دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انار کلی کی شامیں…||رسول بخش رئیس

علم کی دولت کے ہم اس وقت دعوے دار تھے‘ نہ اب ہیں۔ مگر بھلے وقتوں میں اس بھٹی سے گزرکر آئے تھے جس کا کوئی معیار بنتا ہے۔ ہمارے پاس کتابیں تھیں‘ پڑھانے کا تجربہ تھا‘مگر مالی حالت سب کی بہت پتلی تھی۔ ملک سوشلز م کے عذاب سے ابھی تک نہیں نکل پایا تھا ۔ مگر وہ ایسا زمانہ تھا کہ دو تین سو کی فیس پرکوئی ادارہ ہمیں لیکچر دینے کے لیے دعوت دیتا تو ہم خود کو خوش قسمت سمجھتے تھے۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی تک گزرے وقتوں کی رونقوں نے ہمیں سحر زدہ کررکھا ہے۔ لاہور اور انارکلی وہ نہیں رہے جو کبھی تھے مگر ہم ابھی تک وہی ہیں۔ ناصر کاظمی سے معذرت کے ساتھ‘ یہ تصور اُن کی غزل سے لیا ہے۔ کبھی کبھار وہ یادیں‘ وہ باتیں‘ وہ گلیاں اور وہ جگہیں زبردستی کھینچ کر وہ نقش قدم تلاش کرنے پر ہمیں آمادہ کر لیتی اور ہمارے قدم روک لیتی ہیں جہاں سے ہم کبھی گزرے تھے۔ کچھ دھندلی تصویروں کو ذہن کے گوشوں سے آنکھوں کے سامنے آویزاں کرتے ہوئے بے ساختہ چل پڑتے ہیں۔ زندگی کا وہ حصہ جب خواب اور آفاقی سچائیاں باہم گڈ مڈ ہو جائیں‘ وہاں حقیقت کی کون پروا کرتا ہے۔ بلکہ حقیقتیں خواب ہی بن جاتی ہیں۔ زمانے بدل گئے‘ اکثر بزرگ زندگی کے میلوں میں گم ہوگئے۔ اعلانِ گمشدگی کا اشتہار اب دل کے اندر ہی لگتا ہے۔ بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ اس وقت باہر اور اندر کا موسم اشتعال دلا رہا ہے۔ آپ بھی تو ہمارے حلقے میں ہیں۔ آپ سے اس صفحے کے توسط سے کچھ باتیں ہو جاتی ہیں۔ آپ پسند کریں‘ خفا ہو جائیں‘ نیم دلی سے بات کہہ ہی دیتے ہیں مگر حجاب کی ہماری روایت ایسی ہے کہ اس کو توڑنے کے لیے جرأتِ رندانہ چاہیے۔ یوں سمجھ لیں کہ ہم بھی وہ نہیں رہے اور لاہور بھی وہ نہیں رہا۔ ہمیں تو وقت کی آندھیوں نے ہلا ہلا کر بے حال کردیا اور لاہور کو حکمران طبقات دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر چکے۔ پرانا لاہور دیکھنے کو نکلتے ہیں تو وہی پہلی ملاقات کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے‘ نصف صدی سے کچھ عرصہ بعد۔ انارکلی کا بازار بھی ہے‘ جامعہ پنجاب کا پرانا کیمپس‘ عجائب گھر اور مال پر ابھی تک الفریڈ وولنر کا مجسمہ جو زمانے کی چیرہ دستیوں سے محفوظ ہے۔ مگر جو کچھ ہم دیکھنے کو نکل جاتے ہیں‘ کہیں نظر نہیں آتا۔ وقت کے گزرتے لمحات بہت کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے گئے ہیں۔
گزشتہ اتوار کو دل مچلا تو ارادہ باندھ لیا۔ ملنا تو اپنے دیرینہ دوست افتخار حیدر ملک سے تھا کہ وہ تقریباً تین عشرے برطانیہ کی جامعات میں پڑھانے کے بعد اب واپس اپنی پہلی دانشگاہ‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک سال کے فیلو شپ پر پڑھانے اور تحقیق و تالیف کی غرض سے آئے ہیں۔ پتہ نہیں آپ میں سے کتنے لوگ اُن کے نام سے مانوس ہوں گے یا عالمی سطح پر نام کمانے والے اس مورخ کو جانتے ہوں گے؟ جب لوگوں کو یہ لکھتے ہوئے دیکھتا ہوں کہ ہم نے کون سا بڑا مورخ پیدا کیا ہے تو جی چاہتا ہے کہ کوئی دیسی ڈنڈا‘ وہی جو دیہات میں استعمال ہوتا ہے‘ لے کر ان کی تلاش میں نکل پڑوں۔ اگر آپ کچھ پڑھنے سے کسی وجہ سے لاتعلق ہیں یا کسی خاص علمی شعبہ میں جو کام ہورہا ہے‘ سے ناواقف ہیں پھر آپ کچھ کہنے اور لکھنے سے پہلے کسی سے بات ہی کر لیں۔ تاریخ وہ نہیں ہو سکتی جس کا خاکہ آپ کے ذہن میں ہے۔ تاریخ زمانے کے تناظر اور اس کے کلیدی مباحث‘ تنازعات‘ ترقی‘ نظریاتی اور سیاسی کشمکش کو سامنے رکھ کر لکھی جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک درجن کے لگ بھگ کتابیں لکھی ہیں جنہیں برطانیہ اور امریکہ کے مشہور پبلشروں نے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر ملک مجھ سمیت تمام ہم عصروں سے آگے ہیں۔ بہت پہلے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ گئے اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد قائداعظم یونیورسٹی میں واپس آگئے۔ ایک سال بعد ہماری بھی واپسی ایسے ہی ہوئی۔ ویسی ہی سند کا ٹکرا لہراتے ہوئے ان کے رفیق کار بن گئے۔ ہمارے اور بھی دوست تھے جو 80ء کی دہائی کے پہلے برسوں میں چالیس سال قبل کچھ خواب سنبھالے وطنِ عزیز آئے تھے۔
علم کی دولت کے ہم اس وقت دعوے دار تھے‘ نہ اب ہیں۔ مگر بھلے وقتوں میں اس بھٹی سے گزرکر آئے تھے جس کا کوئی معیار بنتا ہے۔ ہمارے پاس کتابیں تھیں‘ پڑھانے کا تجربہ تھا‘مگر مالی حالت سب کی بہت پتلی تھی۔ ملک سوشلز م کے عذاب سے ابھی تک نہیں نکل پایا تھا ۔ مگر وہ ایسا زمانہ تھا کہ دو تین سو کی فیس پرکوئی ادارہ ہمیں لیکچر دینے کے لیے دعوت دیتا تو ہم خود کو خوش قسمت سمجھتے تھے۔ افتخار اور میں سر جوڑ کر بیٹھتے‘ کافی کادور چلتا‘ اپنے پائپوں سے تمباکو کے مرغولے کمرے میں چھوڑتے اور باہر کہیں امریکی جامعات میں فیلو شپ پر اپلائی کرنے کا سوچتے۔ ہمارے غیر نصابی مشاغل ‘ امریکی تعلیم اور ٹاٹ سکولوں سے نکل کر مغرب کی جامعات میں جگہ بنانے تک یکساں ہیں۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں کچھ سال پڑھایا ہے ا ور پھر ایک اور برطانوی یونیورسٹی میں پڑھتے رہے ہیں ۔ تقریباً دس پندرہ سال قائداعظم یونیورسٹی میں رہے ہیں ۔ ان کی علمی خدمات تو اپنی جگہ پر ‘ وہ خاص تلہ گنگ کے ہیں۔ ایک مرتبہ جب امریکہ جارہا تھا تو طے پایا کہ پہلے آکسفورڈ میں ان کے پاس چند دن کے لیے ٹھہروں۔ کہا کہ اُن کے گائوں والے کچھ چیزیں دیں گے تو وہ ساتھ لیتا آئوں۔ کھول کر دیکھا تو چیڑھ کا حلوہ اورمونگ پھلیاں تھیں۔ مرتا کیا نہ کرتا‘ لے تو آیا لیکن ڈررہا تھا کہ کسٹم والے انگریزنکال کر باہر نہ پھینک دیں ۔ چکوال کے لوگوں کی قسمت ویسے ہی اچھی ہے ‘ مگر ملکوں کے کیا کہنے ! کمال ہے کہ ہمارے دشمنوں نے صرف وہی سوٹ کیس کھولا جس میں کتابیں تھیں۔ اُنہوں نے مودبانہ سلام کیا اور جانے کا اشارہ کردیا ۔ افتخار ملک کو پتہ نہیں یاد بھی ہوگا کہ نہیں‘ جب اس نے تلہ گنگ کی سوغات دیکھی تو اس کی آنکھوں کی چمک قابلِ دید تھی ۔ اتوار کوہم ملے تو فوراً اپنے زمانے کا لاہور ڈھونڈنے نکل پڑے ۔ ناصر باغ کے سامنے فٹ پاتھ پر چلنے لگے تو ہر قدم پر کہتے کہ دیکھویار گٹرپر ڈھکن ہے یا نہیں ۔ وہ اس دن ذوالفقار علی بھٹو کے گول باغ کے جلسے میں تھے جب اُنہوں نے اس کا نام ناصر باغ رکھ دیا تھا۔چلتے ہوئے جامعہ پنجاب تک پہنچے ‘ ہر جگہ فٹ پاتھ ٹوٹے ہوئے تھے ‘ کئی جگہوں پر گٹروں سے گندہ پانی بہتے بہتے ٹھنڈی سڑک کے کنارے گارے کی صورت جمع تھا۔ ہم اُس زمانے میں بدبو کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ساری مال روڈ کا یہی حال ہے ۔ ہماری منزل پاک ٹی ہائوس تھا جہاں ہمارا طالب علمی کے زمانے میں آنا جانا تھا۔ باہر گندگی دیکھ کر پوچھنے لگے کہ یہ بند تو نہیں؟ آثار ایسے ہی دکھائی دیتے تھے۔ کوشش کرکے دروازے کو دھکا دیا تو اندرچند لوگ موجود تھے ۔ ناصر کاظمی کی تصویر کے نیچے لگی میز پر جگہ بنا لی۔چائے کی درخواست کی تو مشین میں بنی بنائی چائے جو بسوں کے اڈوں پر آپ کوملتی ہے‘ پتی والی چائے کا پوچھا تو کہا کہ وہ اب یہاں نہیں بنتی۔ دوحضرات اتنی اونچی آواز میں باتیں کررہے تھے کہ وہاں بیٹھنا محال ہوگیا ۔ زہر مار کر کے کپ انڈیلا اور انارکلی کی طرف چل پڑے۔ ہر طرف رکشے ‘ موٹر سائیکل‘ ریڑھیاں‘ اور ہوا میں لہراتے پلاسٹک کے بیگوں نے چند ہی لمحوں میں ہمارے انارکلی کے رومانس کا دھڑن تختہ کردیا ۔
افتخار کو آئے ہوئے صرف دو ہفتے ہوئے ہیں مگر وہ انار کلی کے چکر پہلے بھی لگا چکے تھے ۔ کہاں گئیں وہ کتابوں کی دکانیں؟ کہاں گئے وہ چائے خانے؟ کہاں گئی وہ بازار کی صفائی ؟ بس کچھ پرانی عمارتیں اپنے حال پر نوحہ کناں دکھائی دیتی ہیں ۔ گٹروں کے بہتے ہوئے پانی اور گندگی سے بچتے بچاتے گورنمنٹ کالج میں آکر دم لیا۔ میں نے کہا کہ گاڑی میں چلتے ہیں مگر پرانے وقتوں کی یادیں ہمیں کب چین لینے دیں گی ۔ خیال تھا کہ لاہور کے وارث ابھی تک موجود ہیں مگر معلوم نہیں وہ کہاں ہیں؟ شاید وہ سیاسی خاندانوں اور بیوروکریسی کی دھاندلیوں سے تنگ آکر ہماری طرح گوشہ نشین ہوچکے ہیں۔ کاش اپنا لاہور ہمیں دوبارہ مل جائے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author