نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خان صاحب، اسٹیبلشمنٹ، بند کمرے اور کہانیاں ||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ غالباً نومبر 2001ء کے کسی دن کی دوپہر تھی جب تحریر نویس تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے انٹرویو کے لئے ان کی قیام گاہ زمان پارک پہنچا۔ انٹرویو کا اہتمام ہمارے دوست اور اس وقت شوکت خانم ہسپتال کے منیجر پبلک ریلیشن خواجہ نذیر احمد نے کیا تھا۔

خواجہ صاحب اور قلم مزدور برسوں روزنامہ ’’مساوات‘‘ لاہور میں اکٹھے رہے وہ مساوات کے جنرل منیجر تھے۔ زمان پارک والے گھر کی چھت پر دھوپ میں بیٹھے ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد انٹرویو شروع ہوا۔

میں نے عرض کیا، یاد کیجئے جن دنوں میں آپ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے لئے فنڈ ریزنگ کے سلسلے میں شہر شہر گھوم رہے تھے تو مختلف تقریبات میں خطاب کرتے ہوئے کہا کرتے تھے

"پاکستان میں صرف دو شعبوں صحت اورتعلیم کا نظام بہتر ہوجائے تو ہم نہ صرف اپنے قدموں پر کھڑے ہوجائیں گے بلکہ دنیا ہم پر رشک کرے گی ” ۔

ان خطابات میں آپ یہ بھی کہتے تھے کہ

” میں شوکت خانم ہسپتال کے قیام کے بعد ملک بھر میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے اور ہر ضلع میں ایچی سن کالج کے معیار کا تعلیمی ادارہ بنانے کے لئے رابطہ عوام مہم چلائوں گا” ،

شوکت خانم ہسپتال تعمیر ہوگیا وہ ایچی سن کے معیار کے تعلیمی ادارے بنانے کا پروگرام کیا ہوا؟

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ عمران خان نے جواب میں کہا تھا، "پورا نظام ہی کرپٹ ہے، ملک پر چوروں کا قبضہ رہا ہے۔ اس قبضے کو ختم کرائے بغیر انصاف پر مبنی ایسا نظام قائم نہیں ہوسکتا جس میں ہر عام و خواص برابر ہو۔

انہوں نے (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی سے متعلق بعض لوگوں کی کرپشن کی کہانیاں بھی سنائیں "۔

عمران خان ان دنوں جنرل پرویز مشرف کے قریب بلکہ دل میں بستے تھے اور جنرل مشرف بھی انہیں محبوب تھے۔

میں نے عرض کیا کرپشن کہانیاں سنانے اڑانے اور پھیلانے والوں کی اپنی کرپشن کی بھی داستانیں ہیں۔

انہوں نے میری بات کو کاٹا اور بولے، ” یہ سیاستدان (انہوں نے خاص طور پر بھٹو خاندان اور شریف فیملی کا نام لیا) اپنی کرپشن اور اقربا پروری کی پردہ پوشی کے لئے ملکی اداروں کو بدنام کرتے ہیں ” ۔

پھر کہنے لگے "کیا تم اس بات سے انکار کرسکتے ہوں کہ اگر جنرل پرویز مشرف نوازشریف کی حکومت کو ختم نہ کرتا تو ملک دیوالیہ ہوجاتا ؟ ” ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ” نوازشریف کا خاندان پاکستان سے زیادہ بھارت کا وفادار ہے اور بھٹو خاندان پاکستان کو توڑنے کا مرتکب ہوا تھا ” ۔

ان کے سوال نما جواب پر میں ہنس پڑا۔ کہنے لگے ، کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟ میں نے کہا نہیں آپ غلط نہیں کہہ رہے بلکہ آپ کے دونوں سیاسی استاد طارق چودھری اور ہارون الرشید جھوٹ بولتے ہیں یہ دونوں بھٹو خاندان کے خون کے پیاسے ہیں اور جھوٹ بولنا ان کی گھٹی میں شامل ہے ۔

شریف فیملی سے ان کے اختلافات کی وجہ کچھ اور ہے۔

ان کا یہ طویل انٹرویو پہلے دستک کراچی میں شائع ہوا بعدازاں لاہور سے شائع ہونے والے جریدے ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ میں اس کی اشاعت کے لئے مجیب الرحمن شامی صاحب نے کہا کہ عمران خان والے انٹرویو کو ازسرنو لکھ دو۔ ان دنوں میں شامی صاحب کے اخبار روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور میں ایڈیٹر ایڈیٹوریل تھا۔

عمران خان سے ان انٹرویو کے دوران بعض سوالات اور ان کے جوابات پر ہلکی پھلکی نوک جھونک اور گپ شپ بھی چلتی رہی۔ اسی دوران میں نے عرض کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی پرانی خواہش رہی کہ ملک میں ایک جماعت ایسی بھی ہو جو ان کے مفادات کا تحفظ کرے اور ان کے لئے چیلنج بننے والی یا ’’بیعت‘‘ توڑنے والی سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگائے۔

بولے اس کا اسٹیبلشمنٹ کو کیا فائدہ؟ عرض کیا سب سے بڑا فائدہ اسٹیبلشمنٹ کے کرتوتوں کی پردہ پوشی ہے۔ جو بھی اس پر بات کرے گا وہ غدار قرار پائے گا۔

لگ بھگ 21برس بعد مجھے یہ ساری باتیں اس لئے یاد آئیں کہ گزشتہ روز سابق وزیراعظم عمران خان نے آزادی اظہار کے موضوع پر اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا

’’برسوں پہلے جب میں اپنے منشور کے مطابق تبدیلی کے لئے جدوجہد کررہا تھا تو اسٹیبلشمنٹ مجھے (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کی کرپشن کے بارے میں بتاتی تھی‘‘۔ سیمینار میں اپنے خطاب میں انہوں نے اور بھی بہت کچھ کہا مثلاً، اب بھی وقت ہے کہ نیوٹرل اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ کیا انہیں (نیوٹرل کو) ملک کی فکر نہیں۔ میں اقتدار میں تھا لیکن نیب ہمارے انڈر نہیں تھا۔ نیب کا ادارہ میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں ان دس پندرہ چوروں سے اربوں روپے نکلوالیتا۔

چلیں اربوں ڈالر سے بات اربوں روپے تک تو آئی امید ہے کہ کچھ وقت اور گزرا تو خان صاحب کو باقی باتیں بھی سمجھ میں آنا شروع ہوجائیں گی۔

(ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کی کرپشن کہانیوں کے راوی جنرل امجد کا انہوں نے بطور خاص ذکر کیا کہ وہ انہیں کرپشن کی فائلیں دیکھایا کرتے تھے۔

انہوں نے بند کمروں کے فیصلوں پر بھی بات کی کہ ان کے نتائج اچھے نہیں نکلتے۔ سچ پوچھیں تو انہیں اس بات کا اعتراف بھی کرلینا چاہیے کہ اکتوبر 2011ء میں ان کی جماعت تحریک انصاف کی نئی پرواز کے لئے رن وے تعمیر کرنے والے کون تھے۔ جہاز کا بندوبست کرنے والے اور مسافروں کی بکنگ کرنے والے کون ،

وہ اگر اس کے ساتھ ساتھ جنرل شجاع پاشا کے ساتھ بند کمرے میں ہونے والی اس ملاقات کا ذکر بھی کردیتے جس میں روئیداد خان، سیکرٹری داخلہ کے طور پر ریٹائر ہونے والے تسنیم نورانی، بعد کے برسوں میں پاشا کے جانشین بننے والے چودھری ظہیر الاسلام اور چند ’’سابقین‘‘ بھی شامل تھے

تو لطف دوبالا ہوجاتا۔

انہیں یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ 2013ء میں انہیں انتخابی دوڑ میں "پیچھے رکھنے” کی وجہ کیا بنی تھی۔ کیا یہ صرف اس لئے ہوا تھا کہ وہ گلبرگ میں ایک جلسہ کے سٹیج پر لگی لفٹ سے گرگئے اور مزید عوامی جلسے نہ کرپائے یا کرن تھاپر کو دیئے گئے انٹرویو نے انہیں شدید پسندیدگی سے "بس ” پسندیدگی کے مرتبہ پر لاکھڑا کیا تھا؟

بتاسکتے ہیں تو کسی دن یہ بھی بتادیں۔ 2014ء کے لانگ مارچ اور دھرنے کا فیصلہ کہاں اور کس کے بند کمرے میں ہوا تھا؟

قلم مزدور کو اندازہ ہے کہ وہ آدھی ادھوری اور وہی باتیں کریں گے جن سے وہ اپنے مداحین کا سیاسی مخالفین کے خلاف لہو گرم رکھ سکیں۔

ویسے بھی وہ نیوٹرل سے چاہتے کہتے یہی ہیں کہ ’’ہمارے ہوتے ہوئے کسی اور کی ضرورت کیا تھی ” ہم سا ہو تو سامنے لائو؟ ” نیب ان کے ہاتھ میں بالکل نہیں تھا اسی لئے انہوں نے ایک چاند رات کے آغاز پر نیب کے اس وقت کے سربراہ جاوید اقبال کو فون پر کہا تھا آصف زرداری کی بہن کو ہسپتال سے جیل پہنچائو۔ معاف کیجئے گا اصل معاملہ اور قصہ یہ ہے کہ جیسے 2013ء میں عمران خان کے لئے اسٹیبلمنٹ کی محبت میں ’’کمی‘‘ آئی تھی بالکل ایسے ہی ایک سے زائد وجوہات کی بنا پر اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کی محبتیں بھی سرد پڑگئیں۔ پیپلزپارٹی کو 2008ء میں مجبوراً برداشت کیا گیا تھا۔

مجبوراً برداشت کرتے ہوئے بھی جو ہاتھ کی صفائی دیکھائی گئی وہ ڈھکی چھپ بات نہیں۔

لاریب سیاستدان فرشتے نہیں، انسان ہیں۔ فرشتوں کا انسانی سماج میں رچنا بسنا مشکل ہی ہوتا ہے۔ انسان غلطیاں کرتے ہیں سدھارتے بھی ہیں۔ خود کو فرشتہ سمجھ لینے والے خبطِ عظمت کے بانس پر چڑھے رہتے ہیں اور انسانوں کی طرح سوچنے غلطیوں کا ادراک کرنے اور انہیں درست کرنے کی فہم سے محروم ہوتے ہیں ۔

پرانی باتیں اور قصے (16دسمبر 1971ء سے قبل کے) چھوڑبھی دیں تو پچھلے 51برسوں کے دوران ہماری اسٹیبلشمنٹ کی رنگ بازیوں کی داستان رنگین بھی ہے، طویل بھی اور عبرتناک بھی۔ اسلامی جمہوری اتحاد بنوانے کا اعتراف حاضر سروس جرنیل نے یہ کہہ کر کیا تھا کہ ’’ہمیں (فوج کو) ڈر تھا کہ پیپلزپارٹی کو اقتدار ملا تو وہ بھٹو اور پی پی پی کے کارکنوں کو دی گئی سزائے موت اور چند دوسری وجوہات کی بنیاد پر فوج سے بدلہ لے گی‘‘۔

میاں محمد نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کا رومان اور پھر دوریوں کے ٹوٹتے بنتے سلسلے کی داستان بھی ہر کس و ناکس پہ عیاں ہے۔

خان صاحب کے پاس وقت ہو تو اس بات پر ضرور غور کریں کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں استعمال کیا اور بس ، باقی ساری کہانیاں ہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author