رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ ناراض ہیں۔ یہ صرف پاکستان کی بات نہیں‘ مشرق سے مغرب تک ‘ سب ملکوں میں بے چینی ہے ۔ کچھ ملکوں میں تو خانہ جنگی کی کیفیت ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ‘عراق‘ شام‘ لبنان‘ یمن اور لیبیا کو دیکھ لیں۔ قریب ہی سری لنکا میں عوام نے چند ہفتے احتجاج جاری رکھا تو حکمران خاندان کو ملک اور اقتدار چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ مغربی جمہوریتوں میں سیاسی استحکام تو بظاہر قائم ہے مگر سیاسی تقسیم آخری حدوں کو چھو رہی ہے ۔ وہاں ترقی پسند لبرل کچھ زیادہ ہی لبرل ہورہے ہیں اور قدامت پسند اپنے نظریات میں پہلے سے زیادہ مذہبی‘ پرانی روایات اور جارحیت پسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ نسلی تضادات اور طبقاتی تنائو کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں ۔ تیسری دنیا کے ممالک سے تعلق رکھنے والے نسلوں سے مقیم اور نئے تارکین وطن خود کو غیر محفوظ خیال کرتے ہیں ۔ امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے ساتھ تو مدتوں سے ناروا سلوک کیا گیا۔ انہیں قانونی طور پر برابری کے حقوق تو ضرور ملے مگر اس کے پیچھے تقریباً ایک صدی پر محیط فکری‘ علمی ‘ ادبی اور عملی جدوجہد کارفرما ہے ۔ حالات آج بھی نسلی تقسیم اور انتشار کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ افریقی ممالک میں تو زیادہ تر ریاستی نظام مفلوج ہے ۔ یہی حالات اکثر لاطینی امریکہ کے ممالک کے ہیں ۔ ہر جمہوری اور غیر جمہوری ملک میں عوام کا اعتماد سیاست دانوں سے اُٹھ چکا۔ امریکہ جو دنیا کی بہترین جمہوریت تصور کیا جاتا ہے ‘ وہاں لوگوں کا انتخابی عمل کانگریس ‘ میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے بارے میں اعتماد تاریخ کی نچلی ترین سطح پر ہے ۔ ہمارے اپنے جو حالات ہیں آپ کے سامنے ہیں ۔ آج سے نہیں‘ گزشتہ چوالیس برسوں سے اکھاڑ پچھاڑ‘ گرائو ‘ بھگائو‘ انہیں نکالو‘ خود آئو کی سیاست میں ہم نے اپنا بہت نقصان کرلیا ۔
بہت کم ممالک ہیں جو بظاہر سیاسی تقسیم کی زد میں نہیں آئے ‘ مگر اس نظام کی وجہ بادشاہی اور آمرانہ نظام ہے جو آزادیٔ رائے اور فکری آزادی پر دبائو رکھتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ آمریت اور آزادی ایک ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں ؟ آخر لوگ کیوں ناراض ہیں ؟ بنیادی وجہ طاقت اوردولت کا محدود طبقے میں ارتکاز ہے ۔ مسائل اور بھی ہیں ۔ ریاستیں لوگوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔ انصاف سے میرا مطلب صرف وہی نہیں جو عدالتوں میں صرف خوش نصیبوں کو ملتا ہے بلکہ ایسا نظام جہاں لوگوں کو یکساں مواقع میسر ہوں ۔ ترقی اور اُوپر جانے کا معیار‘ نسل ‘ رنگ ‘ مذہب ‘ جنسی امتیازات سے بالا ترہو‘ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ نظریۂ انصاف کا بنیاد ی نقطہ یہ ہے کہ جو طبقات معاشرے میں دولت بناتے ہیں اُنہیں صرف ایک جائز حصہ اپنے پاس رکھنے کی اجازت ہے ‘ سب کچھ سمیٹ کر اپنے میں گھر میں نہیں رکھ سکتے ۔ امریکی معاشی فلاسفر ‘ جان راعل(John Rawl) نے 1971ء میں ”تھیوری آف جسٹس ‘‘ لکھی اور انصاف کا نظریہ پیش کیا تو ان کے سامنے بنیادی طور پر اخلاقی پہلو تھے ۔ بالکل درست ہے کہ سرمایہ دار سرمایہ کاری اپنی دولت اور مادی مفادات بڑھانے کے لیے کرتے ہیں ۔ محنت کرتے ہیں‘ خطرہ مول لیتے ہیں‘ خسارے بھی برداشت کرتے ہیں۔ اگر اُن میں اپنی دولت بڑھانے کی تحریک نہ ہو تو سرمایہ دارانہ نظام چل ہی نہیں سکتا۔ یہاں تک تو بات درست ہے اور سمجھ میں آتی ہے مگر راعل کے مطابق یہ دولت معاشرے کے تعاون سے بنائی گئی ہے ۔ لوگ کسی سرمایہ دار اور کمپنی کی چیزیں اور خدمات خریدتے ہیں تو اُن کی گاڑی چلتی ہے اور ریاست جو اصولی طور پر عوام کے مفادات کی ضامن اور نمائندہ ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کے لیے امن اور استحکام پیدا کرتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اُنہیں تحفظ فراہم کرتی ہے ۔ اس لیے معاشی انصاف کا تقاضا ہے کہ دولت کی تقسیم معاشرے میں اس طرح ہو کہ ریاست سرمایہ داروں سے ٹیکسوں کی صورت وسائل اکٹھے کرے اور لوگوں کی تعلیم‘ صحت‘ روزگار کے علاوہ پسماندہ طبقات کے لیے کم کرائے پر سرکاری گھر ‘ پبلک ٹرانسپورٹ اور بے روزگاری کی صورت میں ماہانہ وظیفہ مقرر کرے ۔ ساٹھ کے عشرے میں مغربی دنیا میں فلاحی ریاست کا تصور ترقی پسند جمہوری طاقتوں نے اپنا لیا تھا ۔
اپنے آپ کو طویل بحثوں میں الجھانا مقصود نہیں‘ بس تھوڑی سی کاوش ہے کہ اپنے اور دیگر ممالک میں جاری بحرانوں کے کچھ بنیادی محرکات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرائوں ۔ مغرب میں فلاحی ریاست کے خلاف قدامت پسندوں نے علم بغاوت بلند کیا تو برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر اور امریکہ میں رونالڈ ریگن منتخب ہوگئے ۔ ان دوملکوں کی معیشت کا رخ کلاسیکی دور کے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف مڑا تو دوسروں نے بھی ان کی پیروی شروع کردی ۔ جہاں کہیں بھی معیشت کے رجحا نات تھے ‘ وہ نئے سرمایہ داری دور میں تبدیل ہوگئے ۔ چین اور روس کے علاوہ سب ماضی کے اشتراکی ممالک نے پلٹاکھایا۔ ہمارے ہاں بھی پہیہ الٹا گھوما ‘ معاشی ‘ سیاسی اور سماجی طور پر ہم کئی عشرے پیچھے چلے گئے اور ابھی تک بھول بھلیوں میں چکر کھا رہے ہیں ۔ ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تودوقدم پیچھے ۔
جدید دور میں مارکس سے بڑا فلاسفر پیدا نہیں ہوا‘ اس نے دنیا کی تاریخ‘ علم ‘ادب اور فن کے شعبوں پر جو اثر چھوڑا ہے اس کا مقابلہ شاید کوئی نہ کرسکے ۔ اسی نے کہا تھا کہ دولت اور سیاست اکٹھے چلتے ہیں‘ سیاست اور ریاست ظاہری تماشا ہے ‘اس کی بنیاد وہ طاقتیں ہیں جن کے پاس سرمایہ ہے ۔ مگر مارکس کا سرمایہ دار انہ دور اس کی شروعات تھی‘ ہم نے پختہ حالت میں اسے پھلتے پھولتے دیکھا ہے ۔ بیسویں صدی میں اس نظام کی حصہ داری بہت وسیع ہوچکی تھی ۔ درمیانہ طبقہ بڑھا بلکہ عددی لحاظ سے غالب کلاس آج کے دور میں یہی ہے ‘ مگر اس کا المیہ یہ ہے کہ سرمایہ داری سے فکری اور ثقافتی طور پر مغلوب ہے ۔ مادی مفادات اس کی جھولی میں توقع سے کہیں زیادہ پڑے ۔ ثقافتی رویوں میں مغرب اور مشرق میں یہ پرانی سوچ کے لوگ ہیں ۔ آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں یہ اپنی مراعات کی حیثیت اور غلبے کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہیں ۔
دنیا میں اس وقت تضادات طاقتور طبقات‘ حکمران ‘ امیر مڈل کلاس اور ریاست سے وابستہ مراعات یافتہ طبقات اور انصاف ‘ آزادی اور مساوات کے لیے اٹھتی ہوئی تحریکوں کے درمیان ہیں۔ بہارعرب کی روح یہی تضاد تھا‘ جو اب بھی ہے ۔ مغربی جمہوریتوں میں عورتوں اور نسلی اقلیتوں کی تحریکوں کا رنگ بھی کوئی مختلف نہیں ۔ انسانی حقوق کی تحریکیں ہوں یا ماحولیاتی‘ تبدیلیوں کے خلاف سب کی جڑیں لوٹ کھوسٹ کے سرمایہ داری نظام میں پیوست ہیں ۔ سب انصاف کی جدوجہد میں ہیں۔ ہمارا قضیہ کوئی الگ نہیں ‘ ہمارے ملک کی سیاست پر ایک مخصوص طبقہ قابض ہے ۔ دولت ہو یا حکومت‘ طاقت جن کے پاس ہے ‘ آپ خوب واقف ہیں ۔ یہاں تو کھلے عام ڈاکے ڈالے گئے ۔ پڑھے لکھے ‘ چھوٹے طبقوں کے لوگ او ر خصوصاً نوجوان جو آبادی میں اکثریت رکھتے ہیں خود کو اس گلے سڑے نظام میں بے بس پاتے ہیں ۔ ہم نے بھی اس بے بسی میں زندگیاں کھپا دیں ۔ خموشی سے سہتے اور سلگتے رہے لیکن نوجوان نسل کے رگ وپے میں بہار عر ب کی سی کیفیت ہے ۔ کوئی باہر نکلا ہے اور انہیں نکالنے جارہا ہے ۔ شہر شہر لاکھوں کی تعداد میں اکٹھے ہورہے ہیں۔ بے چینی سب محسوس کررہے ہیں ۔ ڈرہے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے ۔ سیلاب کا پانی سر سے گزر نہ جائے ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر