مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین جون 1947 کو ہندوستان کی تقسیم کے اعلان اور 15 اگست کو دو ریاستوں کے قیام کے درمیانی عرصے میں جو افراتفری مچی، اس کا احوال ہم پڑھتے رہے ہیں۔ لیکن امریکی میگزین لائف کا یہ مضمون ہماری نسل کو ایک نیا پہلو دکھاتا ہے۔
ہم نے ہمیشہ یہی پڑھا کہ لاکھوں مسلمان اپنا سب کچھ لٹا کر پاکستان چلے آئے۔ ظاہر ہے کہ لاکھوں ہندو اور سکھ بھی اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے تھے۔ لائف میگزین کے رپورٹر نے بتایا کہ تقسیم سے قبل دونوں جانب کے صاحب حیثیت افراد نے اپنے جیسے امیر لوگوں کے ساتھ جائیدادوں کے تبادلے کی کوشش کی تھی کیونکہ غیر منقولہ جائیدادوں کو فروخت کرنے کا وقت نہیں تھا۔
میرا اس مضمون کو ترجمہ کرنے کا ارادہ نہیں ہے لیکن کسی دوست کو ایسا کرنا چاہیے کیونکہ یہ ان دنوں کے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ کاروباری افراد پریشان تھے کہ مشکلات اٹھاکر کاروبار جمایا ہے لیکن اب دوسرے ملک جاکر صفر سے شروع کرنا پڑے گا۔ ملازمت پیشہ افراد نئے ملک میں کام تلاش کرنے کی فکر میں تھے۔ آبائی مکان چھوڑ کر کون دوسرے ملک میں بے گھر ہونا چاہتا ہوگا۔
دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا ہے کہ کراچی دارالحکومت بننے کے قابل نہیں تھا۔ وہاں وسائل کی کمی تھی۔ اس اعلان پر سب ہی حیران تھے۔ قائداعظم کے اردو کو ملک کی سرکاری زبان بنانے کے اعلان پر بھی تعجب کیا گیا۔
یہ مضمون 11 اگست 1947 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اسے لکھنے والے رابرٹ نیول بڑے صحافی تھے۔کولمبیا اسکول آف جرنلزم سے ماسٹرز کیا اور 40 سالہ کرئیر میں نیویارک ٹائمز، ہیرلڈ ٹربیون اور ٹائم میگزین کے لیے خدمات انجام دیں۔ اسپین کی خانہ جنگی، دوسری جنگ عظیم اور جنگ کوریا کی رپورٹنگ کی اور استنبول، ہانگ کانگ، بیونس آئرس اور دہلی میں بھی تعینات رہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر