
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم خانیوال میں رہتے تھے تو بابا جمعہ کو چھٹی کے دن جنگ خریدتے تھے۔ میں پرائمری اسکول میں تھا لیکن اخبار پورا پڑھتا تھا۔ رات کو نو بجے کا خبرنامہ بھی دیکھتا تھا۔ خالد حمید خبریں پڑھتے تھے۔ پینتیس سال بعد ان کے ساتھ وائس آف امریکا میں ساتھ بیٹھ کر کام کرنے کا موقع بھی ملا۔
میں چوتھی جماعت میں تھا کہ ایک شب خبرنامے میں عجیب خبر سننے کو ملی۔ میرا خیال ہے کہ خبرنامے کے بعد خصوصی رپورٹ بھی نشر کی گئی جس میں لوگوں کے انٹرویوز شامل تھے۔ معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں نے خود کو صندوقوں میں بند کرکے سمندر کے راستے کربلا جانے کی کوشش کی تھی۔
غالبا وہ شب جمعہ تھی۔ خبر ہفتے کو چھپی ہوگی جس دن ہمارے گھر اخبار نہیں آتا تھا اس لیے مجھے پڑھی ہوئی خبر یاد نہیں۔ لیکن ہمارے گھر میں کئی دن اس کا تذکرہ ہوتا رہا۔ پھر میں بھول بھال گیا۔
امریکا آنے سے کچھ عرصہ قبل ایک کتب فروش کے پاس ایک پرانی کتاب ملی جو اسی واقعے کے بارے میں تھی۔ آج میں نے کتب خانے والے گروپ میں وہی پیش کی ہے۔
وہ چکوال کا خاندان تھا جس کے 38 افراد نے 23 اور 24 فروری کی درمیانی رات ایک بشارتی خواب پر عمل کیا تھا۔ قافلے میں 42 افراد تھے لیکن چار عین وقت پر ہمت ہار گئے تھے۔ سمندر میں اترنے والے 20 افراد زندہ بچ گئے تھے جبکہ 18 ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔
زندہ بچ جانے والوں کو بعد میں کربلا کی زیارات کے لیے بھیجا گیا تھا۔
ان افراد کے بارے میں آج جو بھی سوچا جاسکتا ہے، وہ اس وقت کہا گیا۔ کچھ نے مذاق اڑایا، کچھ نے تعریف کی، کچھ نے معجزہ قرار دیا۔ مولف نے واقعے کی تفصیل، مرنے اور بچ جانے والوں کے نام، خبریں، بیانات، خوش عقیدہ لوگوں کی تحریریں، سب جمع کردی ہیں۔
ایسے واقعات اور ایسی کتابیں تاریخ کا حصہ ہیں۔ انھیں گم نہیں ہونا چاہیے۔ میں نایاب کتابوں کو عام کرنے کی کوشش میں ہوں اس لیے اپنی رائے کو پس پشت ڈال کر انھیں شئیر کردیتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کتاب کو بھی محفوظ رہنا چاہیے۔
اے وی پڑھو
اُچ ڈھاندی ڈیکھ تے چھوراں وی وٹے مارے ہن۔۔۔|شہزاد عرفان
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو