مظہر اقبال کھوکھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیر معمولی اور طوفانی بارشیں گزشتہ دو ماہ سے جاری تھیں اور کوہ سلیمان کے پہاڑوں سے آنے والی رود کوہیوں ، برساتی ندی نالوں میں آنے والی تغیانی نے بلوچستان ، سندھ اور وسیب کے مختلف اضلاع میں تباہی مچا رکھی تھی۔ اور انہی صفحات پر ہم قلم کے زریعے چیخ و پکار کر رہے تھے کہ حکمران اور تمام سیاستدان ہوش کے ناخن لیں۔ یہ وقت سیاست کا نہیں احساس کا ہے۔ مگر انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ تو حکمرانوں نے کوئی احساس کیا اور نہ ہی سیاستدان سیاہ ست کاری سے باز آئے، نہ تو قومی میڈیا آواز بنا اور نہ ہی الیکٹرانک میڈیا نے خبر لی ، نہ ہی ذمہ دار ادارے حرکت میں آئے اور نہ ہی حکومتی مشینری نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ اب حالت یہ ہے کہ سوات ، نوشہرہ سے لے کر سكهر ، دادو تک اور کوئٹہ سے لیکر لیه اور تونسہ تک پورا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ گزشتہ روز سوات کے سیلابی ریلے نے جو تباہی مچائی اسے میڈیا کے زریعے دیکھ کر پورا ملک چیخ اٹھا ہر انسان افسرده اور پریشان نظر آیا۔ یہی درد ناک کہانی گزشتہ کئی ہفتوں سے کوہ سلیمان کے اطراف میں جاری تھی بلوچستان اور وسیب میں کئی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں ، کئی آبادیوں کا نام و نشان باقی نہیں رہا ، لاکھوں امیدیں پانی میں بہہ گئی ، ہزاروں خواب سیلاب کی نظر ہوگئے ، لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہزاروں گھر اجڑ گئے مگر دکھ تو یہ ہے کوئی مدد کو نہ پہنچا کسی نے خبر نہ لی اور نہ کسی نے کوئی احساس کیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ دریاۓ سوات اور دریائے کابل شمالی علاقہ جات اور خیبر پختون خواہ میں تباہی اور بربادی کی المناک داستانیں رقم کرتے ہوئے پنجاب کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں۔ چشمہ بیراج سے تقریباً 7 لاکھ کیوسک کا ایک بڑا سیلابی ریلا وسیب کی طرف بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں میانوالی ، بهكر ، لیه ، راجن پور اور رحیم یار خان کے اضلاع متاثر ہوسکتے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق تین کروڑ لوگ براہ راست اس سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ ایک ہزار سے زائد لوگوں کی اموات ہوچکی ہے اور 2 ہزار کے قریب لوگ زخمی ہیں۔ لاکھوں لوگ نقل مکانی کر کے ریلیف كیمپوں ، حفاظتی بندوں اور عارضی پناہ گاہوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہزاروں لوگ ایسے بھی ہیں جو ابھی تک نشیبی علاقوں میں اپنے گھروں میں موجود ہیں۔ اس وقت سیلاب متاثرین کا سب سے بڑا مسئلہ خیمے راشن اور ادویات ہیں۔مختلف غیر سرکاری تنظیمیں اور مقامی لوگ مختلف علاقوں میں اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ مگر یہ ناكافی ہے کیونکہ حکومت کے ذمہ دار ادارے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ خاص طور پر این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے محض الرٹ اور اعداد و شمار جاری کرنے تک محدود ہوچکے ہیں جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ایک لمحے کو غور کیجئے ایسی صورتحال اسلام آباد راولپنڈی یا لاہور میں ہوتی تو کیا ہماری حکومتوں اور اداروں کا یہی کردار ہوتا جس طرح اب عوام کو سیلاب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
وطن عزیز میں سیلابوں کی تاریخ تو بہت پرانی ہے مگر تباہیوں اور بربادیوں کی ہمیشہ ایک نئی تاریخ رقم ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران ہمیشہ فضائی جائزہ لینے ، مخصوص لوگوں سے ملاقات، فوٹو سیشن اور ایک بیان کے بعد سمجھتے کہ انکی ذمہ داری پوری ہوگئی ہے۔ انہیں کیا معلوم سیلاب کیا ہوتا ہے۔ سیلاب کا نام لینا آسان ہے اس کا سامنا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایک طاقتور فاتح کی طرح سیلاب کسی گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس بے بسی کا دکھ صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے کبھی اس کا سامنا کیا ہو۔ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر جائزہ لینے والا کبھی نہیں سمجھ سکتا۔ انہیں کیا معلوم کہ جب تنکا تنکا اکٹھا کر کے بنائے گھر تنکوں کی طرح سیلاب میں بہہ جاتے ہیں تو اس کا دکھ کیا ہوتا ہے اور آنکھوں کے سامنے کسی کا لخت جگر جب پانی کی تیز لہروں کی نظر ہو جاتا ہے اور وہ جس کرب سے مدد کے لیے پکار رہا ہوتا ہے اس کرب اور دکھ کو یہ کیسے سمجھ سکتے ہیں جو لینڈ کروزر میں بیٹھ کر ہاتھ ہلاتے ہوئے کہتے ہیں ہم سیلاب متاثرین کے ساتھ ہیں۔ انہیں کیا معلوم بیٹی کا جہیز بہہ جانے کا دکھ کیا ہوتا ہے، ہنستے بستے گھر کو چھوڑ کر خیموں میں پناہ لینے اور بھوک سے بلکتے بچوں کو کئی کئی پہر جھوٹی تسلی دینے کا دکھ کیا ہوتا ہے۔ یہ تو لاہور اسلام آباد کے عالی شان محلات میں بیٹھ کر کہتے ہیں ہم سیلاب متاثرین کے ساتھ ہیں مل کر اس طوفان کا مقابلہ کریں گے۔ کبھی یہ ایک رات سیلاب متاثرین کے كیمپ میں گزاریں تو انہیں معلوم ہو کہ سیلاب کا دکھ کیا ہوتا ہے اور دکھوں کے سیلاب کیا ہوتے ہیں۔
سیلاب تو سال ہا سال سے آرہے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں سیلاب آتے ہیں مگر اس طرح کی صورتحال کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ کیونکہ انہوں نے سیلابی پانی کو محفوظ کرنے اور پھر اسے زیر استمال لانے کی پلاننگ کر رکھی ہے۔ مگر ہم جہاں ایک طرف خشک سالی کا شکار ہیں۔ تھر اور چولستان دو ایسے صحرا ہیں جہاں سے ہمیشہ خشک سالی کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ کئی بار خشک سالی اور قلت آب کے نتیجے میں ہزاروں مویشی اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں ۔ یعنی ایک طرف پانی کی کمی ہمیں مارتی ہے اور دوسری طرف پانی کی زیادتی ہمیں مارتی ہے۔ مگر افسوس ہم نے سیلاب کا حل صرف یہی نکالا ہے کہ سیلاب زدگان کی بے بسی ، بے چارگی ، تباہی بربادی ، فلڈ ریلیف كیمپ ، عالمی امداد اور پھر 5 کلو آٹا ، ایک پیکٹ راشن ، ایک پانی کی بوتل ، ایک ڈبہ دودھ اور فوٹو سیشن سیلاب اور سیلاب متاثرین کا مسئلہ حل ۔ اس کے بعد ہمارے حکمرانوں نے کبھی غور نہیں کیا سیلاب کیوں آیا ، سیلاب سے زیادہ نقصانات کیوں ہوئے ، سیلاب سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے، نقصانات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے اور لوگوں کو کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ جب تک عالمی اداروں سے ملنے والی امداد اوپر سے نیچے تک اشرافیہ کے سکھ چین میں اضافہ کرتی رہے گی اس وقت تک نہ تو سیلاب کے دکھ کم ہو سکتے ہیں اور نہ ہی دکھوں کے سیلاب کم ہوسکتے ہیں۔
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی