نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غربت کی قید میں جکڑے لوگ||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے یوم آزادی کے موقع پر یتیم بچوں کے ادارے کاشانہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ امیر اور غریب کو برابر تعلیم ملنی چاہئے۔ صدر نے بجا اور درست کہا مگر جب تک طبقاتی تعلیم کا خاتمہ نہیں ہو گا، اُس وقت تک ممکن ہی نہیں کہ غریب اور امیر کے بچے ایک جیسی تعلیم حاصل کر سکیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کہنے کو سب کہتے ہیں کہ تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے مگر ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ سب سے کم بجٹ تعلیم کیلئے رکھا جاتا ہے۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آرہا ہے۔ عمران خان کے دور میں بھی تعلیم کے بجٹ میں اضافہ نہ ہوا۔ یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے حوصلہ افزا بیان دیا ہے کہ صوبے میں گریجویشن تک فری تعلیم ہو گی اور یونیورسٹی کی سطح پر طلبہ کو فری کتابیں مہیا کی جائیں گی لیکن یونیورسٹی میں کتابوں سے زیادہ مسئلہ بھاری فیسوں کا ہے۔ کم از کم پسماندہ علاقوں میں غریب کے بچوں کو یونیورسٹی کی فیسوں میں ریلیف ملنا چاہئے۔ چودھری پرویز الٰہی کو اس سلسلے میں اقدام کرنا چاہئے کہ سابقہ دور میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ اب اُسی پالیسی کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے یوم آزادی کے موقع پر لاہور میں ملی نغمے گانے والے خصوصی بچوں کیلئے تین تین لاکھ اور لیڈ سنگر کیلئے پچاس ہزار روپے اور اسی طرح پولیس بینڈ کیلئے ایک لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا۔ وزیر اعلیٰ کا اقدام خوش آئند ہے لیکن یہ اقدام پورے صوبے کیلئے ہونا چاہئے خصوصاً پسماندہ علاقوں کے بچے اور بچیوں کی زیادہ حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ لاہور میں عمران خان کا بہت بڑا جلسہ ہوا ، اُس پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے دوسری طرف اپنے ٹوئٹ میں عمران خان کا یہ کہنا کہ آزاد میڈیا اور آزادی اظہار کے معاملے کو عوامی رابطہ مہم کا حصہ بناوں گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے دور میں میڈیا سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہوا اور عمران خان کی میڈیا ٹیم کے غلط اقدامات کی وجہ سے میڈیا ہائوسز کے لاکھوں لوگ بیروزگار ہوئے اور آج بھی وہ مشکلات کا شکار ہیں۔ سیاستدانوں کے قول فعل کا تضاد ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔ سیاستدان جب کرسی پر نہیں ہوتے تو اُن کی باتیں کچھ اور ہوتی ہیں اور جب اقتدار میں آتے ہیں تو ایک دم بدل جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے اقتدار کی جنگ میں سیاست آگے اور ریاست پیچھے رہ گئی ہے۔ ملک و قوم کیلئے کوئی نہیں سوچ رہا۔ کہنے کو سب کہتے ہیں کہ اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہے مگر سب سیاستدان اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ معاشی خود مختاری کے بغیر آزادی نہ مکمل ہے۔ معاشی خود مختاری کہاں سے آئے گی؟ جب ملک بھاری قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر پاکستانی معیشت کو سانس لینے کی بھی اجازت نہیںتو معاشی آزادی کہاں سے آئے گی؟ 75 سالوں میں ترقی کی بجائے تنزلی ہوئی ہے۔ 1960ء کے عشرے میں پاکستان جن ملکوں کو امداد دیتا تھا آج اُن کا دست نگر بنا ہوا ہے۔ مقتدر قوتوں اور سیاستدانوں نے ملک و قوم کے بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ بار بار کی سیاسی مداخلت اور مارشل لا اور یکے بعد دیگرے مارشل لاء نے ملک کا بیڑہ کر کے رکھ دیا۔ معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہوتا ہے۔ جب ملک پر امن نہ ہو تو کون سرمایہ کاری کرے گا؟ آج کل گلوبل ویلج ہے معیشت کو بھی دنیا کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کا نام دیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں سب سے زیادہ استحصال غریب کاشتکار کا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی یہ بھی بدقسمتی ہے کہ سیاستدانوں کا تعلق اشرافیہ سے ہے۔ ان کو کیا پتہ غربت کیا ہوتی ہے؟ بیروزگاری اور مہنگائی کا غریب طبقات پر کیا اثر پڑتا ہے؟ اب یہ بھی دیکھئے کہ ملک کی تمام جماعتیں برسراقتدار ہیں لیکن کوئی مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ صوبے کے مسئلے کو ہی دیکھ لیں کہ پہلے (ن) لیگ اور پی پی ایک دوسرے پر الزام لگاتے تھے کہ صوبہ کی راہ میں وہ رکاوٹ ہیں۔ اب دونوں برسراقتدار ہیں ، صوبے کا مسئلہ اسمبلی میں کیوں نہیں لاتے؟ تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے خاتمے کے عین موقع پر صوبے کی قرارداد جمع کرائی مگر اس کے بعد وہ خاموش ہو گئے۔ آج قرارداد سامنے لائیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ صرف ووٹ لینے کیلئے سیاست نہ کریں بلکہ ملک و قوم کا سوچیں۔ کہنے کو تو عمران خان نے لاہور میں حوالہ دیا کہ سیاستدان الیکشن کا سوچتا ہے جبکہ لیڈر قوم اور اس کے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ صرف باتیں کیوں ہیں؟ عملی طور پر اقدامات کیوں نہیں کئے جاتے؟ یوم آزادی کے موقع پر غربت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگوں کا سوال ہے۔ کیا حکمران اور سیاستدان اس کا جواب دینا گوارہ کریں گے؟ بزرگ سیاستدان اور سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ یوم آزادی کا تقاضہ ہے کہ سیاست پر ریاست کو اہمیت دی جائے۔ چودھری صاحب کا فرمان بجا ہے مگر اس سیاست پر بھی قربان جانے کو جی چاہتا ہے۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاست بھی اصول اور انصاف پر مبنی ہونی چاہئے اور سب کو اپنی اپنی حدود میں عدل سے کام لینا چاہئے۔ ہم اپنے وسیب کو دیکھیں تو ڈی جی خان میں دوبارہ سیلاب آگیا ہے، فیروزہ میں ویگن حادثے میں 13 افرادجاں بحق ہو گئے، کسی کو انصاف نہیں ملا، پولیس نے ایف آئی آر میں نامعلوم افراد کو حادثے کا ذمہ دار قرار دیا، یہ انصاف نہیں مذاق ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author