حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جب بھی اپنے آبائی وسیب ( علاقے ) سرائیکی وسیب کی طرف دیکھتا ہوں تو ہمیشہ شاہد اقبال کا ایک شعر یاد آجاتا ہے۔
شہر کا رستہ پوچھنے والو شہر کا موسم ٹھیک نہیں۔
اجڑی گلیاں تپتے آنگن دکھ ویرانی تیز ہوا۔
اچھا یہ محض شاعر کا تخیل نہیں بلکہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے حکمران بھی آنکھیں چراتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو بات بات پر طعنے مارتے ہیں کہ صدر وزیراعظم وزیر خارجہ سپیکر قومی اسمبلی سمیت مرکز اور صوبے میں اہم عہدوں پر سرائیکی فائز رہے ترقی نہیں ہوئی تو مجرم وہ ہیں مملکت اور نظام نہیں۔
ان دوستوں اور ناقدین سے اتفاق ممکن نہیں ایک نہیں درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں مگر اس ملاکھڑے کا فائدہ کیا ہوگا پھر بھی ایک مثال ان سب کے سامنے رکھے دیتا ہوں عثمان بزدار پونے چار سال وزیراعلیٰ پنجاب رہے حالیہ بارشوں اور طوفانی سیلابی ریلوں سے تحصیل تونسہ کی درجنوں بستیاں صفحہء ہستی سے مٹ گئیں ہزاروں خاندان کھلے آسمان کے نیچے بے یارومدد گار پڑے ہیں اب بتائیں اسے کیا کہیں اور خود بزدار گزشتہ روز جو ڈرامہ کرتا رہا اس پر اسے نشان پاکستان دینا ہے یا ہلال امتیاز ؟
چلیئے ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں عمومی طورپر ہمارے ہاں ٹریفک کے المناک حادثات کو امر ربی قرار دے کر متعلقہ علاقوں کی انتظامیہ جان چھڑاتی دیکھائی دیتی ہے اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگلے مرحلہ پر کسی اور علاقے میں رونما ہونے والے حادثے پر بھی یہی رویہ اور سوچ غالب ہوتے ہیں۔
سرائیکی وسیب کی تحصیل لیاقت پور کے معروف قصبے فیروزہ شہر کے وسط میں گزشتہ سے پیوستہ روز پیش آنے والے ٹریفک کے ایک المناک حادثے کے بعد بھی ضلعی و تحصیل انتظامیہ کا رویہ عجیب و غریب ہی رہا ۔
اس حادثے میں چینی کی بوریوں سے بھرا ہوا ٹرک خستہ سڑک کے گڑھے میں پھنسی ہوئی مسافر کوچ پر الٹ گیا۔ ٹریک کے نیچے دبنے والی مسافر کوچ کے 14مسافر جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔
عینی شاہدین کے مطابق فیروزہ شہر کے وسط سے گزرنے والی سڑک کئی عشروں سے اسی طرح ٹوٹی پھوٹی ہوئی ہے۔ ٹریفک حادثات لگ بھگ 2کلومیٹر سڑک کے اس حصے میں روزانہ کا معمول بن چکے ہیں۔
مقامی شہریوں نے سینکڑوں بار ارباب اختیار کو فیروزہ بائی پاس کی اشد ضرورت کی طرف متوجہ کیا افسوس کہ انتظامیہ کیا سنتی اس علاقے سے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے سیاسی رہنمائوں نے بھی اس ’’قاتل سڑک‘‘ کے معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی۔
گو رحیم یار خان کے ڈپٹی کمشنر نے حالیہ حادثے کی وجوہات جاننے کے لئے تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ تحقیقات کس بات کی ہونی ہیں؟ کیا فیروزہ کے علاقے (اس میں شہری حدود بھی شامل ہے) میں تقریباً 2کلومیٹر کا سڑک کا جو حصہ برسوں بلکہ عشروں سے کھنڈرات کی صورت میں انسانی جانوں کو نگل رہا ہے یہ کھنڈرات راتوں رات ہی بن گئے؟
ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان کو چاہیے کہ تحیقات شروع کروانے سے قبل کم از کم اس حادثے کے بعد مقامی تھانے میں درج ایف آئی آر ہی منگواکر دیکھ لیں تاکہ انہیں پولیس کی فرض شناسی اور معاملہ فہمی کے ساتھ اس بے حسی کا بھی ادراک ہوسکے جو وسیب میں انتظامیہ اور پولیس کا ہمیشہ سے طرہ امتیاز رہا اور ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ اشد ضرورت کے باوجود فیروزہ بائی پاس کے منصوبے کی ابتدائی رپورٹ ہی آج تک تیار کیوں نہ ہوپائی ثانیاً یہ کہ بڑے قصبوں اور شہری علاقوں کے اندرونی حصوں میں بھاری ٹریفک کے داخلے کے لئے مقررہ اوقات کار پر کس نے عمل کروانا ہے اور حقیقت میں اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟
سانحہ فیروزہ محض ایک ممول کا ٹریفک حادثہ ہرگز نہیں یہ مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے اس حادثے میں 14انسانی جانوں کے ضیاع کی بدولت صوبائی اور ملکی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر مرکزی اہمیت حاصل کرگئی ورنہ اس سڑک پر حادثات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں۔
ٹریفک کے بہائو کے اعتبار سے چنی گوٹھ سے رحیم یار خان تک کی یہ سڑک مرکزی قومی شاہراہ کی طرح مصروف ترین سڑک ہے۔ تعمیر شاہرات کا محکمہ ہو یا دوسرے متعلقہ محکمے، سبھی کو اس طویل اور یک رویہ سڑک پر مسافروں کو پیش آنے والی مشکلات اور آئے دن کے حادثات بارے اچھی طرح معلوم ہے
مگر بدقسمتی سے کبھی بھی کسی نے انسانی بنیادوں پر اس معاملے کو دیکھنے اور مسئلہ کو حل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی حالانکہ اس امر سے متعلقہ محکموں کے حکام بخوبی آگاہ ہیں کہ رحیم یارخان سے چنی گوٹھ تک کی اس سڑک پر کن قصبات اور شہروں میں بائی پاسوں کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ روز فیروزہ میں پیش آنے والے ٹریفک کے المناک حادثے پر پورا وسیب سوگوار ہے۔ 14قیمتی جانیں چینی سے لدے ٹرک کے نیچے دب کر حیات ابدی کے سفر پر روانہ ہوئیں متعدد افراد شدید زخمی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے خاندانوں کی ہنگامی بنیادوں پر مالی امداد کی جائے۔ زخمیوں کے علاج معالجے کے لئے کوئی کسر نہ اٹھارکھی جائے۔
اسی طرح صوبائی حکومت محکمہ شاہرات کو سختی سے ہدایت کرے کہ وہ چنی گوٹھ سے رحیم یارخان تک کی اس یکطرفہ سڑک کو کشادہ کرنے کے ساتھ اس پر بائی پاسوں کی تعمیر کے حوالے سے ابتدائی سروے اور رپورٹ ہنگامی بنیادوں پر تیار کرے تاکہ صوبائی حکومت کی منظوری سے شاہراہ کو دو رویہ بنانے اور بائی پاس تعمیر کرنے کا منصوبہ منظور کرکے تعمیر کا آغاز ہوسکے۔
گزشتہ روز کے سانحہ (ٹریفک حادثہ) فیروزہ کے حوالے سے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرنے پر اے سی لیاقت پور اور مقامی پولیس سٹیشن کے عملے کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی بہت ضروری ہے۔ ہم امید کرتے ہیں صوبائی حکومت اس المناک حادثے کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری اقدامات کرے گی۔
حرف آخر یہ ہے کہ چند لمحے قبل اطلاع ملی کہ پنجاب کے جوڈیشل وزیر اعلیٰ نے سانحہ فیروزہ کے مرحومین کے ورثا کیلئے 2 لاکھ روپے فی کس امداد کا اعلان کیا ہے افسوس کے اس امداد کے معاملے میں بھی ہمارے وسیب کو احساس دلایا گیا کہ تم درجہ سوئم کے شہری ہو
پس نوشت
تحریر مکمل ہوچکی تو اطلاع ملی کہ ملتان کے قریب موٹر وے کے جلال پور پیروالہ انٹر چینج پر مسافر بس اور آئل ٹینکر کے حادثے میں 20 مسافر جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر