نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فقیر راحموں سے ایک ’’ملاکھڑے‘‘ کی روداد ||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقیر راحموں بڑا ظالم ہے، 14اگست کو بٹوارے کے 75سال مکمل ہونے پر سٹیٹ بینک کی جانب سے 75روپے سکہ رائج الوقت کا یادگاری نوٹ جاری ہونے پر بہت چیں بچیں ہورہا تھا۔

دریافت کرنے پر کہنے لگا شاہ جی، اس یادگاری نوٹ پر تصاویر کے حقیقی حقدار محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور اورنگزیب عالمگیر تھے۔

نوٹ کے دوسری طرف ’’مارخور‘‘ کی تصویر کی بجائے ان غیرریاستی لشکروں کے سربراہوں کی تصاویر لگانی چاہئیں تھیں جنہوں نے ریاست کے ’’ارمان‘‘ پورے کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر آبادی کنٹرول کرنے کے منصوبے پر عمل کیا۔

یار فقیر تم اتنے سنگدل تو کبھی نہ تھے یہ کیا کہہ رہے ہو؟

جواب ملا تم کیا ہو سچ لگنے کی بیماری میں مبتلا اس کا فائدہ بتائو۔ ابھی چند دن پہلے چھ خبریں جمع کرکے ترتیب سے لکھے گئے تمہارے کالم میں ایسا کیا تھا کہ جس پر کچھ بلونگڑے اعتراض کرتے پھر رہے تھے؟

کالم کو چھوڑو صحیح یا غلط میں خود دیکھ لوں گا لیکن یہ 75روپے والے یادگاری نوٹ کی تصاویر والی بات جو تم کررہے ہو اس کا کوئی سر پیر ہے یا نہیں ، ؟

کہنے لگا شاہ جی، قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ہندوستان میں پاکستان اس دن ہی بن گیا تھا جب یہاں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔ مطالعہ پاکستان کے حساب سے اس ہندوستان میں اسلام کا نور محمد بن قاسم کے لشکر کی آمد کے بعد پھیلا۔

ہم نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ اسلام بعض روایات کے مطابق سرکاردوعالمؐ کی حیات میں ہی ہندوستان پہنچ چکا تھا۔

جبکہ بعض مصنفین کے مطابق سائوتھ ہندوستان میں مقیم عرب تاجر خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کے دور میں آبائی وطن گئے تو انہیں نئے حالات اور دین سے آگاہی ہوئی انہوں نے اسلام قبول کیا یہی ہندوستان میں اولین مسلمان تھے۔

محمد بن قاسم کا حملہ ہندوستان پر نہیں سندھ پر تھا سندھ اس وقت ایک الگ مملکت کے طورپر وجود رکھتا تھا۔ یہاں بھی تاریخی حقیقت یہ ہے کہ مقامی راجہ، راجہ داہر کے لشکر کا عرب دستہ ان مسلمانوں پر مشتمل تھا جو سندھ میں پناہ لئے ہوئے تھے۔

اب بتائو محمد بن قاسم والے فوٹو کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی تمہیں؟

تڑخ کر بولا، بس تم ٹھہرے ہمیشہ سے اسلام دشمن بندے تمہیں کیا معلوم کہ محمد بن قاسم، محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور اورنگزیب عالمگیر کی ہندوستان میں تبلیغ و ترویج اسلام کے حوالے سے کیا خدمات ہیں۔

اسے احمد شاہ ابدالی کے حملوں کے حوالے سے بابا بلھے شاہؒ کا شعر سنایا تو جواب ملا سید پرستی کے مریض ہو ایک نیک نام عبادت گزار اور اسلامی لشکر کے فاتحہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہو یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہمیشہ سے ہی ایسے ہو۔

یار فقیر دیکھو نہ حملہ آور تو حملہ آور ہی ہوتے ہیں۔

اچھا چلو یہ بتائو تمہیں اورنگزیب عالمگیر جیسے درویش و خدا ترس حکمران سے کیا بیر ہے فقیر راحموں نے سوال کیا؟

بالکل بھی نہیں مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے سبھی کہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی بھائی چھوڑا نہ والد نہ کوئی نماز قضا کی ۔ ٹوپیاں سی کر گزر اوقات کرتے تھے۔

اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا، میں تم جیسے آزاد خیالوں کی تکلیف اچھی طرح سمجھتا ہوں یہ تم بھی جانتے ہو کہ اقتدار کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا۔ عثمانی خلیفہ کیا کرتے تھے؟

اورنگزیب عالمگیر نے کیا غلط کیا کچھ بھی نہیں۔ تمہیں اصل تکلیف یہ ہے کہ برصغیر کے عیاش مسلمان حکمرانوں کے درمیان سے ایک پانچ وقت کا نمازی تہجد گزار اور درویش شخص (اورنگزیب عالمگیر) ہندوستان کا بادشاہ کیوں بن گیا۔

دوسری وجہ اس کے دورمیں تمہارے محبوب و ملحد صوفی شاعر سرمد کو سزائے موت دیئے جانا ہے۔

معزز علمائے کرام اور مفتیان عظام نے سرمد کے کفر کا فتویٰ دیا تھا خدا خوفی میں مبتلا اورنگزیب نے اس پر عمل کروالیا ویسے شاہ جی تمہارے محبوب شاعر کو توبہ کرنے کا وقت دیا گیا لیکن اس نے توبہ کی نہ معافی مانگی۔

گردن مارے جانے کے وقت جلاد کےساتھ ہوا اس کا مکالمہ تم ہی نے ایک کالم میں لکھا تھا نا۔ کیا لکھا تھا،

’’یار نے ملاقات کو بلایا ہے وقت ملاقات اسی کا مقرر کردہ ہے، تم تلوار اٹھائو گردن مارو تاکہ دیدار یار کی تمنا پوری ہو‘‘۔

اب بتائو یہاں سرمد یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ

"یا اللہ مجھ سے سمجھنے سیکھنے میں غلطی ہوئی وقت آخر میں پورے یقین کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے تیری ہی طرف پلٹتا ہوں‘‘۔

میں اسی حیرانی میں ہی پھنسا ہوا تھا کہ فقیر راحموں نے کہا چلو شاہ جی تمہیں اگر پسند نہیں تو ان بزرگوں کو چھوڑ دیتے ہیں اب ایمانداری سے بتائو کہ 75روپے کے نوٹ پر تصاویر کی اشاعت کے حقداروں میں اگر مقابلہ ہو تو جنرل ایوب خان، جنرل آغا محمد یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف سے ز یادہ کون حقدار ہوسکتا ہے۔

کس طرح انہوں نے سیاستدانوں کے برباد کئے ہوئے ملک کو جی جان سے محنت کرکے اپنے قدموں پر کھڑا کیا۔

کیسا بنایا سنوارا۔

مجھے ایک بار پھر حیرانی ہوئی۔ آگے بڑھ کر غور سے ہلاجلاکر تصدیق کی کہ یہ فقیر راحموں ہی ہے نا یا اس میں کوئی ’’بدروح‘‘ سماگئی ہے۔ فقیر تو کبھی ایسا نہیں تھا۔

آخر میں نے پوچھ ہی لیا یا فقیر آخر مسئلہ کیا ہے۔ کوئی پریشان ہے۔ جواب ملا بالکل نہیں۔ پھر ایسی بہکی بہکی باتیں کیوں کررہے ہوں تم تو کبھی ایسے نہیں تھے۔

فقیر راحموں نے کہا بس اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ تمہارے تاریخی مغالطوں کا جی بھر کے پوسٹ مارٹم کیا کروں گا۔ وہ تو ٹھیک ہے مگر یہ اتھل پتھل ہوا کیسے؟ دریافت کیا،

کوئی اتھل پتھل نہیں ہدایت کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ انسان جب چاہے ہدایت کے لئے رجوع کرے۔ بس میں نے سوچا اور فیصلہ کیا کہ تمہارے ساتھ گزرے چونسٹھ برسوں (میں نے ٹوکتے ہوئے کہا ظالم ابھی 4ماہ اور 10دن باقی ہیں چونسٹھ برس پورے ہونے میں) میں تمہارے ساتھ رہ کر جو گمراہی سمیٹی اب اس کا ازالہ کیا جائے۔

اچھا شاہ ویسے 4ماہ 10دن بعد جب تم پورے چونسٹھ برس کے ہوجائو گے تو کون سا ہدایت یافتگان میں شمار ہونے لگو گے۔ ایسے ہی رہو گے ہر چیز میں سے کیڑے نکالتے۔ اگر مگر چونکہ چنانچہ لکھتے۔

یار فقیر مہربانی کر تیری باتوں سے ہارٹ فیل ہوجائے گا۔

ارے کچھ نہیں ہوتا تم بڑے ڈھیٹ بندے ہو ہارٹ فیل ہونے سے رخصت ہونے والے نہیں پہلے پڑے دل کے دوروں نے تہمارا کیا بگاڑ لیا ؟ ۔

پھر ایک دم موضوع بدلتے ہوئے فقیر راحموں نے کہا شاہ جی یہ تمہاری محبوب پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی پی ڈی ایم کی مخلوط وفاقی حکومت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا ’’مفتا‘‘ کب تک لگا رہے گا؟

کیوں کیا ہوا میں نے پوچھا۔ کہنے لگا دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہورہی ہیں

یہاں رات کے اندھیرے میں یہ ٹافیاں گولیاں فروخت کرنے والا وزیر خزانہ پٹرول کی قیمت بڑھادیتا ہے کچھ خوف خدا اور عوام کے حالات کا اسے احساس ہے کہ نہیں؟

سچ پوچھیں تو پہلے میں نے رب کا شکر ادا کیا کہ فقیر راحموں نے موضوع بدل لیا ہے پھر خوب ’’واٹ‘‘ لگائی وزیر خزانہ کی۔ ویسے بات تو درست ہے ڈالر کی قیمت پاکستان میں کم ہورہی ہے۔ دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مسلسل کم ہورہی ہیں اس کے باوجود ہمارے یہاں مہنگائی کم ہوتی ہے نہ پٹرولیم کی قیمتیں۔

میں ابھی اسی گھٹالے پر غور کررہا تھا کہ کہنے لگا یار شاہ جی، پٹرولیم کی قیمتیں بڑھانے کا مطلب پیاروں کے اخراجات پورے کرنا ہے۔

میں نے پیاروں بارے جاننے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ موصوف لائبریری سے باہر جاچکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author