اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

علم کی ایف آئی آر|| ارشاد رائے

ارشاد رائے سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ہیں ،سیاست سمیت مختلف موضوعات پر انکی تحریریں مختلف ویب سائٹس پر شائع ہوتی رہتی ہیں۔

ارشادرائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کئی مہینوں کے بعد لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں وہ بھی ایک حاضر سروس لیکچرار سے گفتگو اور مکالمے کے بعد یہ ضرورت محسوس ہوئی ہے ورنہ احساس سے کئی نوری سال دوری پر براجمان معاشرے پر کچھ لکھنا پانی میں مدھانی مارنے کے مترادف ہے مگر پھر بھی کبھی کبھی یہ سوچ کر لکھنا شروع کر دیتا ہوں کہ اپنے حصے کی شمع جلاۓ رکھوں کوئی روشنی پاۓ یا نہ پاۓ قسمت اور مقدر کی بات ہے
لیکچرار کا لیکچر یہ تھا کہ آج ہماری قوم کی زبوں حالی کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے کہ ہم نے جہاد کے راستے کو خیرباد کہہ دیا ہے اور پچھلے کئی عشروں سے ہمارے ہاں ، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی ، نورالدین زنگی، ٹیپو سلطان ، امیر تیمور جیسے بہادر جنگجو پیدا نہیں ہو پا رہے یہ ہمارے ایمان کی کمزوری اور دین سے دوری کا نتیجہ ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے یا قوم کا سروے کر لیں نوے فیصد سے زیادہ لوگوں کی راۓ اور سوچ اس سے ملتی جلتی ہوگی صرف ایک یا دو پرسینٹ لوگ اس روائتی سوچ سے متفق نہیں ہوں گے
میں نے لیکچرار کا پورا لیکچر چالیس پنتالیس منٹ بخوبی سنا جو میرے لیے اذیت سے کم نہ تھا کیونکہ بات دلیل اور منطق پر مبنی ہو تو پلے پڑتی ہے ورنہ نہیں میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ اب جدید علوم فلسفہ اور ٹیکنالوجی کا دور ہے کیونکہ آج کے دور میں بہادری اور جنگ کے میدانوں کے طریقہ کار یا definition یکسر بدل چکے ہیں آج طارق بن زیاد ، صلاح الدین ایوبی ٹیپو سلطان اور دیگر جری اور بہادر جنگجؤوں کی نسبت کمپیوٹر پکڑے ویل چئیر پر براجمان معذور سٹیفن ہاکنگ کئی گنا زیادہ مرد میدان ہے کیونکہ آج کل جنگ کے میدان کمپیوٹر کی سکرین یا جدید علوم پر مبنی ہیں دنیا کی امامت صرف اس قوم کا حق ہے جو علم رکھتی ہے ایک لمبا عرصہ مسلمانوں کا بھی سنہرا دور رہا ہے وہ بھی صرف اور صرف اس وقت کے جدید علوم کی بنا پر تھا علم مومن کی میراث ہے مگر مومن اسے گم کر بیٹھا اور سیاہ بختی یہ ہے کہ آج تک مومن نے اس کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کروائی
چار سو سال پہلے تقریباً سولہویں صدی کی دوسری دہائی میں فرانسس بیکن نے یہ کہتے ہوۓ بحر الکاہل کو کوزے میں بند کر دیا کہ ( علم ایک ایسی طاقت ہے جس کا معیار یہ نہیں کہ وہ درست ہے بلکہ صرف اتنا ہے کہ وہ ہمیں طاقت مہیا کرتا ہے یا نہیں ) سائنسدان اور فلسفی بھی تقریبٗا اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ کوئی نظریہ بھی ہنڈرڈ پرسینٹ درست نہیں سو سچائی کو علم کا درست پیرامیٹر یا میزان نہیں سمجھا جا سکتا اس کا پیرامیٹر یا میزان اس کا درست استعمال ہے کوئی بھی ایسا نظریہ یا تھیوری جس سے ہمیں کچھ نیا یا منفرد کرنے میں مدد ملے دراصل وہی علم ہے ابھی کچھ عرصہ پہلے دنیا کی بیشتر ریاستیں اور بڑے بزنس مین یا ادارے اکنامکس ، فزکس یا حیاتیات اور دیگر علوم کی تحقیق میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لیا کرتے تھے لیکن آج ہمارے اور ہم جیسے ملکوں کے وہم و گمان سے بالاتر ہےکہ زندہ قومیں ریسرچ تحقیق اور سائنس پر کتنی خطیر رقمیں خرچ کر چکے اور کر رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں تو بھوک افلاس ننگ دھڑنگ دال روٹی کا قال بے پیراہن بھنگڑا ڈال رہا ہے دوسری طرف علم دوست قومیں صدیوں کے سفر دنوں میں طے کر رہی ہیں اور ہم جہالت کے درک اسفل میں پڑے عید کے چاند پر متفق نہیں ہو پاتے
شائد میری باتیں اس لیکچرار کے اوپر سے گذر رہی تھیں اور وہ بار بار مجھے ٹوک کر الرازی ، ابن رشد ، ابن الہیثم ، ابن سینا کے کارنامے اور مسلم اُمّہ کا سنہرا دور یاد کروا رہا تھا جس سے مجھے کوئی مفر نہیں یقیناً وہ عظیم لوگ تھے مگر اسے یہ علم نہیں تھا کہ ان عظیم لوگوں کے ساتھ ہم نے کیسا ذلت آمیز سلوک کیا یہ ایک لمبی داستان ہے جو پھر کسی کالم میں لکھوں گا
تو المیہ صرف یہ نہیں کہ ہمارے پاس اس طرح کی ریسرچیز کیلۓ وسائل بہت کم ہیں بلکہ میرا کہنا اور سمجھنا اور سمجھانا یہ ہے کہ عالم اسلام میں جن ملکوں کے پاس ڈالروں ، دیناروں اور درہموں کے ڈھیر لگے پڑے ہیں انھوں نے جدید علم اور ٹیکنالوجی میں کون سی توپیں چلا لی ہیں
لیکچرار صاحب کو اب میری باتیں ناگوار گزرنے لگیں اور وہ روائتی طور پر فتوؤں کی پٹاری کا ڈھکن کھول چکا تھا اس سے پہلے کے مجھے کسی فتوے کی نظر کرتا میں نے بات کو مختصر کیا اور کہا کہ بھائی صاحب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مسلم اُمّہ نے آج تک کتنے ہائی فائی اور عالی شان دماغ پیدا کیے ہیں اوریجنل اور جینوئن سائنسدان یا انجینئیر یا ڈاکٹرز پیدا کرنا تو درکنار ہم نے تو مدتوں سے کوئی عظیم شاعر ، ادیب ، مصور یا موسیقار بھی ڈھنگ کا پیدا نہیں کیا
کبھی سوچا کہ دنیا کی ترقی میں ہمارا کتنا حصہ ہے میری ناقص سمجھ کے مطابق صفر فیصد ہے ہمارے ہاں پونےلاکھ کے قریب دولے شاہ کے چوہے پیدا کرنے والے عقوبت خانے تو ہیں مگر عالمی معیار کی یونیورسٹی یا ریسرچ سنٹر ایک بھی نہیں دنیا مستقبل کی پلاننگ چاند اور مریخ پر بستیاں بسانے کی کر رہی ہے جبکہ ہمارے ہاں عید دا چن نئں پیا چڑھدا پراۓ پتر سولر انرجی سے آگے نکل کر سیلابوں ، زلزلوں ، اور سونامیوں سے انرجی کے وسائل جوڑ اور نچوڑ چکے ہیں ہمارے ہاں ہر دوسرے چوتھے سال سینکڑوں لوگ سیلابوں اور ردکہیوں میں بہہ کر زندگیاں ہار جاتے ہیں دنیا ٹرانس ہیومن ، کلوننگ اور گاڈ پارٹیکل کے درمیان جاگنگ کر رہی ہے ہم پٹرول میں مٹی کا تیل اور دودھ میں پانی ملا کر چوک چوراہوں پر ناکنگ کر رہے ہیں دنیا پسینے کی بو سونگھ کر سچ اور جھوٹ کا تعین کرنے والی مشین ایجاد کر رہی ہے ہم نے اپنے لیے سستی جہالت اور نالائقی کا انتخاب کر رکھا ہے وہ ہزاروں نوری سال کا فاصلہ سیکنڈوں میں طے کرنے والے اسباب تلاش رہی ہے ہم لمپی سکن وائرس کیلۓ سو سال پرانے کنویں دم رہے ہیں وہ موجد پیدا کر رہے ہیں ہم مجاہد اٹھاۓ پھرتے وہ سائنسدان پیدا کر رہے ہیں ہم صوفی اٹھاۓ پھرتے ہیں پراۓ پتروں نے نیوٹن آئن سٹائن سٹیفن ہاکنگ ائزک برگ ہمارے سامنے کھڑے کیے ہم نے اسامہ احسان اللہ احسان الظواہری اور کئی ایسے دہشت گرد لا کھڑے کیے ان کا رزق نیزے کی نوک پر جبکہ ہم آج بھی اپنے کشکول پر نظر رکھے ہوۓ ہیں وہ اپنی سرحدیں ختم کر کے اکرہ ارض کے انسانوں کو ون یونٹ میں پرونے کے در پے ہیں جبکہ ہم ملک کے معزز ایوانوں میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا توہین سمجھتے ہیں
آخر میں نے لیکچرار صاحب کے سامنے اپنے موضوع بحث کا خاتمہ اس دلیل پر کیا کہ ہر دور میں دنیا کی امامت کا حق صرف اور صرف علم دوست قوموں کے پاس رہا ہے
آج کے دورمیں علم کے بغیر کوئی بھی جنگ نہیں جیتی جا سکتی چاہے وہ بارودی ہو معاشی ہو یا اخلاقی ومذہبی ہو اور پھر آج کا علم سائنس ، ٹیکنالوجی اور کے بغیر ادھورا بلکہ صفر ہے علم تو مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے جس کی حضرت مومن نے آج تک ایف آئی آر کرانے کی زحمت نہیں کی اگر ایک صدی اور بھی ہم نے کچھ نہ کیا اور اپنی کھوئی ہوئی میراث کی کھوج نہ کی تو کم ازکم پھر اپنے منطقی انجام کی تیاری کرلو
اس دوران میرے فون پر گھنٹی بجی میں نے کہیں جانا تھا لیکچرار صاحب کو خدا حافظ کہا مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا اور میں چل دیا

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

ارشاد رائے کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: