حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین ہوتے مسائل اور حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے پیدا ہوئی تشویشناک صورتحال کے پیش نظر عوام الناس یہ توقع کررہے تھے کہ ارباب سیاست و اقتدار انہیں مسائل و مشکلات سے نجات دلانے کے لئے غوروفکر کریں گے لیکن ارباب سیاست و اقتدار کی ترجیحات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ انہیں عوامی مسائل کا ادراک ہے نہ احساس،
شخصی انانیت میں مبتلا قائدین یہ دیکھ ہی نہیں پارہے کہ آدھے سرائیکی وسیب کے ساتھ دو تہائی بلوچستان اور صوبہ سندھ کا بڑا حصہ بارشوں اور سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔
خود حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 15سے 17 لاکھ افراد طوفانی بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔
متاثرہ علاقوں کے باشندے کن مصائب و مشکلات سے دوچار ہیں اس کا اندازہ متاثرین کے علاوہ کسی کو نہیں۔ ایسے حالات میں اصولی طور پر تو سیاسی و حکومتی زعماء کو چاہیے تھا کہ وہ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سیلاب متاثرین کی دلجوئی و بحالی کا کوئی پروگرام بناتے تاکہ متاثرین میں احساس محرومی دوچند نہ ہوتا
لیکن لگتا یہی ہے کہ کسی کو کسی بھی سطح پر متاثرین کا احساس ہے نہ ان مسائل کا جن سے دیگر علاقوں کے لوگوں کی زندگی دن بدن اجیرن ہوتی جارہی ہے۔
گزشتہ روز بلوچستان میں کرخسار اور سملی ڈیم ٹوٹنے سے سینکڑوں مکانات تباہ ہونے کے ساتھ ٹرین سروس بھی معطل ہوگئی۔ گو وزیراعظم نے ایک بار پھر متاثرین کو فوری طور پر بے نظیم انکم سپورٹ پروگرام کے تحت امدادی رقوم فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ فوری امداد متاثرین کے لئے کافی ہوگی؟
اسی طرح سرائیکی وسیب میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے حالات دن بدن خراب ہونے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ مختلف علاقوں سے ہمارے نامہ نگاروں کے مطابق اس وقت فوری طور پر خیموں، خوراک، ادویات اور جانوروں کے چارے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ شب فاضل پور میں سیلاب متاثرین میں مخیر حضرات کے تعاون سے خوراک کی تقسیم کے دوران بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کی صدائوں اور التجائوں نے ہر شخص کو دہلاکر رکھ دیا۔
فاضل پور کے گردونواح اور دوسرے متاثرہ علاقوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق سینکڑوں خاندان دو سے تین دن سے خوراک نہ ملنے کی وجہ سے اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں۔
اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہماری وہ قومی سیاسی جماعتیں جو فلسطین سے کشمیر تک کے مسائل پر اٹھتے بیٹھتے دردمندی کا مظاہرہ کرتی ہیں ان کے قائدین تک ابھی سیلاب سے پیدا ہوئے مسائل کی اطلاع پہنچی ہے نہ ہی انہیں کسی نے اس بات کی طرف متوجہ ہے کیا ہے کہ ہر گزرنے والا دن کے ساتھ سرائیکی وسیب میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے بے سروسامان لوگوں کے لئے المیوں کے جنم لینے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
خوراک و ادویات اور محفوظ ٹھکانوں سے محروم ان ہزاروں خاندانوں پر کیا بیت رہی ہے اس کا احاطہ الفاظ میں کرنا بہت مشکل ہے۔
حکومت کی بے حسی چلیں ایک طرح سے قابل مذمت معاملہ ہے مگر وہ سیاسی جماعتیں اوران کے رہنما موجودہ حالات میں کہاں غائب ہیں جو تعمیروترقی کے خواب فروخت کرکے لوگوں سے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں تو تحریک انصاف، پپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے رہنمائوں اور کارکنوں کو سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی مدد کے لئے پیش پیش دیکھائی دینا چاہیے تھا افسوس کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے بڑوں سے عام ہمدرد تک ہر شخص ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لئے تو پرعزم ہے لیکن اپنے بے سروسامان بہن بھائیوں مدد کیا کرنی ان کے مسائل پر غور کرنے کے لئے بھی ان کےپاس وقت نہیں ہے۔
سرائیکی وسیب کی قوم پرست جماعتوں کے چند رہنمائوں کی موجودہ حالات میں انفرادی خدمات یقیناً قابل ستائش ہیں ان کی جماعتیں کہاں ہیں اور کیوں انہیں حالات کی نزاکت کا احساس نہیں ہو رہا ؟
یہ نہ صرف اہم سوال ہے بلکہ اس سوال کے جواب میں ناراضگی کا اظہار کرنے کی بجائے قوم پرست جماعتوں کو عملی طور پر اپنے وجود کا احساس دلانا ہوگا۔
مکرر اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ ملک کے دوسرے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی طرح سرائیکی وسیب کے سیلاب سے متاثر ہونے والے خاندانوں کو فوری طور پر خوراک، ادویات، کپڑوں، سر چھپانے کے لئے خیموں اور جانوروں کے لئے چارے کی ضرورت ہے۔
وسیب کے وہ خاندان جو اپنی امارت کے حوالے سے معروف ہیں موجودہ حالات میں اپنے وسیب کے کمزور طبقات اور سیلاب متاثرین کی مدد کےلئے میدان عمل میں اتریں۔
سیاسی جماعتوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ موجودہ حالات میں اگر و ہ وسیب کے لوگوں کی دلجوئی اور بحالی کے لئے اپنا کردار ادا نہیں کرتیں تو آنے والے وقت میں جب یہ جماعتیں انتخابی عمل کے دوران وسیب کے رائے دہندگان کے پاس جائیں گی تو انہیں کس طرح کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔
اسی طرح قوم پرست سیاست کے پلیٹ فارم سے وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں کو قدم قدم پر آڑے ہاتھوں لینے والوں کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ وہ سیاسی جماعتوں پر تو طعنہ زنی میں مصروف ہیں لیکن موجودہ حالات میں خود ان کا عمومی کردار کیا ہے؟
یہاں ہم ایک بار پھر ارباب حکومت کی خدمت میں یہ عرض کریں گے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لوگ حکومتی کارکردگی سے مکمل طور پر مایوس ہی نہیں بلکہ یہ سوال بھی اٹھارہے ہیں کہ صوبائی حکومت پورے صوبے کے لئے ہے یا چند خاص اضلاع کے لئے؟
ہماری دانست میں ان سوالات و شکایات کا برا نہیں منایا جانا چاہیے۔ حکومت ہو یا ارباب سیاست، سبھی کو یہ سوچنا چاہیے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اگر کسی انسانی المیے نے جنم لے لیا تو نتائج کیا نکلیں گے۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ محاذ آرائی کا راستہ ترک کرکے فوری طور پر اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ سرائیکی وسیب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں انسانی المیہ جنم نہ لینے پائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر