حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سطور تحریر کرنے سے چند لمحے قبل برادرِعزیز انجینئر شاہنواز خان مشوری کا پیغام موصول ہوا کہ "ریلوے سٹیشن فاضل پور کی جانب والا حفاظتی بند ٹوٹنے سے سیلابی پانی ریلوے کالونی میں داخل ہوگیا ہے "۔ اسی دوران عزیزم آصف احمدانی نے فاضل پور شہر کے ایک حصے میں داخل ہونے والے سیلابی پانی کی ویڈیو بھیجی۔
سرائیکی وسیب میں سیلابی پانی سے متاثرہ علاقوں میں صورتحال ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بگڑتی جارہی ہے۔ ابتدائی اندازے کے مطابق طوفانی بارشوں اور سیلابی پانی سے متاثرہ سرائیکی وسیب کے شہروں، قصبوں اور بستیوں کے تقریباً 30 ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں۔
سینکڑوں بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ چکیں ان کے مکین اپنی ہی زمین پر بے زمین و بے آسرا ہیں۔ سیلاب میں جاں بحق ہونے والوں کی نعشیں نکالی جارہی ہیں
” ہیں بہت تلخ وسیب زادوں کے حالات ”
گزشتہ روز ایک صوبائی وزیر محسن لغاری نے سیلاب سے متاثرہ افراد کو کہا کہ لُڑ نہ مار اونچی آواز میں نہیں نیچی آواز میں بات کرو۔
کیا شانِ سرداری ہے، آوازیں بھی ناگوار گزرتی ہیں۔ ان اونچی آوازوں والے بے نوائوں سے ووٹ کیوں لیتے ہیں یہ لوگ ؟ ۔
ان سرداروں، میروں، مخدوموں، پیروں، جاگیرداروں کو چاہیے قانون سازی کروائیں ان کے لئے طبقاتی بنیادوں پر قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں نشستیں مختص ہوں تاکہ اونچی آواز میں بات کرنے والے گستاخوں کے دروازوں پر ووٹوں کی بھیک مانگنے کے لئے ہر پانچ برس بعد انہیں ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں۔
تونسہ سے ایک قاری نے چند سیکنڈ کی ویڈیو بھجوائی ایک معصوم بچہ سیلابی پانی میں ڈبکیاں کھارہا ہے۔ اس کی امڑی کہاں ہے، باپ اور دوسرے پیارے؟ اس ویڈیو کی بدولت پچھلی شب سو نہیں سکا۔ شب کے کسی حصے میں چند لمحوں کےلئے آنکھ لگی پھر ایک جھٹکے سے بیدار ہوا کہ عجیب سے مناظر نے ڈرادیا تھا ،
ان عجیب و خوفناک مناظر سے زیادہ عجیب اور خوفناک مناظر اور صورتحال کا سامنا ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی سے راجن پور کی تحصیل روجھان تک کے زمین زادوں کو ہے۔
وسیب زادوں کو ایک شکوہ ہے وہ یہ کہ جس وقت سرائیکی وسیب میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے مردوزن اور بچے اپنے اجڑ جانے پر نوحہ کناں تھے صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی اپنے آبائی ضلع گجرات کو ڈویژن بناکر جشن منارہے تھے۔
ڈویژن اور جشن چند دن بعد بھی بن اور ہوجاتے تو کون سا قیامت ٹوٹ پڑنا تھی۔ قیامت تو سرائیکی وسیب میں ٹوٹی ہوئی ہے۔ جشن گجرات ڈویژن سے وسیب پر قابض حکمرانوں کی سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دوسروں سے شکوہ کیسا۔ متاثرہ علاقوں سے منتخب ہوئے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کہاں ہیں؟ وہ ایسے غائب ہیں جیسے….؟ بڑے لوگ ہیں مثال لکھوں تو خفا ہوجائیں گے۔
ایک قاری نے سیلابی صورتحال پر لکھے گزشتہ کالم پر کہا ’’آپ نے استحصالی طبقات کے بڑوں کو متوجہ کیا وہ کیا کرلیں گے‘‘۔ کریں یا کچھ بھی نہ لیکن ان کو متوجہ کرنا ضروری ہے وہی وسیب کے مائی باپ بنتے ہیں لوگ انہیں ووٹ دیتے ہیں۔
کیا اگلے الیکشن میں وسیب کے ووٹر ان مخدوموں، پیروں، سرداروں، میروں، جاگیرداروں اور چودھریوں کو اپنے دروازوں سے خالی ہاتھ لوٹاسکیں گے ؟ ۔
سرائیکی وسیب کو اب سوچنا ہوگا دوست دشمن اور احسان فراموش سبھی کی شناخت پکی کرنا ہوگی۔
طوفانی بارشوں کے بعد سیلابی ریلوں سے بری طرح متاثر ہونے والے علاقوں میں حالات خراب ہیں۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ غذا اور ادویات کی کمی ہے۔ کچھ جماعتیں اور لوگ اپنی بساط سے زیادہ بڑھ چڑھ کر امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔
اب تک کے اندازوں کے مطابق 30ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں۔
ایک خاندان میں اگر کم و بیش 10افراد بھی ہوں تو حساب کیجئے۔
یاد رہے کہ وسیب کے مختلف حصوں میں مختلف میڈیا گروپوں کے لئے رپورٹنگ کرنے والے قلم مزدوروں کے مطابق متاثرین کی تعداد 30ہزار خاندانوں سے زیادہ ہے۔
ہمارے برادر عزیز اور معروف سماجی خدمت گار شاہنواز خان مشوری کہتے ہیں متاثرہ خاندان 30ہزار سے زیادہ ہیں یا کم اصل سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومت، متاثرہ اضلاع کی انتظامیہ اور ارکان اسمبلی کہاں ہیں؟
متاثرہ علاقوں خصوصاً تحصیل تونسہ سے تعلق رکھنے والے متاثرین پوچھ رہے ہیں کہ جس رکن اسمبلی نے طوفانی بارشوں اور سیلاب کو قدرت کا عذاب قرار دیتے ہوئے لوگوں کو گناہوں کی معافی مانگنے کا مشورہ دیا کیا اس نے بھی اپنے گناہوں کی معافی مانگ لی ہے ؟
ہماری رائے میں تونسہ سے تعلق رکھنے والے اس رکن اسمبلی کو گناہوں، عذاب، توبہ وغیرہ کی باتیں کرنے کی بجائے یہ بتانا چاہیے کہ ان کے خاندان نے قومی و صوبائی اسمبلی میں علاقے کی کتنی بار نمائندگی کی اور نمائندگی کے ان ادوار میں انہوں نے تونسہ اور اہل تونسہ کی کیا خدمت کی؟
حالت یہ ہے کہ چودھری پرویزالٰہی کو صوبے کا وزیراعلیٰ بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں انہوں نے گجرات کو ڈویژن بنوالیا۔ یہاں سردار عثمان علی خان بزدار پونے چار سال وزیراعلیٰ رہے، وسیع و عریض تحصیل تونسہ کو ضلع نہ بنواسکے۔
اس پر دعویٰ یہ ہے کہ میں بہت بااختیار وزیراعلیٰ تھا۔ کن معاملات میں بااختیار تھے یہ وہ بھی جانتے ہیں۔
پونے چار برسوں میں انہوں نے وسیب کی توخیر کیا خدمت کرنا تھی (کیونکہ وزیراعلیٰ کے طور پر وہ کہہ چکے تھے کہ میں سرائیکی نہیں ہوں) خود اپنی آبائی تحصیل تونسہ کی جو خدمت کی وہ یقیناً حالیہ سیلاب میں بہہ گئی ہوگی۔
خیر چھوڑیئے ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ کرنے والی بات یہ ہے کہ صوبہ پنجاب کی حکومت کے سربراہ کو جشن گجرات ڈویژن سے فراغت مل گئی ہو تو براہ کرم وہ ایک اجلاس بلاکر سیلاب کی صورتحال اور بربادیوں سے آگاہی حاصل کریں۔
صوبائی حکومت سرائیکی وسیب کے کم و بیش 30ہزار متاثرہ خاندانوں کے لئے کچھ کرسکتی ہے تو اس میں تاخیر نہ کرے۔
ایک بار پھر وسیب کے سفید پوشوں، آسودہ گھرانوں۔ متمول حضرات، سماجی خدمت گاروں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیں اپنے بے سروسامان بہن بھائیوں کی امداد کریں۔
ان سب کو اور خود حکومت کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک تباہی سیلابی ریلوں سے ہوئی ہے، پانی آج نہیں تو کل ختم ہوجائے گا۔ ایک تباہی اور بحران پورے وسیب کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ سیلابی ریلوں سے فصلیں متاثر ہوئی ہیں۔
گندم کی پیداوار کے کھوکھلے دعوئوں سے آگے کی حقیقت یہ ہے کہ رواں برس ہدف پورا نہیں ہوا تھا رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کردی۔
لوگوں کے گھر بار ہی نہیں بچے تو محفوظ کردہ اجناس کہاں بچی ہوں گی۔ اولاً تو متاثرہ علاقوں میں حالات بہتر ہونے پر غذائی اجناس ک بحران پیدا ہوگا۔
لوگوں کی بحالی بھی ایک مسئلہ ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ دوسری امدادوں کے ساتھ کم از کم 10لاکھ روپے فی خاندان بحالی سکیم کا ہنگامی طور پر اعلان کرے۔ یہ بہت ضروری ہے۔
پنجاب اسمبلی کے ارکان، وزراء اور مشیروں سے درخواست ہے کہ وہ کم از کم 6ماہ کی تنخواہیں سیلاب زدگان کی مدد کے لئے عطیہ کرنے کا اعلان کریں۔
وسیب کی سیاسی و سماجی تنظیموں کو میدان عمل میں اترناچاہیے یہی ان کا فرض ہے۔
بعض متاثرہ علاقوں کے قرب و جوار کی محفوظ بستیوں سے شکایات مل رہی ہیں کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھادی گئی ہیں۔ ایسا کرنے والوں کو خوف خدا سے کام لینا چاہیے۔
آفت سے کب کون دوچار ہو کسے معلوم اس لئے بھلے وہ اپنا جائز منافع نہ چھوڑیں لیکن خدا کے لئے منافع خوری سے گریز کریں۔ حرف آخر یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے لوگوں کو شعوری طور پر یہ سمجھنا ہوگا کہ انہیں اپنی دنیا خود تعمیر کرنی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر