مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک قیامت ہے درابن کلاں سے روجھان تک ||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوہ سلمان کے پہاڑی سلسلے میں طوفانی بارشوں کے تیزرفتار پانی نے اس سے ملحقہ سرائیکی وسیب کے علاقوں میں قیامت برپا کررکھی ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے درابن کلاں اور اس سے ملحقہ علاقوں سے شروع ہوں اور راجن پور سے آگے روجھان تک جدھر بھی نگاہ دوڑائیں ہر طرف سیلابی پانی ہے۔

سیلابی ریلوں کی بدولت سب سے ابتر بلکہ یوں کہہ لیجئے بدترین صورتحال سے تحصیل تونسہ دوچار ہے۔

اس تحصیل کے ایک سردار جنہیں عمران خان نے صرف اس لئے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا تھا کہ بقول ان کے یہ سردار اتنا سادہ اور سفید پوش ہے کہ اس کے آبائی گھر میں بجلی تک نہیں ہے۔ بجلی کیوں نہیں تھی پھر کسی موقع پر عرض کردوں گا۔ اس وقت تو کسی کے گھر میں بجلی نہیں ہے ہزاروں کچے، نیم پختہ مکانات اور دوسری عمارتوں کا ملبہ ہے ان سینکڑوں بستیوں میں جو بریاد ہوگئیں۔

مال مویشی سیلابی پانی میں بہہ گیا۔ ایک اندازہ کے مطابق صرف تحصیل تونسہ میں 10ہزار سے زائد خاندان چھتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان ضلع سے روجھان تک سیلاب کی ہلاکت خیزیوں پر ہر شخص نوحہ کناں ہے۔ تنگ نظر الیکٹرانک میڈیا کا بڑا حصہ اپنے مالکان کے مالی اور علاقائی و خاندانی مفادات کے پیش نظر صرف کراچی میں ہوئی بارشوں سے پیدا شدہ صورتحال دیکھارہا ہے۔

گزشتہ شب ایک نجی چینل کے پروگرام میں عرض کیا تھا کہ ’’سرائیکی وسیب کی ابتر صورتحال اور قیامت کے رقص سے کسی کو دلچسپی نہیں لے دے کر کچھ سرائیکی قوم پرست ہیں۔ چند پیپلزپارٹی والے اور یا پھر جماعت اسلامی (ان میں جماعت اسلامی سب سے زیادہ فعال ہے) جو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں یمں مصروف ہیں‘‘۔

سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار تونسوی نے دو دن میڈیا پر اپنے امدادی کاموں کی تشہیر کروائی پھر وہ بھی غائب ہوگئے۔

زمینی حقیقت سرکاری رپورٹوں سے یکسر مختلف ہے۔

آپ جاسکتے ہیں تو جاکر دیکھ لیجئے تحصیل تونسہ کی بستیوں سوکڑ، منگروٹھہ، مندرانی، کوٹ مہوٹی، کلال، وہوا، بستی حبیب، بیٹ جراح، بیٹ اشرف ٹھلہ چاکی، چڑھ، دائرہ شاہ، بودو مناں، مارکھ وائی سمیت لانگو وغیرہ جیسی سینکڑوں بستیاں مٹ چکیں۔

ہمت کیجئے یہ وسیب زادے آپ کے ہی بہن بھائی ہیں دوسرے سیارے سے اتری مخلوق نہیں۔

جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں ڈیرہ اسماعیل خان سے روجھان تک کے درمیانی علاقوں میں مقیم دوستوں عزیزوں اور قارئین کی بھجوائی لگ بھگ 20سے زیادہ ویڈیوز دیکھ چکا۔ ہر ویڈیو خون کے آنسو رلاتی ہے۔ کھلے آسمان کے نیچے بے یارومددگار پڑے وسیب زادوں اور وسیب زادیوں کا نوحہ ہے۔

صورتحال ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بد سے برتر ہوتی جارہی ہے۔ درابن کلاں سے روجھان تک کوہ سلمان سے کے نشیب میں آباد بستیوں کی مخلوق کا کوئی پرسان حال نہیں۔

میں نے گزشتہ شب ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ ’’سرائیکی وسیب کی ٹیکسٹائل ملوں، شوگر اور کھاد فیکٹریوں کے ساتھ فلور ملوں والے اور دوسرے بڑے کاروباری یہ نہ بھولیں کہ وہ اپنی کھادیں، چینی، آٹا، دالیں، کپڑا اور دوسرا سامان زندگی دیگر علاقوں کے ساتھ وسیب میں بھی فروخت کرتے ہیں۔ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے برپا ہوئی بربادیوں میں بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ ہزارہا خاندان اجڑ گئے۔ زندگی کی جو تھوڑی بہت رمق باقی ہے اسے بحال رکھنا بہت ضروری ہے اس لیئے وہ آگے بڑھیں۔ اپنے تباہ حال بہن بھائیوں کی مدد کریں اور یہ نہ بھولیں کہ اگر مخلوق خدا ہی نہ رہی تو فیکٹریوں اور گوداموں کا سامان کہاں فروخت کریں گے؟

مخدوموں، پیروں، جہانگیر ترین، فیصل مختار، رومی خاندان، خواجگان ملتان ہی نہیں ہر خاص و عام کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا یہی شرف انسانی کا تقاضا ہے۔

رہ گئی پنجاب حکومت، تخت لاہور والی تو اس پنجاب حکومت کو سرائیکی وسیب سے کوئی دلچسپی نہیں اسے اور بھی کام ہیں سودی کاروبار کا بل دوسری دفعہ پاس کرکے اس نے "تاریخ” رقم کرلی ہے یا پھر اس سے قبل ڈیرہ غازی خان میں سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کے احتجاجی مظاہرہ میں شریک افراد کے خلاف مقدمہ درج کروایا گیا تھا اب وزیر اعلیٰ کے ضلع گجرات کو ڈویژن بنادیا گیا، افسوس یہ ہے کہ عثمان بزدار نے اپنے دور میں تونسہ میں سب سے زیادہ ترقیاتی فنڈز اور منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔ کہتے تھے ہم ڈیم بنارہے ہیں اس سے ہم رودکوہیوں کا پانی جمع کریں گے، وہ ڈیم کہاں گئے؟

سیلابی پانی تونسہ ڈیرہ اسماعیل خان روڈ (انڈس ہائی وے) پر خونی گشت کررہا ہے۔ بالائی سطور میں سیلاب میں برباد ہونے والی جن بستیوں کے نام لکھے یہ وہ ہیں جس کے بارے میں دوستوں اور قارئین نے مفصل اطلاعات بھجوائیں ورنہ پورے تقسیم شدہ سرائیکی وسیب میں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان (یہ ضلع خیبر پختونخوا میں ہے) سے راجن پور کی تحصیل روجھان تک ابتر صورتاحل ہے۔ اجڑ جانے والوں کے نوحے ہیں۔ بچھڑ جانے والوں کا ماتم ہے۔ مال مویشی کے سیلاب میں بہہ جانے کا غم چہروں سے عیاں ہے۔ وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا نا

’’دکھ اور طرح کے ہیں دوا اور طرح کی‘‘

حقیقت میں اس وقت ویسی ہی صورتحال ہے۔

آفت کی ہر گھڑی وسیب والوں کو احساس دلاتی ہے کہ ہم اس ملک میں درجہ سوئم اور صوبہ پنجاب میں درجہ چہارم کے شہری ہیں۔ یہی تلخ حقیقت ہے۔ احباب ناراض ہوتے ہیں جب ’’سرائیکی وسیب کو تقسیم شدہ مقبوضہ سرائیکی وسیب لکھتا ہوں‘‘۔

ان احباب سے درخواست ہے دل پر ہاتھ رکھ کر بتلایئے، حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی صورتحال میں وفاق اور تخت لاہور نے سرائیکی وسیب کے لئے کیا کیا؟ کتنی امداد بھجوائی؟

حالت یہ ہے کہ متاثرہ علاقوں کے پٹواری اجڑے پجڑے شہریوں سے کہتے ہیں جائو شناختی کارڈ لائو پھر امداد ملے گی۔

بالکل بارشوں اور سیلاب سے برباد ہونے والوں کو اہلخانہ کی بجائے شناختی کارڈ محفوظ مقامات پر منتقل کرنے چاہئیں تھے۔ کیوں محفوظ نہیں کئے۔

یہاں ایک درخواست فیس بکی مجاہدین سے بھی ہے خدا کے لئے سوشل میڈیا پر صرف درست معلومات لکھیں افواہوں کو آگے بڑھانے سے گریز کریں۔ مکرر عرض ہے سرائیکی وسیب، بلوچستان اور سندھ حالیہ بارشوں اور سریلابی ریلوں سے بری طرح متاثر ہوئے۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان کے متاثرہ علاقوں کے لئے پیکیج کا اعلان کیا کچھ دیر قبل جنوبی سندھ کیلئے بھی امداد کا اعلان کردیا گیا ۔ایک نظر کرم سرائیکی وسیب پر بھی اگر ہوجائے تو بہتر ہے۔

خود پنجاب حکومت اور جوڈیشل وزیراعلیٰ دونوں کے پاس وقت ہو تو سرائیکی وسیب سے بلند ہوتے نوحوں کو توجہ سے سنیں۔ آہ و فغاں ہے، فریاد ہے۔ زندگی بھر کی جمع پونجی اور چھت سے محرومی کے نوحے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کوہ سلمان کے پہاڑی سلسلے سے نیچے آباد سرائیکی وسیب کے اضلاع کو آفت زدہ اضلاع قرار دیا جائے ہاں مگر صرف آفت زدہ اضلاع قرار دینا کافی نہیں ہوگا حکومت کو اپنے فرائض پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

میں ایک بار پھر سرائیکی وسیب کے متمول خاندانوں، مخدوموں، پیروں، صنعت کاروں اور دیگر سے ہاتھ باندھ کر درخواست کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ میدان عمل میں اتریں اپنے بے نوا بہن بھائیوں کی مدد اور ان کی باعزت بحالی کا سامان کریں تاکہ اجڑی بستیوں کے خاندانوں کو یہ احساس نہ ہو کہ ان کا کوئی بھی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: