مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تونسہ میں سیلاب۔ آنکھوں دیکھا حال||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور پندرہ ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ وزیرا عظم نے امداد کا اعلان کرکے درست کیا مگر یہ امداد بلوچستان اور سرائیکی وسیب کے سیلاب زدہ علاقوں کیلئے بھی ہونی چاہئے۔ اسی طرح سابق وزیرا عظم عمران خان نے ڈی آئی خان اور ٹانک کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورہ کے دوران کہا کہ موجودہ سیلاب 2010ء کے سیلاب سے کئی گناہ زیادہ ہے اگر ڈیم بنا دیئے گئے ہوتے تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔ انہوں نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ متاثرین کی بلا تفریق مدد کی جائے۔ گزشتہ روز سرائیکی جماعتوں کے وفد کیساتھ تونسہ شریف جانا ہوا۔ وفد میں میرے ساتھ ملک جاوید چنڑ ایڈووکیٹ، شریف خان لاشاری اور ملک زبیر وینس شامل تھے۔ تونسہ میں ہمارے میزبان معروف سرائیکی شاعر ریاض عصمت تھے۔ ریاض عصمت نے مہر عبدالرحمن سیال کے ڈیرے پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہل دانش سے ملاقات کا اہتمام کر رکھا تھا۔ موضوع ’’تونسہ میں سیلاب سے تباہی اور بحالی کے اقدامات‘‘ تھا۔ اس موقع پر اہل دانش نے تونسہ میں سیلاب کی تباہی سے ہونیوالی تفصیلات کے ساتھ ساتھ بحالی کیلئے سفارشات بھی پیش کیں اور آئندہ بچائو کیلئے اقدامات پر بھی اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اس موقع پر سابق صدر بار سردار مظہر ظہور خان سنگوانی ایڈووکیٹ، ڈاکٹر آصف ظریف، شاہد ملک، قمر حیات، جامی موسیٰ چولانی، ڈاکٹر حنیف خان سکھانی ، میزبان مہر عبدالرحمن جامی اور ریاض عصمت نے بہت اچھی گفتگو کی۔ اہل دانش نے یہ بھی کہا کہ امریکی سائنسدان کہتے ہیں کہ ہم نے ایسی ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کر لی ہے کہ جب اور جس ملک میں چاہیں اسے سیلاب کے پانی میں ڈبو دیں اور جب چاہیں کسی ملک کو زلزلہ سے تباہ کر دیں۔ اس بات پر ایک دوست نے کہا کہ یہ غلط ہے سب کچھ خدا کی مرضی سے ہوتا ہے۔ دورے کے دوران سیلاب متاثرین کیلئے بہت زیادہ کام کرنے والی محترمہ راشدہ بھٹہ اور ملک فرحان بھٹہ چیئرمین عام آدمی پارٹی سے بھی ملاقات ہوئی، انہوں نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے اور سیلاب سے ہونیوالی تباہی میں تونسہ کے جاگیرداروں اور تمنداروں کے ساتھ ساتھ حکومتی اہلکار بھی شریک ہیں۔ تونسہ میں جہاں ہم سیلاب متاثرین سے ملے وہاں تونسہ کے صحافی دوستوں رفیق ناصر، عاصم امام سومرو، میاں فیض، شکیل راں، جاوید امبر، قمر حیات و دیگر سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ تونسہ کے معروف دانشور مرحوم محمود نظامی کے بیٹے سرمد نظامی سے بھی ملاقات ہوئی ۔ صورتحال یہ ہے کہ تونسہ سٹی بارشوں سے تو متاثر ہوا ہے البتہ سیلاب کا پانی شہر میں داخل نہیں ہوا۔ البتہ تحصیل تونسہ کی چوبیس یونین کونسلیں رودکوہی کے سیلاب سے تباہ ہو چکی ہیں۔ تحصیل تونسہ کے ساتھ تحصیل ٹرائبل ایریا ہے یہ تحصیل سابق وزیرا علیٰ سردار عثمان بزدار کی ہے۔ وہاں صورتحال تونسہ سے بھی بد تر ہے کہ وہاں کوئی امداد نہیں پہنچیاور کہا جاتا ہے کہ وہاں جانی نقصان تونسہ کے مقابلے میں زیادہ ہوا ہے۔ یہ تحصیل ٹرائبل ایریا کوہ سلیمان کے ساتھ ساتھ ہے۔ وہاں کی آبادیوں روستے والی، رحمن آباد، عطرے والی، ڈگر والی، مالہے، دوانی، لزدان، سگڑا، کھلیرو، نیلوہر، چرتلی، بھنبھہ، کوبر، ٹالیدان، کھجولہ، سرفراغ و دیگر علاقوں میں صورتحال خراب ہے۔ اسی طرح تونسہ کے علاقے سوکھڑ، چتروٹہ، اسپلنگی، کہر تھل، چھکھڑام، ریتڑہ، ٹبی قیصرانی، بیٹ فتح خان، جلو والی، کورو، کلر آلا، بستی گنمب، جادے والی، لکھانی، ٹھٹھ لغاری، بودو، لتڑا، ناڑی شمالی، ہرے والی، لشاری آلی ، چونی، نتکانی، ٹبی سہرانی، جھوک منگے آلی و دیگر علاقوں میں حکومتی توجہ اور امداد کی فوری ضرورت ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے دوران ہم نے دیکھا کہ ہر طرف پانی ہے، مسائل ہی مسائل ہیں، کس کس مسئلے کی بات کی جائے۔ دوسرے مسائل کے علاوہ بیت الخلاء بھی ایک مسئلہ ہے۔ باپردہ خواتین دوہری اذیت کا شکار ہیں۔ سرائیکی رہنما راشدہ بھٹہ نے اشکبار آنکھوں سے بتایا ہے کہ سیلاب متاثرین کو رفع حاجت کا بھی مسئلہ ہے سڑکوں اور اونچے مقامات پر پناہ لئے سیلاب متاثرین تو دور جا کر گزارہ کر لیتے ہیں۔ خواتین مشکل میں ہیں کسی جگہ عورتیں ایک دوسرے کے گرد کھڑی ہو جاتی ہیں اور کہیں دور جا کر رفع حاجت کیلئے خواتین چارپائی کھڑی کرتی ہیں۔ بہت سے اوقات میں خواتین رات کے اندھیرے کا انتظار کرتی ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ خواتین اس لیے کم پانی کا استعمال کرتی ہیں کہ بار بار پیشاب کے لیے نہ جانا پڑے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن سے حکمران قطعی طور پر لا علم ہیں۔ لا علمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سونے کے چمچ لیکر سیاستدان نے کبھی دکھ دیکھا نہیں نہ ہی ان کو سماجیات کا کوئی علم ہے۔ تونسہ کے سیلاب زدہ علاقوں میں ہر طرف تباہی کے مناظر صاف نظر آرہے ہیں۔ جہاں ہستی بستی آبادیاں اور فصلیں تباہ ہوئیں وہاں مال مویشی کے ساتھ ساتھ بہت سی انسانی جانیں بھی سیلاب کی نظر ہوئیں۔ اسی کا نام انسانی المیہ ہے۔ اس کے ساتھ سکول، ہسپتال، گندم کے ذخائر، مواصلات کا نظام درہم برہم ہوا ہے۔ جس کی بحالی کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ گھروں کی تعمیر بھی ہونی چاہئے اور کم از کم حکومت چار دیواری اور باتھ رومز کی تعمیر کیلئے تو فوری امداد دے۔ تباہ ہونیوالی فصلوں کا معاوضہ ملنا چاہئے تاکہ آئندہ فصل کاشت ہو سکے۔ اگر فوری طور پر حکومت معاوضہ ہی نہیں دے سکتی تو کم از کم فصلوں کی کاشت کیلئے بلا سود قرضے جاری کئے جائیں۔ رودکوہی کے سیلاب کو روکنے کیلئے ڈیم تعمیر کئے جائیں اور پہلے سے جو ڈیم موجود ہیں ان کو پختہ کیا جائے اور بجری اور پتھر بیچنے والے مافیا کی دست برد سے بچایا جائے۔

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: