں حالات یہ مطالبہ درست ہے کہ اولاً حکومتی بجلی کے 3سو یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والے صارفین کو فیول چارجز معاف کردے۔ ثانیاً اس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کو بھی اس مد میں پٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمتوں میں ردوبدل کے حساب سے رعایت دے۔ ثالثاً ٹیکسوں کی بھرمار سے صارفین کو نجات دلائی جائے۔
ہمیں امید ہے کہ ارباب اختیار شہریوں کی آمدنی و اخراجات میں عدم توازن، مہنگائی سے پیدا ہوئی صورتحال اور دوسرے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالیں اور ایسے فیصلے نہ کریں جن سے شدید عوامی ردعمل کے جنم لینے کا خطرہ دوچند ہوجائے۔
وفاقی حکومت کو بہت سنجیدگی کے ساتھ عام شہریوں کے مسائل پر توجہ دینا ہوگی کیونکہ اس کی پالیسیوں نے عام شہری کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کردیا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر