دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مسائل کیسے حل ہوں؟…||رسول بخش رئیس

اپنے آپ کو مقدمات سے نکالا ہے اور پھر عمران خان اور ان کی جماعت کے رہنماؤں کے خلاف اتنے مقدمات قائم کیے ہیں کہ ان کا شمار بھی ناممکن ہے۔ آپ سوچیں گے کہ ایسی سیاست میں ملکی مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں؟ امیدیں کیونکر باندھیں؟ اب تو خواب دیکھنے کو بھی جی نہیں کرتا۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یوں تو ہمیشہ سے ممالک بھی مسائل کی زد میں رہے ہیں اور انفرادی طور پر عام انسان بھی اور یہ سلسلہ زندگی کے ساتھ چلتا رہتا ہے‘ ممالک کا حال البتہ مختلف ہے۔ ریاستوں کی آبادیاں پھیل رہی ہیں‘ نئی معیشتوں نے پرانے معاشروں کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں‘ جوں جوں صنعتی دور آگے بڑھا‘ معیارِ زندگی بلند سے بلند تر ہوتا گیا تو لوگوں نے نئے پیشے اختیار کیے۔ لوگوں نے آبائی دیہات کو خیر باد کہا اور شہروں میں آباد ہونے لگے۔ لیکن جگہ بدلنے سے مسائل ختم نہیں ہوتے‘ ان کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں جا کر رہائش اختیار کرلیں‘ بدلتے ہوئے انسانی معاشروں اور حیثیت کے ساتھ ریاست کے لیے کچھ پرانے مسائل ختم ہوتے ہیں تو نئے شروع ہو جاتے ہیں۔ آج تک دنیا کی کوئی ایسی ریاست دیکھی ہے نہ اس کے بارے میں پڑھا ہے جسے آئے روز نت نئے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو۔ جدید دور کی حرکیات ہی کچھ ایسی ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ہم جیسے ممالک کو بے شمار چیلنجز درپیش ہیں جن میں سے اکثر ہمارے مہربان حکمران گھرانوں کے ہی پیدا کردہ ہیں۔ یہ مسائل اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ایک جانب سے درست کرنے کی کوشش کریں تو دوسری جانب پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔ غربت‘ بے روزگاری‘ پسماندگی اور بدعنوانی کے ساتھ ساتھ کمزور اور غیرفعال ریاستوں میں مسائل کا ایسا انبار دیکھنے میں آتا ہے کہ دیکھتے ہی دل گھبرا جاتا ہے۔ مسائل حل کرنا جن کی ذمہ داری ہے‘ وہ وقت گزاری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے تو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ مسائل اور ریاستی زندگی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں‘ ہر جگہ ایسا ہی ہے‘ ان کی نوعیت قدرے مختلف ہو سکتی ہے۔ دوسری بات اس سے بھی اہم ہے کیونکہ اس کا تعلق انسانی فطرت سے ہے۔ ہر معاشرے میں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ فرد‘ کمپنیاں‘ صنعتی تاجر‘ پیشہ ور لوگ اور سیاست دان ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنے اپنے مفاد کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں انسان بستے ہوں گے‘ وہاں اختلافِ رائے بھی ہو گا۔ نظریات‘ مذاہب کے ثقافتی رنگ‘ عادات‘ روایات اور شناختیں ہم آہنگ نہیں ہو سکتیں۔ ایسے میں مسائل کا پیدا ہونا فطری عمل ہے کہ ہر شخص قانون اور قاعدے کے مطابق نہیں چلتا۔ جس کا بس چلتا ہے دوسروں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ مغرب کی ایسی ریاستوں میں بھی جہاں قانون کی حکمرانی کی مثالیں دی جا سکتی ہیں‘ اس نوع کے جرائم بھی ہوتے ہیں۔ سیاسی کشمکش تو اب عالمگیر جہت اختیار کر چکی ہے۔ یہ ہر ملک میں دکھائی دیتی ہے‘ لیکن وہ ممالک اس کی زیادہ آماجگاہ ہیں جہاں جمہوری روایات کمزور اور مسائل زیادہ ہیں۔
مسائل تو پیدا ہوتے رہتے ہیں‘ اور گروہوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان مفادات کا تصادم بھی رہتا ہے‘ تو پھر مسائل کیسے حل کیے جا سکتے ہیں؟ صرف جمہوری ممالک کی ہی بات کر رہا ہوں اور ہم بھی انہی ممالک میں شامل ہیں جہاں جمہوریت کے نام پر کھوٹے سکے چلنے کا رواج ہے۔ خالص جمہوریت میں اس تصور یا نظریہ کا مطلب ہرگز نہیں کہ آپ ایک مرتبہ اکثریت حاصل کر لیں تو پھر بادشاہ بن کر بیٹھ جائیں۔ اکثریت کے ساتھ ہی اقتدار کا جواز ملتا ہے لیکن ملکی مسائل کے حل کے لیے حزبِ اختلاف کے ساتھ مل بیٹھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ امریکہ کے صدارتی نظام کی ادارہ جاتی ترتیب اور اختیارات کی تقسیم ایسی ہے کہ صدر یا کانگریس میں اکثریتی پارٹی اگر یک طرفہ قانون یا پالیسی بنانے کی کوشش کرے تو اسے بے شمار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برطانیہ کا پارلیمانی نظام ہو یا ہمارا‘ اکثریت کی راہ میں کھڑے ہونا مشکل ہوگا‘ مگر برطانیہ میں کوشش یہ ہوتی ہے کہ دونوں جماعتیں مشاورت سے پیچیدہ ملکی مسائل کا حل نکالیں‘ ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیابی نہ ہو تو اکثریت اپنا راستہ بنا لیتی ہے۔
مضبوط اور کمزور جمہوریت میں روایات‘ رواداری اور ایک دوسرے کے احترام کا فرق ہے۔ اگر اکثریت حاصل کرنے والی جماعت اپنا منشور عوام کے سامنے رکھ کر اکثریت کی تائید حاصل کرتی ہے تو وہ اپنا پروگرام قانون اور پالیسیوں کو تبدیل کرکے نافذ کرنے میں حق بجانب ہوگی۔ پھر بھی ملکی مسائل میں حزبِ اختلاف کی رائے کو یکسر رد کرنا‘ من مانی کرنا جمہوری روایات کے منافی خیال کیا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں تو مسائل کی نوعیت ایسی ہے کہ کوئی ایک جماعت یا کوئی تیرہ جماعتی اتحاد اپنے طور پر انہیں حل اس لیے نہیں کر سکتا کہ حزبِ اختلاف کو ساتھ نہ رکھا جائے تو جتنا بھی بہتر سے بہتر حل نکالنے کی کوشش کریں وہ سیاست بازی کا شکار ہو جاتا ہے اور اس سے پیچیدگیاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ مسائل آپ کو کیا گنوائیں‘ سیاسی اور معاشی جسم کا کون سا مرض ہے جو ہمیں لاحق نہیں۔ آبادی میں بے تحاشا اضافے اور شہروں کی بے ہنگم وسعت کو تو ہمارے سیاستدان مسائل میں شمار ہی نہیں کرتے۔ آبادی‘ پیداواری زمینوں اور شہروں کا انتظام ریاست کی ذمہ داری ہے۔ دہشت گردی کو دیکھ لیں‘ دم نہیں لینے دیتی۔ دوسری جانب کرپشن‘ غیر فعال حکومتی ادارے‘ انصاف کے بند دروازے اور حکومتی انتظام میں چلنے والے اداروں کے ہوشربا خسارے بھلا کس سے پوشیدہ ہیں؟ اگر ایسا ہے تو اس لیے کہ ہمارے حکمرانوں کی نظریں کہیں اور مرکوز ہیں۔ اُن کی توجہ کا مرکز ان کے اپنے مفادات ہیں‘ نہ کہ ان مسائل کا حل۔
پاکستان کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو حل نہ ہو سکتا ہو۔ جو بھی حالات ہوں‘ اور مسائل کی جو بھی نوعیت ہو‘ کوئی بہتر حل نکالنے کی گنجائش ہر معاشرے میں موجود رہتی ہے۔ یہ صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان مکالمے اور بات چیت سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ہمارے مسائل اس لیے حل نہیں ہوں گے اور ہم عوام ان کا سامنا اس لیے کرتے رہیں گے کہ ہمارے سیاسی قائدین مذاکرات کی میز پر بیٹھنا تو درکنار‘ ایک دوسرے سے مصافحہ تک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ باہمی احترام اور رواداری گزرے وقتوں کی دھند میں کہیں غائب ہو چکی ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تصادم‘ تناؤ‘ لڑائی اور بدکلامی ہمارے حکمران ٹولوں اور ان کے زیر سایہ کام کرنے والے کارندوں کا شیوا بن چکی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تلخیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں‘ فاصلے بڑھ جاتے ہیں اور سیاسی فضا مکدر ہو جاتی ہے۔ ایک طرف مسائل کا انبار ہے جو ہمیں دوسری اقوام کے مقابلے میں پستی کی جانب دھکیل رہا ہے تو دوسری طرف حکمرانوں کے درمیان نہ ختم ہونے والی سیاسی جنگ ہے جس میں صرف عوام کے ارمانوں کا خون ہوتا ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت تو حکومت سے آؤٹ ہوگئے‘ اب تیرہ جماعتوں پر مشتمل ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی اتحاد حکمران ہے تو ملکی مسائل کے حل کا منشور پیش کرنا کون سا مشکل کام ہے؟ ابھی تک جو کام اُنہوں نے کیے ہیں‘ وہ تو نیب کے پر کاٹے ہیں‘ اپنے آپ کو مقدمات سے نکالا ہے اور پھر عمران خان اور ان کی جماعت کے رہنماؤں کے خلاف اتنے مقدمات قائم کیے ہیں کہ ان کا شمار بھی ناممکن ہے۔ آپ سوچیں گے کہ ایسی سیاست میں ملکی مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں؟ امیدیں کیونکر باندھیں؟ اب تو خواب دیکھنے کو بھی جی نہیں کرتا۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author