مئی 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صدیق عالم کی چینی کوٹھی کا باپ، ہماری ماں اور بوسیدہ والدین!!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

سب کاموں کے لیے رضیہ نامی ملازمہ رکھی جا چکی تھی جو چوبیس گھنٹے پاس رہتی تھی۔ ماں خود سے باتیں کرتی، بڑبڑاتی، گم ہو جانے والوں کو آوازیں دیتی۔ ماضی کے لمحات پھر سے زندہ ہو چکے تھے اور وہ ان میں جیتی تھی۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے ان آٹھ برسوں میں انہیں ہمیشہ نیم بے ہوشی کی حالت میں بستر پر پڑے ہوئے پایا جبکہ ان کا آدھا چہرہ پٹی میں جکڑا ہوا ہوتا۔ ان کی جانگھوں کے درمیان سے کیتھیٹر کی ایک نلکی باہر نکل کر پلنگ کے نیچے رکھے ایک پیشاب کے مرتبان کے اندر چلی گئی تھی۔ ان کی نلکی سے لگاتار پیشاب چوتا رہتا اور آیائیں ان کی نجاست صاف کرتے کرتے تھک جاتیں۔ اکثر میں نے ان لوگوں کو جبکہ انہیں لگتا کوئی دیکھ نہیں رہا ہے، ابا کو کوستے اور ان کے ساتھ بہت ہی برا برتاؤ کرتے دیکھا تھا بلکہ ایک بار تو میں نے ایک بدمزاج آیا کو اپنی ساڑھی اٹھا کر ان کے چہرے پر پیشاب کرتے ہوئے بھی پایا تھا جبکہ اسے علم نہیں تھا کہ میں چوری چھپے یہ دیکھ رہا تھا۔

(صدیق عالم۔ چینی کوٹھی)

کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں انسانی المیے ایک ہی طرح سے رونما ہوتے ہوں؟ کیا سرحدوں، دیواروں اور معاشروں کے بدل جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟ شاید ظلم بھی خوشبو اور ہوا کی طرح ہے، خطہ کوئی بھی ہو، اس کی شکل وہی رہتی ہے۔

صدیق عالم صاحب، ہم نہیں جانتے کہ چینی کوٹھی میں آپ کے کردار وکیل نے اپنے باپ کی بے کسی کا عالم جس طرح بیان کیا، وہ آپ کا مشاہدہ تھا یا تخیل نے زندگی کا یہ رخ آپ کو سجھایا مگر کیا کیجیے کہ آپ نے ہماری دکھتی رگ چھیڑ دی۔

*
”شام ہو گئی، اندھیرا ہو گیا، اندر آ جا میرے بیٹے! بس کر بہت کھیل لیا“
”آ لینے دو آج تمہارے ابا جی کو، بتاؤں گی تم نے آج ہوم ورک نہیں کیا“
”بے بے جی، بے بے جی، کہاں ہو تم؟“
”ابا جی، شاہ جی، یہ گراموفون تو بہت اچھا ہے۔ بڑا مزا آتا ہے سن کر“
”نینو کے ابا، آج اتنی دیر لگا دی دفتر سے“
”کیا کرتے ہیں آپ؟ ساری تنخواہ میرے ہاتھ میں۔ جیب میں ایک روپیہ بھی نہیں“
”میں جا رہی ہوں روبی کی امی کے گھر شام کی چائے ادھر ہی پیؤں گی“
”ننھی، تمہارا نیا سوٹ سی دیا میں نے، ذرا پہن کر دکھاؤ“
”رضا کے ابا، آپ کے لئے میں نے السی کے لڈو بنائے ہیں“
گاؤں میں جب شاہ جی سائیکل پر بیٹھ کر آئے تو سارا گاؤں دیکھنے کے لیے اکٹھا ہو گیا ”
”ہمارے گھر بہت سی بھینسیں تھیں“
”میں شادی والے دن بہت روئی، لیکن پنڈی آ کر مجھے بہت اچھا لگا“
کون تھی وہ؟ محبت، احساس اور خیال میں گندھی ہوئی، اپنے خیالوں اور خوابوں سے ہمکلام!

”عجیب عورت ہے یہ، منہ میں زبان ہی نہیں ڈالتی۔ سارا دن بک بک، ساری رات بڑ بڑ، سونے ہی نہیں دیتی کم بخت۔ بولے جاتی ہے بولے جاتی ہے“

”بہن میں نے آپ کو تو کچھ نہیں کہا“ وہ دھیرے سے بولی۔

”تو یہ باتیں سارا دن ہمیں ہی سناتی ہو نا۔ کبھی یہ کبھی وہ، کبھی اس کو بلا دو، کبھی اس کو، کبھی اماں، کبھی ابا، کبھی رضا کے ابا کبھی حسن۔

سمجھتی ہی نہیں ”دوسری عورت چیخ کر بولی۔
”آپا جی آپ کیوں اتنا ناراض ہو رہی ہیں؟“ پہلی عورت نے دھیرے سے کہا۔

”ناراض؟ خبیث عورت، دل کرتا ہے گلا دبا دوں تیرا۔ دن رات تیری بکواس سنو، نہ سونے دیتی ہے، نہ سانس لینے دیتی ہے۔ دن بھر جی جی کرو، رات بھر آنکھ نہ لگاؤ“ دوسری طیش میں تھی۔

”آپا جی آپ سو جایا کریں نا، میں آپ کو تکلیف نہیں دیتی“ پہلی بولی۔
”تکلیف کی بچی، تیری فضول کی بک بک سن کر سر درد ہی نہیں ختم ہوتا، نیند کیا خاک آئے گی“ دوسری بولی۔
”نہیں آپا جی، آپ ناراض نہ ہوں، آپ سو جایا کریں“ پہلی بولی۔
” چپ کرے گی اب یا دوں ایک تھپڑ“ دوسری کا غصہ ٹھنڈا ہونے میں نہیں آتا تھا۔
”نہ کرو خالہ، نہ کرو، بے چاری کو تھپڑ تو نہ مارو“ ایک طرف بیٹھی تیسری عورت بولی۔
” تو چپ کر رضیہ، یہ ایسے نہیں چپ بیٹھے گی جب تک دو تھپڑ نہ رسید کروں اسے“ دوسری نے کہا۔
ٹھاہ، ٹھاہ۔

”نہ کرو آپا جی نہ کرو، درد ہوتا ہے۔ میں نے آپ کو تو کچھ نہیں کہا“ پہلی عورت نے تھپڑ کھا کر سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔

”بکواسی عورت، ہمیں ہی تو سارا دن مصیبت میں ڈالتی ہے“ دوسری بولی۔
” آپا جی، اب نہیں بولوں گی، نہ مارو مجھے، پکا وعدہ“ پہلی ابھی بھی رو رہی تھی۔

”تو کہاں باز آتی ہے، تھپڑ کھا کر پانچ منٹ ہی چپ رہتی ہے۔ پھر وہی گردان، اس کو بلا دو، اس کو بلا دو، ہائے میرا صفدر، ہائے میرا طاہر۔ کہاں سے لائیں ان کو؟ سمجھتی ہی نہیں“ دوسری چیخ کر بولی۔

” آپا جی معاف کر دو، اب نہیں کہوں گی“ کراہتی ہوئی آواز۔
” تو کہاں باز آئے گی، ابھی پھر شروع ہو جائے گی“
”نہیں آپا جی اب نہیں بولتی“
”ہاں اگر بولی نا تو زبان پر لال مرچیں ڈالوں گی پھر بول کر دکھانا“
”خالہ نہ کر، ایسا نہ کر۔ اس کے بچوں کو پتہ چل گیا تو“ تیسری عورت ڈر کے بولی۔
”چل ری چپ کر کے بیٹھ، کون بتائے گا بچوں کو؟“ دوسری نے ڈانٹ کر کہا۔
پہلی عورت سسکیاں بھرتی رہی۔
*

” میں صدقے جاؤں اپنی بی بی کے، کیا ہی پر نور چہرہ ہے اور اتنی پیاری میٹھی باتیں، جی چاہتا ہے سنتے ہی رہیں“ ادھیڑ عمر عورت لہجے میں شیرینی بھرے بول رہی تھی۔

”ماسی شکریہ آپ کا، ان کا اتنا خیال رکھنے کا۔ یہ ہمیں بہت پیاری ہیں۔ آپ کو میں اسی لیے تو اس گھر میں لایا ہوں کہ آپ ان سے باتیں کرتی رہا کریں۔ انہیں باتیں کرنے کا شوق ہے نا“ وہ پینتیس چالیس کی عمر کا خوش شکل مرد تھا۔

”میں واری، میں صدقے، صاحب جیتے رہو، ان پہ سے ہماری جان بھی قربان۔ ہماری بی بی صاحبہ ہیں ہی اتنی اچھی۔ جی چاہتا ہے بولتی رہیں اور ہم ان کی باتیں سنتے رہیں“ گھاگ عورت بولی۔

” ماسی آپ ان کو خوش رکھیں گی نا تو ہم آپ کو خوش رکھیں گے۔ آپ کو جو چاہیے ہو، مجھے بتائیے میں کینیڈا سے بھیجوں گا۔ رضیہ تم بھی بتاؤ“ اس مرد نے دونوں عورتوں کو مخاطب کیا۔

”صاحب، کیسے شکریہ ادا کروں؟ اس بڑھیا کو اتنی عزت، اتنا مان دینے پر“

”نہیں ماسی، آپ کا کوئی احسان نہیں۔ آپ میری ماں کا خیال رکھتی ہیں، میں آپ کا خیال رکھوں گا۔ میں آپ کو عمرے پر بھیجوں گا۔ آپ کو جو تنخواہ دیتا ہوں وہ آپ اپنے گھر بھیج دیا کریں۔ آپ کو یہاں اور کوئی بھی کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ رضیہ ان کا کام کرے گی، آپ امی کی باتیں سنا کریں، باتیں کیا کریں کسی سہیلی کی طرح“ مرد کے لہجے میں اپنی ماں کے لیے پیار تھا۔

”میں صدقے، میں قربان اپنی بی بی کے۔ کیا بچے پیدا کیے بی بی نے۔ میں اپنی جان سے بھی بڑھ کر خیال رکھوں گی“

”ماسی، امی اتنی خاموش کیوں ہیں؟ بول ہی نہیں رہیں، طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟“ مرد کو کچھ تشویش ہوئی۔

”صاحب ابھی نہلایا دھلایا ہے نا شاید نڈھال ہیں تھوڑی سی۔ ابھی ٹھیک ہو جائیں گی۔ بی بی جی، بی بی جی، بات کریں، آپ کا بیٹا پاس بیٹھا ہے“

”نہیں میں نہیں بولوں گی، میں نہیں بولوں گی“ بوڑھی عورت دھیمی آواز میں بولی۔
”کیوں امی؟ کیوں؟ کیا ہوا؟“ بیٹے نے بے قرار ہو کر پوچھا۔
”صاحب جی تھک گئی ہیں نا، شاید نیند آ رہی ہو گی“ رضیہ بولی۔

”چلو ٹھیک ہے، سلا دو انہیں۔ میں تھوڑی دیر بعد آ جاؤں گا پھر انہیں دیکھنے“ بیٹے نے جھک کر ماں کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کمرے سے نکل گیا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب زندگی سے بھرپور، محبت و الفت سے گندھی ہوئی، چھ بچوں کی ماں الزائمر کا شکار ہو کر اپنی پہچان کھو بیٹھی تھیں۔ زمانہ، وقت، رشتے، پہچان، چہرے دھندلا چکے تھے۔ اب کچھ تھا تو ماضی کی راکھ کریدتی ایک پچاسی برس کی عورت، بھرپور زندگی کی یادوں سے مالا مال، اپنوں کو تلاشتی۔ اس کا جہاں اور تھا جہاں وہ ان کے ساتھ رہتی تھی جن میں سے کچھ وقت کے سفر کی دھول بن چکے تھے اور کچھ اس کے ساتھ تو تھے مگر آنکھ شناخت گم کر چکی تھی۔

ماں کو اس حال میں دیکھ کر بچوں کا دل دکھ سے بھر جاتا مگر اب کچھ بھی ممکن نہیں تھا سوائے اس کے کہ اس مٹی کی مورت کو سینت سینت کر رکھا جائے۔

سب کاموں کے لیے رضیہ نامی ملازمہ رکھی جا چکی تھی جو چوبیس گھنٹے پاس رہتی تھی۔ ماں خود سے باتیں کرتی، بڑبڑاتی، گم ہو جانے والوں کو آوازیں دیتی۔ ماضی کے لمحات پھر سے زندہ ہو چکے تھے اور وہ ان میں جیتی تھی۔

اماں کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر عورت کا ساتھ ہونا چاہیے جو ان کی تنہائی کا بانٹ سکے، باتیں کر سکے، سن سکے۔ یہ ان کے منجھلے بیٹے کا خیال تھا۔ چھ بچوں میں سے پانچ خدا کی زمین پر بکھر کر اپنی دنیا بسا چکے تھے مگر ماں سے غافل نہ تھے۔ کینیڈا میں رہنے والا منجھلا ہر وقت ماں کی زندگی بہتر بنانے کا سوچتا رہتا۔ خلیج میں بسنے والی بیٹی ہر دو تین ماہ بعد ماں کو دیکھنے آتی۔ چھوٹا بیٹا اور بہو تو دن رات پاس تھے ہی۔

پینسٹھ سالہ شریفاں کا بستر اماں کے کمرے میں لگا دیا گیا، رضیہ پہلے ہی وہاں سوتی تھی۔ بیٹا صبح صبح ماں کو مل کر کام پہ چلا جاتا۔ بہو گھر کے کام کاج نبٹاتی، ساتھ میں ساس کی خبر گیری کرتی، رضیہ اماں کو سنبھالتی اور شریفاں اماں سے باتیں کرتی۔ گھر میں بچہ تو کوئی تھا نہیں سو تین عورتیں ایک بوڑھی عورت کو مل کر سنبھالتیں۔

بوڑھی عورت کے بچوں کی سب ہدایات پر عمل کیا جاتا۔ اماں صاف ستھری نظر آئیں، اچھے کپڑے پہنائے جائیں، پیمپر تھوڑی تھوڑی دیر بعد بدلا جائے۔ ہر دوسرے دن نہلایا دھلایا جائے، کنگھی پٹی، لوشن، کریم، مالش، خوشبو، پاؤڈر ہر چیز وافر مقدار میں موجود تھی۔ خوراک میں دودھ دلیہ، فروٹ، یخنی، غرض سب کچھ ہی۔

ماں نہیں تھی وہ، موم کی گڑیا تھی جسے وہ سب نہ صرف بنا سنوار کر رکھنا چاہتے تھے بلکہ سرد و گرم سے بچانا بھی چاہتے تھے۔

کینیڈا میں رہنے والا بیٹا موجود تھا جب خلیج سے بیٹی ملنے آئی۔

رات کی فلائٹ، تھکی ماندی صبح کے وقت پہنچی، ماں کے پاس کچھ دیر بیٹھی۔ ماں سے پوچھا کہ میں کون ہوں؟ ماں نے ذہن پہ زور ڈالا، سوچا، پھر کہا پتہ نہیں۔

کوئی بات نہیں، شام میں پہچان لیں گی، ابھی نیند میں ہیں، بیٹی نے خود کو تسلی دی اور ساتھ والے بیڈ روم میں سونے چلی گئی۔

” آپی آج مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے، میں رضا کے ساتھ جا رہی ہوں۔ طاہر بھائی کسی کام سے بنک چلے گئے ہیں۔ آپ سو جائیے۔ اماں کے پاس شریفاں اور رضیہ ہیں“ بھابھی نے نند کے کمرے میں جھانکتے ہوئے بتایا۔

” ہاں تم جاؤ، میں تھوڑی دیر سو لوں، فلائٹ لمبی تو نہیں تھی لیکن رات کی فلائٹ نیند خراب کر دیتی ہے“ نند نے جواب دیا۔

بیٹی کچھ ہی دیر سوئی ہو گی جب اس کی آنکھ کھلی اور اس نے تین عورتوں کی آوازیں سنیں۔
ایک ڈری ڈری گھگیائی ہوئی، دوسری غیض و غضب سے بھری اور تیسری کچھ کچھ نادم۔

پہلے تو سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے اور کیا سن رہی ہے؟ پھر دل کی دھڑکن نے احساس دلایا کہ وہ زندہ ہے اور آنسوؤں نے سجھایا کہ صورت حال کیا ہے؟

جی چاہتا تھا کہ جا کر اس شیطان صفت عورت کا منہ نوچ لے جو اس عورت کا یہ حشر کر رہی تھی جو اس ظلم کو روکنے پہ قادر نہیں تھی اور جس کے طفیل وہ اپنا رزق کما رہی تھی۔

جس وقت بوڑھی عورت کو تھپڑ مارا گیا وہ تڑپ گئی، سسکیوں اور آنسوؤں کے سیلاب میں وہ بہتی جاتی تھی مگر اسے پوری صورت حال سمجھنی تھی۔

تھوڑی دیر میں وہ ماں کے کمرے میں پہنچ گئی جہاں وہ ڈری سہمی بیٹھی تھیں، آنسوؤں کی لکیریں ان کے جھریوں زدہ چہرے پر نظر آتی تھیں۔ بیٹی کا بس نہیں چلتا تھا کہ دونوں عورتوں کو ایک منٹ سے پہلے گھر سے نکال دے۔ لیکن اسے بھائیوں کا انتظار کرنا تھا۔

بیٹوں نے جب یہ کتھا سنی تو سب مل کر رو دیے۔ کیا کہتے اس عورت سے جس نے دنیا و مافیہا سے بے خبر عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا سوائے اس کے کہ تم نے اچھا نہیں کیا ایک بے کس عورت پہ ظلم ڈھا کر۔ شریفاں کو اسی وقت فارغ کر دیا گیا۔ رضیہ بہت شرمندہ تھی کہ اس نے یہ سب کچھ گھر والوں کو کیوں نہیں بتایا۔

یہ کہانی ہماری ماں کی ہے۔ خلیج سے ہم ہی آئے تھے اور خون کے آنسو پیتے ہوئے ہم نے اپنی ماں پر یہ تشدد ہوتے سنا۔ جگر پارا پارا ہو گیا۔ وقت اور زمانے کی بھول بھلیوں میں اپنے آپ کو بھول جانے والی ماں، جن کے الزائمر شدہ زندگی کے آخری برسوں کو اولاد نے سہل بنانے کی بہت کوشش کی مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں چوک ہو ہی گئی۔ معاف کر دیجیے امی جان۔

اماں اگر آج زندہ ہوتیں تو نوے موم بتیاں بجھاتے ہوئے کیک کاٹتیں، اور پھر مسکرا کر کہتیں، بلاؤ اپنے ابا کو وہ بھی کیک کھا لیں۔

اماں سالگرہ مبارک!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: