مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آپ تھوڑا انتظار کرلیں||سرفراز راجا

خبر ہوتی ہے۔ یعنی خبر دینا اس کی ذمہ داری اور خبر کی ذمہ داری لینا بھی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور یہی چیز اس کو باقی سب سے مختلف کرتی ہے۔ ورنہ ادھر ادھر کی خبریں دینے والے تو گلی محلوں اور رشتہ داروں میں بھی بہت پائے جاتے ہیں۔

سرفراز راجا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صحافتی کیرئر کے ابتدائی دنوں میں ایک روز ایک خبر فائل کی، سوچا بڑی خبر ہے۔   فرنٹ پیج کے اوپری حصے میں ہی جگہ مل جائے گی۔ کوئی اور بڑا واقعہ نہ ہوا تو لیڈ سٹوری بھی بن سکتی ہے۔ کچھ دیر بعد نیوز روم سے ایک سینئر نے کال کر کے بلایا سوچا شاید اچھی خبر پر داد تحسین دینے ملے گی انہوں نے بڑے احترام کے ساتھ پاس بٹھایا، بولے بیٹا آپ کی خبر اچھی ہے لیکن اس میں آپ نے امکان کا اظہار کیا ہے  یعنی یہ بات ہوسکتی ہے۔  میں بے کہا جی بالکل۔ بولے لیکن امکان کا مطلب ہے کہ ایسا نہیں بھی ہوسکتا۔  میں نے کہا کم امکانات ہیں۔ بولے امکانات تو بحر حال ہیں۔ میں نے کہا جی۔ یہ تو ہے۔ بولے مطلب ابھی واضح نہیں کہ ایسا ہوگا بھی یا نہیں۔ توجب ہم خود کلیئر نہیں تو اپنے قارئین کو کنفیوز کیوں کریں۔ آپ تھوڑا مزید انتظار کرلیں معاملہ واضح ہونے دیں پھر ڈٹ کر خبر دیں گے۔ بحث تو ہوسکتی تھی لیکن وہ جو سمجھانا چاہتے تھے وہ سمجھنے کی کوشش کی۔ اورہمیشہ کے لئے سمجھ لیا کہ اکثر جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ سٹوری ختم ہوچکی ہی دراصل وہاں سے سٹوری شروع ہورہی ہوتی ہے۔  یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں دراصل معیاری اور دیانتدارانہ صحافت کے لئے معیار کا تعین کرتی تھیں،تاکہ اپنے قارئین اور ناظرین کو کسی دھوکے میں نہ رکھا جائے۔ ان تک حقائق اپنی پوری دیانتداری کے ساتھ پہنچائے جائیں۔ پھر الیکٹرانک میڈیا کی بھاگ دوڑ شروع ہوگئی۔ پہلے خبر دینے کا اعزار برقرار رکھنے میں خبر سے زیادہ اعزاز

برقرار رکھنے پر توجہ دی گئی خبر کا ریکارڈ چونکہ صرف چینل کے پاس ہی ہوتا تھا، اس لئیخبر ٹھیک نکل آئی تو اپنی بلے بلے شروع کردی اور باونس  ہوگئی تو ایسے خاموش ہوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس سے خبر دینے والوں کو بھی کچھ چھوٹ مل گئی اور انہوں نے بھی تھوڑا کھل کر کھیلنا شروع کردیا۔ لیکن جیّد صحافی اس دور میں بھی یہی کوشش کرتے کہ ان کے نام کے ساتھ کوئی ایسی خبر منسوب نہ ہو  جائے جو آگے چل کے پٹ جائے۔ٹی وی چیبلز نے معیار کو ایسے ہی بدلا جیسے محدود اوور کی کرکٹ نے ٹیسٹ کرکٹ کو… رنگین کٹ ،ڈے نائیٹ میچ،جارحانہ کھیل، چھکے چوکے،سنسنی خیزی ،لیکن پھر انٹرنیٹ کی رفتار تیز ہوئی تو صحافت کی رفتار اس سے بھی تیز ،لیکن بدقسمتی سے دونوں کا سفر مخالف سمت میں ہوا ایک اوپر تو دوسری نیچے۔ ٹیکنالوجی تھرڈ جنریشن میں پہنچی تو صحافت تھرڈ کلاس میں۔

اب کسی کے لئے بھی صحافی بننا کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں رہا بلکہ اس کے اپنے ہاتھ بلکہ انگلیوں میں آگیا۔ ٹچ ٹیکنالوجی نے ٹچ صحافت کو بھی جنم دیا۔ جو اصل میں ان ٹچ صحافت ثابت ہوئی، جو صحافی نہیں تھا اس کے لئے صحافت کرنا انتہائی آسان ہوگیا اور جو صحافی تھا اس کے لئے مشکل  ،سنی سنائی کو بغیر تحقیق آگے پھیلا دو، خیالات کو ذرائع کا نام دے کر خواہشات کو خبر بنا دو،   کسی مخصوص جماعت یا طبقے کو پکڑ لو جو ریٹنگ دلائے۔ اور یہ سب عمر بھرصرف صحافت کرنے والے کے بس میں تو تھا نہیں۔ سبسکرائبز،ویوز اور لائیکس کی اس دوڑ نے معیار تو دور خبر کی اہمیت بھی ختم کردی۔ جب خبر کی اہمیت ختم تو صحافی بھی فارغ… بڑا صحافی وہی بن گیا جو جیسے تیسے بھی کرے بس ویوز اور لائیکس لے۔ سیکھا یہی تھا کہ کسی سیاسی جماعت یا ادارے کا ترجمان کبھی آپ کو خبر نہیں دے گا بلکہ اس سے آپ کواعلانات اور اطلاعات ہی ملیں گی وہ بھی اس کی مرضی کی اور آپ سے تعلق کو وہ کئی خبریں رکوانے کے لئے استعمال کرے گا لیکن یہاں تو صحافی ترجمانوں کے بھی ترجمان بن کررہ گئے۔

صحافی دراصل ہوتاکون ہے یہ بحث تو الیکڑانک میڈیا کے پاؤں جماتے ہی شروع ہوگئی تھی جب اپنا پرائیوٹ کلینک چلانے والے ڈاکٹرز ، دن کو کچہریوں میں ملزمان کی ضمانتیں کروانے والے وکیل اور بہت سے کبھی کچھ نہ کرنے والے رات کو ٹی وی چیبلز پر بیٹھ کر صحافت کے بنیا دی  اصول سکھانے  لگے۔ جب مارننگ شوز  کی میزبانی کرنے والے اداکارائیں خود کو صحافی کہہ کر بات کرتیں۔ اور دیکھنے والے بھی یہی سمجھتے کہ جو  جتنا زیادہ دکھائی دیتا ہے وہ اتنا بڑا صحافی ہوگا۔ ان کو یہ کون بتاتا کہ   صحافی اصل میں وہ ہوتا ہے جس کی ذمہ داری خبر اور جس کی

 

خبر ہوتی ہے۔ یعنی خبر دینا اس  کی ذمہ داری اور خبر کی ذمہ داری لینا بھی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔  اور یہی چیز اس کو باقی سب سے مختلف کرتی  ہے۔ ورنہ ادھر ادھر کی خبریں دینے والے تو  گلی محلوں اور رشتہ داروں میں بھی بہت پائے جاتے ہیں۔ تھرڈ اور فورتھ جنریشن ٹیکنالوجی  کی ففتھ جنریشن وار نے تو اس بحث کو ہی ختم کردیا کہ صحافی کون ہے  اب تو بڑے بڑے صحافی بھی مان گئے ہیں کہ بڑا صحافی بننے کے لئے بڑی خبر کی نہیں بڑے لائیکس اور ویوز کی ضرورت ہے۔ باقی رہی صحافت تو وہ گئی تیل   لینے…!

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سرفراز راجا کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: