رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بادشاہتیں تھیں تو ظلِ سبحانی قانون خود بناتے‘عدالتیں لگاتے‘ سزائیں سناتے اور ان پر عمل درآمد کراتے تھے۔ شہروں میں کوتوال ‘ منصف اور مضافاتی علاقوں میں صوبیدار‘ انتظامیہ‘ جاگیردار اور فوجوں کے سپہ سالارسے لے کر لشکروں کی کمان تک کا تعین خود کرتے۔ آج جنہیں جدید ریاست کے تین ستون کہتے ہیں‘ مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ‘ بادشاہ کی ذات میں مرکوز تھے۔ ہم اس وقت صرف انتظامیہ کے شعبے میں شاہ کے نوکروں کی بات‘ ریاست پاکستان میں ماضی اور حال کے تناظر میں کریں گے۔ مغرب میں اسے بیوروکریسی کہتے ہیں جو دورِ جدید کی ریاست کے فلسفے ‘ قانون کی حکمرانی اور حکومت کے زمرے میں دنیا بھر میں مباحث اور تحقیق کا مرکزی تصو ر ہے۔ ہمارے اردو دانوں نے ویسے کمال کا ترجمہ کیا ہے : نوکر شاہی۔ جو حال ہم نے ریاست کے اداروں کا کیا ہے اور اس میں کمال ہمارے ان حکمرانوں کا ہے جن کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے۔ ہم بیوروکریسی کے بجائے نوکرشاہی ہی کہیں گے۔ سوال تو بنتا ہے کہ آخرکیوں ہماری ریاستی نوکر شاہی میں انگریزوں کے زمانے سے مقابلے کے امتحانوں کا رواج پڑا؟ جو اس امتحان میں بیٹھتے تھے ‘ برطانیہ کی بہترین جامعات میں تعلیم حاصل کرکے آتے تھے۔ اس سے مقامی جامعات کا معیار بھی بہتر ہوا۔ بہتر سے بہتر لوگ مقابلے کا امتحان پاس کر کے بیوروکریسی میں جگہ بناتے رہے۔ کچھ اداروں پر اگر اعتماد بچا تھا تو وہ اعلیٰ سول سروس کے تھے مگر بگاڑ معاشرے میں ایسا پیدا ہوا ہے کہ وہاں بھی کچھ بدعنوان لوگ دیواریں پھلانگ کر پہنچ گئے اور کچھ سکینڈل امتحانی پرچے فروخت کرنے کے ہمارے سامنے آئے ‘ مگر میری رائے میں ابھی بھی یہ واحد قابل اعتماد ادارہ ہے۔ ہماری جامعات کے فارغ التحصیل بہترین طلبا اپنی محنت ‘ ذہانت او ر وسیع مطالعہ کی بنیاد پر پاکستان کی بیوروکریسی میں شامل ہورہے ہیں۔
معاملہ قابلیت کا نہیں۔ بیس سال سے‘ تقریباً ایک دو مرتبہ ہر سال ان کے اداروں میں‘ جہاں ٹریننگ کے بعد سرکاری افسر آخری اور بڑے گریڈ کے امیدوار بنتے ہیں‘ لیکچر دینے کا اتفاق ہوتاہے۔ معیار کے لحاظ سے یہ دنیا کے کسی ملک سے کم نہیں۔ پھر مسئلہ کیا ہے اور بیوروکریسی کووطنِ عزیز میں نوکر شاہی میں کیو ں تبدیل کردیا گیا ؟ اس تباہی کی جڑیں ہماری بگڑی ہوئی پارلیمانی جمہوریت اور بدعنوان حکمرانوں کی مطلق العنانی میں پیوست ہیں۔
پاکستان وجود میں آیا تو ہمیں انگریز حکومت کی نوکر شاہی کی تعلیم کی وجہ سے اخلاقی ‘ قانونی اور پیشہ ورانہ اعتبار سے اعلیٰ درجے کے افسران ضرور مل گئے لیکن ا ن کی افسری کا انداز‘ سوچ اور سیاست دانوں کے ساتھ سلوک کالے اور بھورے انگریزوں جیسا تھا۔ سیاسی دھڑے بندی شروع ہوئی تو بیوروکریسی کے دس سے بھی کم لوگوں نے ریاست پر قبضہ جما لیا۔ سامراجی حکمرانی ‘ جس میں عوام کے نمائندوں کو اقتدار سونپنا نہیں بلکہ اُنہیں کام میں لانا تھا‘ کی روایات آزادی کے بعد رواج پاگئیں۔ باقی رہی سہی کسر عدالت کے ایک فیصلے نے نکال دی کہ گورنر جنرل اسمبلی تحلیل کرنے کا آئینی حق رکھتے ہیں۔ ان میں اقرباپروری کی برائی سرایت کرگئی۔ وہ اپنی افسر کلاس کا خاص خیال رکھتے۔ رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی زمینوں اور متروکہ جائیدادوں کی الاٹمنٹ کے ذریعے خوب نوازا۔
ایوب دور میں اقتدار نوکر شاہی سے منتقل ہوکر نئے حکمرانوں کے پاس چلا گیا۔ افسروں کیلئے تابعداری تو ناگزیر تھی مگر جو بھی قانون تھا اس پر انہوں نے عمل کیا۔سیاسی مداخلت فقط بڑے صاحبوں کے اشارے پر ہوتی۔ کرپشن محدود تھی کہ بڑے صاحب کا ڈرباقی تھا۔دفتروں میں رعب داب کے انگریزی اثر ات نمایاں تھے۔عام آدمی صرف کسی کے وسیلے سے دربار میں حاضری دے سکتا تھا۔ایوب دور گیا تو ہمارا مشہورِ زمانہ عوامی دور شروع ہوا۔ اس کے پس منظر میں ”فخرِ ایشیا‘‘ کے پیش رو جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے آتے ہی تین سو اعلیٰ افسروں کو فارغ کردیا۔ نوکر شاہی خوف میں مبتلا تو پہلے سے تھی‘ ہمارے عوامی رہنما نے اسے مزید لگام دینے کیلئے ایسی سول سروسز اصلاحات کیں جن کے اثرات ابھی تک باقی ہیں۔ ایوب دور میں وہ دو تین وزارتوں میں نو دس سال گزار چکے تھے اور انہیں پتا تھا کہ نوکر شاہی منہ زور ہے۔ مقصد پاکستان سول سروس کوکمزور کرنا تھا۔ دو اصلاحات سے آپ بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں‘ مقابلے کے امتحانات کے بعد سروس گروپ الاٹ نہیں ہوتے تھے‘ اکیڈمی میں ٹریننگ کے بعد ایسا ہونے لگا۔ کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں کے میرٹ پر تو ڈی ایم جی یا پولیس میں آسکتے تھے مگر اکیڈمی کے بعد انہیں ریلوے یا کوئی اور گروپ مل سکا۔ دوسرے یہ کہ وزیرِ اعظم صاحب لیٹرل انٹری کے ذریعے کسی بھی سول سروس گروپ میں بغیر مقابلے کے امتحان کے نوکری دے سکتے تھے۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اور طاقتور سیاستدانوں کے بچوں اور رشتہ داروں کو وزارتِ خارجہ‘ پولیس‘ ڈی ایم جی اور نہ جانے کون کون سی سول سروس میں تعینات کیا گیا۔ یوں سمجھیں کہ بیڑہ ہی غرق کر دیا گیا۔ عوا می دور ہی میں سیاسی گھرانوں کے چشم و چراغ پی آئی اے‘ سٹیل مل اور قومیائے گئے بینکوں‘ مالیاتی اداروں اور ملوں میں جگہ بنانے لگے۔ چند سال کے اندر سب کچھ تباہ ہو گیا۔ ابھی تک قوم بھگت رہی ہے کہ آج لندن‘ نیویارک اور پیرس کیلئے قومی ائیر لائن کی کوئی پرواز نہیں۔ واہ رے ہماری عوامی حکومتیں!
جو کچھ بچا تھا وہ باریاں لینے والے دوبڑے خاندانوں کی سیاست نے اپنا غلبہ قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے دائو پر لگا دیا۔ ضیا الحق کے دور میں غیر جماعتی انتخابات اور ایک نیا سیاسی طبقہ پیدا کرنے کی پالیسی نے نوکر شاہی کو نئے سیاسی کھلاڑیوں کے حوالے کردیا۔ اب کس کس سیاسی خاندان کا رونا روئیں۔ جو بھی نئی حکومت آتی ہے‘ پہلے وہ صوبے کے چیف سیکرٹری اور آئی جی پر وار کرتی ہے۔ بیوروکریسی میں جب سے اپنے بندے رکھنے کی روایت پڑی ہے ‘ اس کی غیر جانبداری جو جدید ریاست کا بنیادی اصول ہے ‘ تحلیل ہوگئی ہے۔اب ہم انہیں بیچارے نہ کہیں تو اور کیا کہیں ‘ کہ مقابلے کے امتحان میں اپنی قابلیت کی بنیاد پر سلیکٹ ہونے والے قابل افسر سیاسی خاندانوں کے طفیلی بن چکے ہیں۔ اپنے پیشے میں یہ پہلا سبق جرمن سوشیالوجسٹ میکس وئیبر کی کتاب سے پڑھتے ہیں ‘ مگر عملی میدان میں من پسند تقرری کے لیے دوبڑے سیاسی خاندانوں اور دیگر سیاسی بڑوں کا سہارا لیتے ہیں۔ قابلیت کو ہم مان لیتے ہیں مگر ایمانداری‘ رزقِ حلال اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے قلم رک جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ پرانی اعلیٰ روایات کے افسر بیوروکریسی میں موجود نہیں ‘ ہوسکتا ہے کہ ان کی تعداد کہیں زیادہ ہو‘ مگر آج کی سیاسی لڑائیوں کے دور میں غلبہ درباریوں کا ہے۔ سیاسی جنگ اور اپنے سیاسی حلقوں میں اپنی جماعت کے سیاسی خاندان کو بااثر اور باوسائل بنانے کے لیے بیوروکریسی کو نوکرشاہی میں ایسے ہی تبدیل کردیا گیا ہے جیسے آمریت میں ہوا کرتا تھا۔ آخری بات کہتے ہوئے تو دم گھٹنے لگتا ہے کہ جب سے ترقیاتی فنڈ اراکینِ اسمبلی کو دیے جانے لگے ہیں ‘ جو عرفِ عام میں سیاسی رشوت کے زمرے میں آتے ہیں‘ نوکر شاہی اور غالب سیاسی جماعت کے درمیان ایک خوفناک گٹھ جوڑ وجود میں آگیا ہے۔ اب اس کے حصے مقرر ہوچکے ہیں۔ سب کو گھر بیٹھے ایک مربوط نظام کے تحت بہت کچھ مل جاتا ہے۔ خود سوچیں ‘ ریاستی ادارے کیسے ٹھیک ہوں گے ‘ ریاست کیسے بنے گی‘ جب نوکر شاہی کسی کے اشاروں کی غلام بن کر رہ جائے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر